سالگرہ کے دن پہ ہی کیا موقوف منیر نیازی ان لوگوں میں سے ہیں جو ہر دوسرے چوتھے روز یاد آتے ہیں۔ کبھی صبح کاذب کی ہوا میں ریل کی سیٹی بجنے پہ دل لہو سے بھر جانے پہ تو کبھی کتابِ عمر کا کوئی باب ختم ہونے پہ کہ شباب ختم نہ بھی ہو تو بھی ہر نئے دن کتاب عمر کا کوئی نہ کوئی باب یا تو ختم ہو رہا ہوتا ہے یا اس کا آغاز ہو رہا ہوتا ہے‘ حتیٰ کہ موت خود ایک زندگی کا اختتام ہے تو یقینا ایک اور زندگی کی ابتدا بھی تو ہے۔ بقول میر ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
سو‘ 19اپریل کہنے کو تو منیر نیازی صاحب کی سالگرہ کا دن ہے مگر منیر جیسا لا محدود اور وسعتِ فکر و نظر رکھنے والا شاعر یقینا یاد آنے کے حوالے سے سالگرہ کے دن تک سمٹ کر رہ ہی نہیں سکتا تھا۔ انفرادی و ذاتی معاملات ہوں یا سیاسی، سماجی ایشوز منیر صاحب کے اشعار ہر مرحلے اور ہر معاملے پر نہ صرف کتھارسز میں مدد دیتے ہیں بلکہ جگنوئوں کی طرح رہنمائی بھی کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ سنسنی خیزی، بریکنگ نیوز، شور شرابے، اونچے سروں اور آنکھیں چندھیا دینے والی روشنیوں کے اس دور میں جگنوئوں کی رہنمائی دستیاب ہوتے ہوئے بھی ہم اس سے استفادہ نہیں کر پاتے۔
کسی بھی اچھے شاعر کی طرح منیر کے ایک ایک شعر کے ایک نہیں ہزاروں معنی نکلتے ہیں‘ پر آج منیر کے کچھ اشعار کو منیر کی یاد میں خاص ملکی حالات وملکی تباہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں‘ شاید کہ جی کا بوجھ کچھ ہلکا ہو سکے۔
جہاں آمریت کے نام پہ جمہوریت رچائی جاتی ہو یا موروثیت کے نام پہ جمہوریت بکتی ہو یا بادشاہت و شہنشاہیئت نے جمہوریت کا چوغہ اوڑھ رکھا ہو‘ وہاں منیر صاحب کا یہ شعر اصلی وخالص جمہوریت کے متلاشیوں کی سماعتوں تک یقینا پہنچتے رہنا چاہیے ؎
آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے
ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے
پاکستانی سیاستدان ہوں یا اشرافیہ‘ یا وہ تمام ادارے جو مل کر پاکستان کے اصل حکمران کا روپ دھارتے ہیں اور ان سب کو دستیاب پروٹوکولز، آسائشیں، سہولتیں، تحفظ، اور تعیشات جو نہ صرف انہیں حاصل ہیں بلکہ ان کے پورے پورے خاندانوں اور احباب تک کو حاصل رہیں‘ نہیں حاصل تو 20 کروڑ عوام کو حاصل نہیں‘ جب کہ حق عام پاکستانی کا تھا ،ہے اور رہے گا۔ خون پسینے کی کمائی عام پاکستانی کی تھی ، ہے اور رہے گی‘ جس پہ چند ہزار سیاستدانوں پر مشتمل حکمران قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ منیر کا یہ شعر اس المیے‘ اس حق تلفی کی نشاندہی کرتا ہے ؎
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
منیر صاحب کی ایک اور نظم بلا تبصرہ پیشِ خدمت ہے‘ اس دعوتِ فکر کے ساتھ کہ منیر صاحب نے جو جو خصوصیات سانپ کی بیان کی ہیں‘ ذرا غور کرتے رہیے گا کہ یہی خصوصیات ہمارے ارد گرد کِس کِس میں کِس کِس درجہ کی پائی جاتی ہیں۔ نظم تھی ''سانپ کی صفات‘‘
سر ہو تو وہاں پر سانپ
مہک ہو تو وہاں پر سانپ
زیرِ زمیں کی تاریکی میں
زَر ہو تو وہاں پر سانپ
اور منیر صاحب کی اس شہرہ آفاق پنجابی نظم کو12 اکتوبر، 11 مئی، کابینہ کے کئی ارکان کو چھوڑ کر اکیلے مشرف ٹرائل، ضدی طبیعت، بڑھکوں، میڈیا اور اداروں کے بیانات کے تناظر میں پڑھیں تو لطف بھی زیادہ آئے گا اور ''انہیں‘‘ سمجھ آئے نہ آئے قارئین کو بہت کچھ ضرور سمجھ آجائے گا... کہ بارہ اکتوبر سے پہلے کیا ہوتا ہے اور کیسے بارہ اکتوبرہوا کرتا ہے اور ہو جائے تو سوائے کفِ افسوس مَلنے کے کچھ نہیں رہ جاتا۔
ہونی دے حِیلے
کِس دا دوش سی، کِس دا نئیں سی
ایہہ گلّاں ہُن کرن دیاں نئیں
ویلے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہو کے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا‘ ایہہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں رُکدی نئیں
اِک واری جدوں شروع ہو جاوے
گل فیر اینویں مُکدی نئیں
کُجھ اُنج دی راہواں اوکھیاں سَن
کُجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کُجھ شہر دے لوک وی ظالم سَن
کُجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
اور رخصت سے پہلے منیر صاحب کے دو اشعار جو مجھے ذاتی حوالوں سے بے پناہ اداس بھی کر دیتے ہیں اور حوصلہ بھی دیتے ہیں۔
اس تیز رفتار شہری زندگی میں کیرئیر اور کامیابیوں کی دوڑ کیسے کیا کچھ ہم سے دور کر دیتی ہے‘ اس پر منیر صاحب کے یہ اشعار کبھی کبھی بے پناہ اداس کر دیتے ہیں ؎
کچھ وقت چاہتے تھے کہ سوچیں تِرے لیے
تو نے وہ وقت ہم کو زمانے نہیں دیا
اور یہ کہ ؎
رہنا تھا اس کے ساتھ بہت دیر تک مگر
ان روز و شب میں مجھ کو یہ فرصت نہیں ملی
مگر پھر کیسی ہی مایوسی کیوں نہ ہو‘ منیر صاحب کے یہ حمدیہ اشعار ہر حال میں حوصلہ دیتے ہوئے تھام لیتے ہیں ؎
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تُو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تُو
ماند پڑ جاتی ہے جب اشجار پر ہر روشنی
گھپ اندھیرے جنگلوں میں راستہ دیتا ہے تو
اور آخر میں منیر صاحب کی ایک اور یادگار اور خوبصورت غزل کو ذرا پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں دیکھیے گا:
ہم زباں میرے تھے ان کے دل مگر اچھے نہ تھے
منزلیں اچھی تھیں میرے ہم سفر اچھے نہ تھے
جو خبر پہنچی یہاں تک اصل صورت میں نہ تھی
تھی خبر اچھی مگر اہلِ خبر اچھے نہ تھے
بستیوں کی زندگی میں بے زری کا ظلم تھا
لوگ اچھے تھے وہاں کے، اہلِ زر اچھے نہ تھے
اِک خیالِ خام ہی مُرشد تھا ان کا اے منیرؔ
یعنی اپنے شہر میں اہلِ نظر اچھے نہ تھے
اس غزل کا ایک ایک مصرعہ اُس آسیب کی نشاندہی کرتا ہے جو اس ملک پہ برسوں سے سایہ کیے ہوئے ہے اور جس کے بارے میں منیر صاحب نے کہا تھا ؎
منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ