تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-04-2014

ہمیں کمیٹی سے بچاؤ

حکومت کے ایک سے زیادہ ترجمانوں نے طالبان کو دھمکی دی ہے کہ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد‘ انہوں نے پاکستان کے مفادات پر حملہ کیا‘ تو انہیں فوراً اس کا جواب دیا جائے گا۔انہوں نے 17 اپریل کو‘ لنڈی کوتل میں ایف سی کے اسلحہ ڈپو پر حملہ کر کے‘ اسے شعلوں کی نذر کر دیا۔ ذخیرے کے اندر موجود تمام اسلحہ جل کر راکھ ہو گیا۔ یہ گوریلا جنگ ہے۔ محاذ پر میڈیا کے نمائندے پہنچ نہیں سکتے۔ جو خبر فریقین کی طرف سے آئے‘ اسی پر یقین کرنا پڑتا ہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فاٹا کے متاثرہ علاقوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی صحیح خبریں میڈیا تک نہیں آتیں۔ گوریلا جنگ کے اصولوں کو دیکھا جائے‘ تو عین ممکن ہے کہ اسلحہ ڈپو کے چند پہریداروں کو بھگا کر یا گرفتار کر کے‘ دہشت گردوں نے تمام اسلحہ لوٹ کر‘ اپنی کمیں گاہوں میں سٹور کر لیا اور عمارت کو بموں سے اڑا کر خبر پھیلا دی ہو کہ ڈپو جلا دیا گیا ہے۔ گوریلا جنگوں میں ایسی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں۔ کل 18 اپریل کو ایف سی کے ایک دستے پر حملہ کیا گیا‘ جس میں ایک جوان شہید ہوا‘ ایک زخمی ہوا اور دوسرے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان دونوں حملوں کو 24 گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ میں ''فوراً‘‘ کا مطلب ڈھونڈنے کے لئے ڈکشنریوں کی ورق گردانی کر رہا ہوں۔ کسی بھی ڈکشنری میں ''فوراً‘‘کے مفہوم میںکل یا پرسوں کا ذکر نہیں آتا۔ فیروزاللغات میں دو دو لفظ نظر آتے ہیں۔ ایک ''اسی وقت‘‘۔ دوسرا ''جھٹ پٹ‘‘۔ دہشت گردی کی دونوں وارداتوں کو گزرے‘ ایک اور دو دن ہو چکے ہیں۔ آج کا دن بھی آدھے سے زیادہ گزر گیا ہے‘ لیکن طالبان کے حملوں کا جواب‘ جو حکومت کی طرف سے فوراً آنا تھا‘ ابھی تک نہیں آیا۔ اگر باغیوں کی رفتار یہ ہے کہ وہ جنگ بندی میں توسیع سے انکار کرتے ہیں اور دو تین دن بعد ہی حملے کرڈالتے ہیں اور ہم جو دنیا کی جدیدترین فوجی مشینری‘ اسلحہ‘ تربیت‘ وسائل اور اپنی سرزمین پر پورا کنٹرول لئے بیٹھے ہیں‘ دہشت گردوں کو فوراً جواب دینے میں ناکام رہے۔ بھارت کے ایک ڈرامہ سیریل کا ایک کردار بات بات پر کہتا ہے ''کہیں تو گڑبڑ ہے۔‘‘ جب ''فوراً‘‘ کی جگہ 3 دن لے لیں‘ تو یہی کہنا پڑے گا ''کہیں تو گڑبڑ ہے۔‘‘ 
دہشت گردی کے امور کا نگران وزیر‘جب فوراً جوابی حملے کا اعلان کر کے‘ 3 دن کچھ نہ کرے تو خود ہی سوچ لیں کہ حوصلے کس کے بلند ہوں گے؟ طالبان کے یا ہمارے؟ پاک افغان سرحد پر ایک کلومیٹر فاصلے پر‘ پاکستان کی دو چوکیاں تھیں۔ وہاں ایک سانحہ ہوا‘ جس پر امریکہ اور پاکستان میں تنازعہ کھڑا ہو گیا۔ امریکہ نے ہر طرح کا دبائو مسترد کرتے ہوئے معافی مانگنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں جب اسے سپلائی روٹ کھلوانے کی مجبوری ہوئی‘ تو اس نے صرف ''افسوس‘‘ کا لفظ استعمال کیا‘ جسے ہمارے لیڈروں نے ''معافی معافی‘‘ کہہ کے سپلائی روٹ کھول دیا۔ اس واقعے کے بارے میں آج تک حقیقت سامنے نہیں آ سکی۔ پاکستانیوں کا موقف ہے کہ حملہ امریکیوں نے کیا۔ امریکیوں کا موقف ہے کہ دہشت گردوں کا تعاقب کرنے والے ‘ان کے ہیلی کاپٹر پر‘ پاکستانی چوکی سے فائر ہوا تھا۔ اس طرح کے فیصلے کبھی نہیں ہوا کرتے۔ یہ واقعہ میں نے صرف لفظ ''فوراً‘‘ کا جنگی مفہوم ظاہر کرنے کے لئے لکھا ہے۔ حملہ کسی طرف سے ہوا ہو‘ فائر جس نے بھی کھولا ہو‘ معرکہ چند سیکنڈ کے اندر مکمل ہو گیا۔ پہل جس نے بھی کی‘ جواب چند سیکنڈ میں آیا۔ اسے کہتے ہیں ''فوراً‘‘۔ یہ کیسا تھکا ہوا ''فوراً‘‘ ہے‘ جس میں حملہ آور نے اسلحے کا ذخیرہ تباہ کر دیا‘ ہماری فورسز کے ایک جوان کو شہید کر دیا اور ہمارا سرکاری ''فوراً‘‘ابھی تک جماہیاںاور انگڑائیاں لے رہا ہے۔ابھی یہ ہاتھ منہ دھوئے گا‘ ریسٹ روم جائے گا‘ ناشتہ کرے گا‘ غسل کرے گا‘ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کرلباس پہنے گا‘ وگ لگائے گا‘ دفتر جائے گا‘ کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھے گا اور اس کے بعد بھی پتہ نہیںطالبان کے حملوں کا جواب کب دے گا؟ ہمیں باور کرنا پڑے گا کہ وعدے کے مطابق پاکستانی حکومت نے ''فوراً‘‘ جواب دے دیا۔ 
باقی باتیں اپنی جگہ‘ لیکن یہ کونسا طرزِ جنگ ہے؟ جس میں دشمن کی طرف سے پہل کا انتظار کیا جاتا ہے اور جب دشمن اپنی مرضی کے نشانے پر زیادہ سے زیادہ جانی اور مالی نقصان پہنچا کر فارغ ہو جائے‘ اس کے بعد ہم اس کو ''جواب‘‘ دیں۔ جنگ ہم نے نہیں چھیڑی۔ جنگ آج سے سات آٹھ سال پہلے طالبان نے ہمارے ملک کے خلاف چھیڑی ہے۔ وہی ہمارے شہروں اور بستیوں پر حملے کر رہے ہیں۔ وہی ہماری فوج کے افسروں اور جوانوں کو شہید کر رہے ہیں۔وہی مسجدوں اور امام بارگاہوں میں عبادت گزاروں کو بموں سے اڑاتے ہیں۔ سکولوں اور ہسپتالوں کو تباہ کرتے ہیں۔ مارکیٹوں میں دھماکے کرتے ہیں۔ ہماری بحری‘ بری اور فضائی افواج کے حساس مراکز پر حملے کرتے ہیں اور ہم نے 8برس میں 50ہزار سے زیادہ بیگناہ انسانوں کی جانیں لینے والوں کو جواب دینے کا جو فیصلہ کیا‘ وہ یہ ہے کہ ''آئومذاکرات کرتے ہیں۔‘‘ ہماری طرف سے مذاکرات کی پیش کش کے جواب میں‘ طالبان نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا‘ وہ کسی بھی طور ایک ایٹمی طاقت کے شایان شان نہیں۔ واقعات کو ذرا ترتیب سے یاد کیجئے۔ ہمارے وزیراعظم نے ازخود مذاکرات کا اعلان کیا۔ خود ہی ایک اعلیٰ درجے کی مذاکراتی ٹیم تشکیل دے دی۔ پھر امید بھری نظروں سے طالبان کی طرف دیکھنے لگے۔ طالبان نے کوئی کمیٹی نہیں بنائی۔ جب انہوں نے ناموں کا اعلان کیا‘ ان میں سے ایک نے انکار کر دیا اور دوسرے کوانکار کرنا پڑ گیا۔مذاکراتی ٹیم میں باقی جو لوگ رہ گئے ہیں‘ ان میں سے ایک بھی طالبان سے وابستہ نہیں۔ مذاکراتی کمیٹی کی رکنیت لیتے ہی یہ لوگ شمالی وزیرستان جانے کی بجائے ٹیلیویژن سٹوڈیوز پر چڑھ دوڑے اور اپنی اپنی دھن میں ‘ اپنے اپنے مطلب کی باتیں کر کے فن خطابت کے مظاہرے کرتے نظر آئے۔ ہر ''مذاکراتیے‘‘ کا ایک ہی مشن ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی دن میں‘ زیادہ سے زیادہ کتنے ٹیلیوژنوں پر اپنے رخ روشن کی نمائش کرتا ہے؟ عموماً ان کی باتیں یوں ہوتی ہیں۔ ''ہم طالبان سے ملیں گے۔ ہم طالبان سے کہیں گے۔ ہم طالبان سے پوچھیں گے۔ طالبان کے مطالبات جائز ہیں۔ طالبان کے کچھ تحفظات ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں مناسب جواب نہیں دیا جا رہا۔ ہم سرکاری کمیٹی سے ملنے والے ہیں۔پاکستان حملے نہ کرنے کا یقین دلا ئے۔ ہم طالبان سے حملے روکنے کے لئے کہیں گے۔‘‘ حقیقت میں طالبان کی یہ کمیٹی صرف اور صرف ایک بار سرکاری نمائندے کو لے کر شمالی وزیرستان گئی۔ گئی یا نہیں گئی۔ خبروں میں یہی آیا۔ باقی اڑھائی مہینے صرف طالبانی کمیٹی کے اراکین کی آنیاں جانیاں ہی ہوتی رہیں۔ وہی آتے ہیں۔ وہی جاتے ہیں۔ پتہ نہیں کہاں جاتے ہیں؟ قبائلی علاقے کا کہہ کر جاتے ہیں اور ٹی وی سٹوڈیوز میں واپس آتے ہیں۔ اسلام آباد کے مہمان خانوں میں قیام فرما ہو کر حکومت کی طرف سے بھی‘ بیانات وہی جاری کرتے ہیں۔ جیسے ''ہم حکومت سے رابطہ کر رہے ہیں۔ہماری وزیرداخلہ سے ملاقات ہونے والی ہے۔ ہم نے ملاقات کر لی ہے۔ ہم طالبان سے ملاقات کریں گے۔‘‘ اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ طالبان سے ملتے ہیں یا نہیں‘ لیکن جو کچھ انہوں نے طالبان کی طرف سے کہا عملاً اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ کمیٹی نے بتایا کہ ہم نے طالبان کو فلاں بات منوا لی ہے‘ مگر یہ نہیں بتایا کہ کیا منوایا ہے؟ اسی مخمصے کے دوران پاکستانی فضائیہ نے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کر دیئے۔ جب سخت چوٹ پڑی‘ تو کمیٹی والوں نے اعلان کیا ''ہم نے طالبان کو جنگ بندی پر رضامند کر لیا ہے۔‘‘ حقیقت میں یہ رضامندی کمیٹی والوں کے مطالبے پر نہیں‘ پاک فضائیہ کے ''مظاہرے‘‘ سے بچنے کے لئے ہوئی۔ طالبانی کمیٹی نے اپنا سارا زور طالبان کے مطالبات منوانے پر صرف کیا۔ چند قیدیوں کو رہا کروا کے‘ انہوں نے طالبان سے داد بھی وصول کی اور کمال چابکدستی سے طالبان کی قید میں پڑے‘ بے گناہ پاکستانیوں میں سے ایک کو بھی رہا نہ کرا سکے۔ معاملات پھر وہیں کے وہیں ہیں‘ جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ اب طالبانی کمیٹی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ وہ اپنے اپنے عہدوں پر فائز رہیں۔ پاکستانی بھی موج کریں‘ طالبان بھی عیش کریں اور کمیٹی کا ڈھابہ بھی چلتا رہے۔ ہمارے دیہاتی بھائیوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جب دو فریقوں میں جھگڑا ہو جائے‘ توکوئی چلتا پرزہ آدمی ‘ دونوں کو اپنی چرب زبانی سے متاثر کر کے‘ ثالث بن بیٹھتا ہے۔ ایک دن ایک فریق کا مہمان بن کر خاطر مدارت کراتا ہے‘ اگلے دن دوسرے فریق کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ جب تک ثالث رہتا ہے‘ تب تک جھگڑا رہتا ہے۔ تنگ آ کے دونوں فریق ثالث کی ثالثی بھگتتے بھگتتے خود صلح کر لیتے ہیں‘ ثالث نئے جھگڑے کی تلاش میں دوسرے گائوں کی طرف چل دیتا ہے۔ لوگ تو کہتے ہیں‘ طالبان سے جان چھڑائو اور میں یہ کہنے کا سوچ رہا ہوں کہ ''ہمیں کمیٹی سے بچائو‘‘۔مجھے شک ہے طالبان بھی یہی کہتے ہوں گے ''ہمیں ہماری کمیٹی سے بچائو۔‘‘ بہتر ہو گا ‘ کمیٹی والے شمالی وزیرستان کو چھوڑ کر افغانستان کا رخ کر لیں۔ وہاں طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا نیا لیبل لگا کر‘ نئی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا دھندا شروع کر دیں اور نوازشریف کے لئے دعائیں کریں کہ انہوں نے اچھے کاروبار پر لگا دیا۔ اگلی منزل شام ہو سکتی ہے۔ لبیا میں اس کاروبار کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ ملک خدا تنگ نیست۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved