تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-04-2014

ترجیحات

سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات کا اسیر ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور سپہ سالار کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کی ترجیحِ اوّل کیا ہے ؟ 
سرکارؐ کے ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ زمانہ آئے گا ، جب سال مہینوں کی طرح ، مہینے دنوں کی طرح اور دن چولہے میں جلتے تنکوں کی طرح گزرتے جائیں گے ۔ ہم اسی زمانے میں جی رہے ہیں ۔ 
جنرل پرویز مشرف کو کراچی منتقل کرنے کی تیاری ہے ۔ جب تک یہ سطور شائع ہوں گی، امکان ہے کہ یہ مشن مکمل ہو چکا ہوگا۔ کیا یہ آصف زرداری ، نواز شریف ملاقات کا نتیجہ ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ اپنے حلیف کو انہوں نے فوج سے مفاہمت کا مشورہ دیا؟ کیا یہ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کا حاصل ہے ؟ آخر کار کیا میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار کی کوششیں رنگ لائیں گی اور سابق فوجی آمر کو بیرونِ ملک منتقل کر دیا جائے گا؟ 
کچھ بھی ہو، آشکار ہے کہ تنائو کم ہو اہے اور مزید کم ہونے کی امید کی جا سکتی ہے ۔ وزرائِ کرام میں سے اکثر یہ ارشاد کرتے رہے کہ فوج اور سول ایک ہی صفحے پر ہیں ۔ تب گزارش کی تھی کہ ایک صفحے پر نہیں ، ایک کاغذ پر۔ ایک ورق کے دونوں جانب ۔
کیا وہ ایک صفحے پر آسکتے ہیں ؟ کیا وہ مطلوب ہم آہنگی ممکن ہے ، جس کے بغیر اصل اور سنگین مسائل کا حل تلاش کرنے کی ابتدا بھی ہو نہیں سکتی؟ دہشت گردی کا خاتمہ ، بجلی کی بحالی ، معیشت کی تعمیر ، امن و امان کا قیام اور ٹیکس وصولی۔ دوسرے الفاظ میں سول اداروں کی تعمیر کا آغاز ، جس کے لیے ملک مدتوں سے ترس رہا ہے ، جیسے بھوکا بچّہ دودھ کے لیے ۔ 
سوال صرف پرویز مشرف کا نہیں ۔اس کے علاوہ بھی دو بڑے مسئلے ہیں ۔ وزرائِ کرام کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور دہشت گردی پہ قومی حکمتِ عملی ۔ خواجہ آصف کے وضاحتی بیان 
میں ، کاکول میں ان کی موجودگی کے علاوہ جنرل راحیل شریف کے لیے وزیراعظم کے حرفِ تحسین سے واضح ہے کہ صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک کر لیا گیا ہے ۔ دارالحکومت اور ملک بھر میں بحث اب اس پر ہے کہ کیا یہ محض وقتی حکمتِ عملی ہے یا یہ امکان بھی موجود ہے کہ تلخی تمام کرنے کا تہیہ کر لیا جائے ۔ ادارے باہم متصادم نہ رہیں اور منزل کی سمت سفر کا آغاز ہو ، مجروح قوم مدّتوں سے جس کی آرزومند ہے ۔ قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں وزیراعظم نے جب یہ کہا کہ تمام اداروں کے وقار کا تحفظ کیا جائے گا تو ایک حد تک انہوں نے چیف آف آرمی سٹاف کا موقف تسلیم کر لیا تھا۔اس لیے کہ شکایت تو انہی کو تھی ، کسی اور کو نہیں ۔جج صاحبان تو آسودہ ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی آسودہ۔ کہا جاتاہے کہ یہ زرداری صاحب کی نصیحت کا نتیجہ ہے ۔ خواجہ آصف نے کہاکہ وہ فوج کا احترام کرتے ہیں ۔ 
وطن کے لیے اس کی قربانیاں قابلِ فخر ہیں ۔ وہ ملک و قوم کا سرمایہ ہے اور ان کا مقصد کسی کو نیچا دکھانے کا نہیں تھا۔ اچھی بات ہے ، بہت ہی اچھی مگر کیا یہ دفع الوقتی ہے یا احساس و ادراک کا اجالا؟ ابھی یہ دیکھنا ہوگا ۔
بے رحمی کی حد تک حقیقت پسند کبیر واسطی نے ابھی ابھی مجھ سے کہاکہ فقط بیانات پر بھروسہ ممکن نہیں‘ عدمِ اعتماد کی خلیج کو پاٹنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے ۔ آزاد اخبار نویسوں کا خیال بھی یہی ہے ۔ البتہ نواز شریف کے ایک نفسِ ناطقہ نے ، جو ٹیلی ویژن پر ان کے ہرکاروں میں سے ایک ہے ، یہ کہا کہ زرداری تو تابع مہمل بن گئے تھے۔ مطلب یہ کہ تلوار اٹھائے ر کھو، بظاہر 
پسپائی اختیار کرو مگر دل میں انہیں دشمن سمجھو ۔ ان صاحب نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے یہ کہا تھا : اللہ، رسولؐ کا نام لینے سے گریز کیا کرو، فوج کی مخالفت کرو اور بھارت کے حق میں کلمہ ء خیر کہا کرو۔ 
ایک تو پیشہ ور خوشامدی ہیں اور دوسرے اس قماش کے لوگ۔ بو علی سینا کا قول یہ ہے : جو اپنے زخم یاد رکھتاہے ، اس کے زخم ہرے رہتے ہیں ۔ وزیراعظم کامزاج یہی ہے ۔ اس امر کا ادراک وہ ہرگز نہیں رکھتے کہ انتقام تو ذاتی زندگی میں بھی ممکن نہیں ہوتا؛چہ جائیکہ قومی معاملات میں ۔ یہ احساس بھی انہیں ہرگز نہیں کہ گزشتہ چھ بر س میں فوج کا روّیہ مختلف رہا ۔ ان کی انا بڑی ہے ، بہت بڑی ۔ بد گمانی سے اگر کام نہ بھی لیا جائے کہ خواجگان ان کے اشارے پر بروئے کار آئے‘ تب بھی آشکار ہے کہ وزیراعظم کی افتادِ طبع کا انہوں نے بہتر ادراک کیا۔ چوہدری نثار علی خان اور شہباز شریف منہ دیکھتے رہ گئے ۔ 
لگتاہے کہ اب ایک بار پھر وہ متحرک ہوئے ہیں ۔ فوجی قیادت کو انہوں نے یقین دلایا تھا کہ پرویز مشرف کو ملک سے نکل جانے کا موقعہ دے دیا جائے گا۔ جہاز یوں ہی تو نہیں پہنچا تھا۔ نہ کرنا چاہیے تھا، یہ وعدہ ہرگز نہ کرنا چاہیے تھا۔ حکومت کا حق ہے کہ جنرل پر مقدمہ چلائے اور عدالت نے اس کا حکم دیا تھا ۔ مار شل لا کا نفاذ الگ ، فوجی قیادت اور تمام دوسرے خیر خواہوں نے روکا مگر موصوف واپس آئے ۔ پھر ان کے وکلا نے جو وحشیانہ طرزِ عمل اختیار کیا، اس کے بعد بہت زیادہ نرمی کے مستحق وہ نہیں تھے۔ شریف خاندان کی غلطی یہ ہے کہ وہ قصاص اور انتقام کا فرق نہیں سمجھتے ۔ شاید سمجھنے کے آرزومند ہی نہیں ۔ انتقام کا نتیجہ فساد ہوتا ہے۔ تصادم، ٹکرائو اور جتھہ بندی۔ جیساکہ قرآنِ کریم قرار دیتا ہے، قصاص میں زندگی ہے ۔ اتنی ہی سزا ، جتنا کہ جرم سرزد ہوا ہو ۔ بنیادی اصول یہ ہے کہ کمزور اور طاقتور ، انصاف کا عمل سب کے لیے یکساں ہوتاہے۔ طاقتور کو پہلے اور کمزور کو بعد میں سز املنی چاہیے۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ معاملہ عدالت پر چھو ڑدیاجاتا؛ حالاں کہ اس میں ایک مسئلہ تھا۔ جج بجائے خود فریق تھے اور صاحبِ معاملہ جج نہیں ہوتا۔ جنرل پرویز صاحب کے ہاتھوں انہیں تکلیف پہنچی تھی ، عملاً مگر کوئی دوسرا قابلِ عمل راستہ نہ تھا۔ حکومت اور فوج کے درمیان دوبارہ اگر محاذ آرائی جنم لے گی تو عدلیہ اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالے گی ؟چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کا پیغام واضح ہے۔ چیخ پکار کی بجائے، تعجیل کی بجائے اگر حکمت، صبر اور تحمل سے کام لیا جاتا تو مسئلہ اس قدر سنگین بہرحال نہ ہوتا ۔ تاثر یہ ہوا کہ فوج کے خلاف سیاستدانوں کامحاذ تشکیل دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ بتایا جا رہا ہے کہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی ۔ ملتوی کر دی ہوتی ۔ یہ تو واضح تھا کہ تاثر کیا ہوگا۔ سیاست میں تاثر کی اہمیت حقائق سے زیادہ بھی ہوتی ہے۔ 
جہاں تک طالبان کا تعلق ہے ، اوّل دن سے عسکری قیادت اور منتخب حکومت کے طرزِ فکر میں اختلاف تھا۔ بہت ادب کے ساتھ وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا کہ مذاکرات آئین کے دائرہ کار میں ہونے چاہئیں ، وقت لامحدود نہ ہونا چاہیے اور معاملہ مولوی صاحبان کے سپرد نہ کر دیا جائے‘ وگرنہ وہ اسے ہائی جیک کرنے کی کوشش کریں گے ۔ تینوں مشوروں کو انہوں نے مسترد کر دیا اور سیاستدانوں کی تائید حاصل کر کے ایسی راہ پہ چل نکلے ، جس کا نتیجہ سامنے ہے ۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔
طالبان اور ان کی حلیف فرقہ پرست مذہبی جماعتوں کے باب میں وزیراعظم اور ان کا خاندان خوف کا شکار ہے ۔ اپنے ذاتی تحفظ کی فکر انہیں لاحق ہے ؛چنانچہ 5700افراد پر مشتمل پنجاب پولیس کی ایلیٹ فور س کا ایک چوتھائی حکمران خاندان کی حفاظت پر مامور ہے ۔ زندگی ہمیشہ حسنِ نیت کا مطالبہ کرتی ہے ۔ حسنِ نیت اور حکمت کا ۔ مقصود اگر انا کو گنّے کا رس پلانے اور دولت جمع کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ اگر کوئی بلند مقصد پیشِ نظر نہیں تو صورتِ حال سنورنے کے بعد بھی بگڑ جائے گی ۔ فوجی قیادت کے لیے بھی مضمون واحد ہے ۔ انا کی قربانی اگر نہیں دی جا سکتی۔ اگر اپنا دھڑا اور اپنی ذات ہی عزیز ہے تو نتیجہ معلوم ۔ کاکول میں وزیراعظم نے سپہ سالار کی آج اس طرح تعریف کی ، موچی دروازے کے جلسہ ء عام میں جیسے کوئی چھوٹالیڈر بڑے لیڈ رکی کیا کرتاہے ۔ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی ؟ کیا تربیلا کے بیان اور پھر قومی سلامتی کونسل کے ا جلاس میں عسکری قیادت کے ڈٹ جانے سے یا جناب زرداری کی نصیحت سے؟ یہ ''ڈنگ ٹپائو‘‘ انتظام ہے یا احساسِ ذمہ داری واقعی جاگ اٹھا ہے ؟ کیا کسی نے استعفے کی دھمکی دی اور ایک عظیم بحران لپکتا نظر آیا؟ 
سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ آدمی اپنی ترجیحات کا اسیر ہوتاہے ۔ وزیراعظم اور سپہ سالار کو خود سے سوال کرنا چاہیے کہ ان کی اوّلین ترجیح کیا ہے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved