پیارے یہودیو!
ہم تو آپ کا صفحہ نکال ہی نہیں رہے تھے کیونکہ ہمارے بعض اکابرین کے مطابق آپ بہت برے لوگ ہوتے ہیں اور آپ سے جتنا بھی دور رہا جائے اتنا ہی اچھا ہوتا ہے اور اس سے ایمان میں پختگی بھی پیدا ہوتی ہے‘ اگر چہ ہمارا ایمان پہلے ہی کافی پختہ ہے اور رہی سہی کسر طالبان حضرات آ کر پوری کر دیں گے‘ تاہم جب سے برادرم محمد اجمل نیازی نے ''ماہنامہ نوائے پٹھان‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں دعویٰ کیا ہے کہ ہم پٹھان یہودی النسل ہوتے ہیں‘ آپ کے بارے میں ہم نے اپنی رائے تبدیل کر لی ہے۔ ویسے بھی آپ حضرات ہماری طرح اہل کتاب واقع ہوئے ہیں اور اس بات کی پوری پوری گنجائش موجود ہے کہ آپ کے ساتھ اس قدر دوری روا نہ رکھی جائے‘ چنانچہ تب سے آپ کے حوالے سے استعمال کی جانے والی یہود و ہنود کی ترکیب بھی ہمیں اچھی نہیں لگتی اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یقینا آپ کے ‘ملک عزیز میں کچھ حقوق بھی ہوں گے‘ طالبان سے ڈرتے ڈرتے جن کے تحفظ کا بیڑہ بھی ہم اٹھانا چاہتے ہیں اور ہر طرح کی اقلیتوں کے ساتھ برابر کے سلوک کی جو تعلیم ہمیں دی گئی ہے‘ اس کا بھی تقاضا ہے کہ ہم آپ کی ممکنہ شکایات سے صرف نظر نہ کریں‘ چنانچہ محض انسانی ہمدردی کے پیش نظر اس صفحے کا اجراء کیا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ ہماری اس عاجزانہ کاوش کو پسند کریں گے اور اس کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے ہمیں آگاہ کرتے رہیں گے۔
سبق آموز واقعات
٭ایک یہودی نے اپنے دو سالہ بچے کو کھانے کی میز پر کھڑا کیا اور کہا کہ نیچے چھلانگ لگا دے۔ بچے نے کہا کہ مجھے چوٹ لگ جائے گی۔ جس پر یہودی بولا کہ گھبرائو مت‘ میں گرنے سے پہلے تمہیں کیچ کر لوں گا۔ بچے نے چھلانگ لگائی تو یہودی پیچھے ہٹ گیا۔ بچہ تلملا کر بولا‘''آپ نے تو کہا تھا کہ میں تمہیں کیچ کرلوں گا لیکن اب پیچھے ہٹ گئے ہیں!‘‘۔ ''یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ تم زندگی میں کسی پر اعتبار نہ کرو!‘‘یہودی نے جواب دیا۔
٭ایک یہودی نے اپنے بچے کی سالگرہ پر تحفہ دیتے ہوئے ایک چمکدار سکہ اور ایک میلا سا نوٹ ساتھ ساتھ رکھ کر پوچھا کہ ان میں سے کیا لینا پسند کرو گے‘ تو بچے نے سکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ لوں گا مگر اس میں لپیٹ کر!
٭ایک یہودی بہت لمبی بیماری کے بعد جب مرنے کے قریب پہنچا تو اس کے تینوں بیٹے بوڑھے کو دفن کرنے کے لیے قبرستان لے جانے کا مشورہ کرنے لگے ۔بڑا بولا‘''قبرستان یہاں سے کافی دور ہے اور دھوپ بھی بہت پڑ رہی ہے۔ٹرک کا انتظام کرنا پڑے گا‘‘ جس پر منجھلے نے کہا کہ کوئی عقل کو ہاتھ مارو۔ٹرک والا ایک ہزار سے کم پر رضا مند ہو گا؟کسی گدھا گاڑی کاانتظام ٹھیک رہے گا جس پر چھوٹا بولا کہ وہ بھی دو تین سو سے کم پر راضی نہیں ہو گا‘جس پر بوڑھا اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا۔''یار‘ تم کیوں اتنا فکر کرتے اور جھگڑے ہو‘ میں پیدل ہی چلا چلتا ہوں!‘‘
٭دو یہودیوں نے مشترکہ دکان کھول رکھی تھی۔ ایک بار وہ سفر پر کسی دوسرے شہر جا رہے تھے تو راستے میں ایک بولا‘''مجھ سے بڑی غلطی ہوئی‘پیسوں والا گلہ تو میں کھلا ہی چھوڑ آیا ہوں‘‘۔ ''اس کی فکر کیوں کرتے ہو‘‘دوسرے نے جواب دیا''ہم دونوں تو یہاں ہیں‘پیسوں کو کیا خطرہ ہے!‘‘
٭جنگ کے دن تھے‘ دونوں میاں بیوی سو رہے تھے کہ دھماکے کی آواز سن کر جاگ اٹھے‘میاں نے آنکھیں ملتے ہوئے بیوی سے پوچھا‘
''کیا ہوا ہے؟‘‘
''ساتھ والی گلی میں بم گرا ہے!‘‘بیوی نے جواب دیا۔''خدا کا شکر ہے!‘‘یہودی بولا‘''میں سمجھا مرغیوں کو بلا پڑ گیا ہے!‘‘
٭تین یہودی اپنے باپ کی سالگرہ پر دور دراز شہروں سے آئے تو ایک بولا‘''ڈیڈی‘ آپ سے گرم کوٹ کا وعدہ تھا لیکن مکان کی قسط دینی تھی‘ اس لیے نہ لا سکا‘‘دوسرا بولا‘''آپ کے لیے ایک بہت اچھا کمبل لانا چاہتا تھا لیکن اچانک کاروبار میں نقصان ہو گیا!‘‘جب تیسرے نے بھی خالی ہاتھ آنے کا کچھ اسی قسم کا عُذر پیش کیا تو یہودی بولا‘''کوئی بات نہیں میرے بیٹو!لیکن ایک بات میں آج تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ تمہاری ماں کے ساتھ میرا نکاح نہیں تھا!‘‘
اقوال زریں
٭آنوں دونیوں کا پورا پورا خیال رکھو‘ روپے اپنا خیال خود رکھ لیں گے۔
٭روپیہ خیرات کرنے سے پہلے اسے تین بار پوچھو کہ ایسا کروں یا نہیں‘اگر خاموش رہے تو دوبارہ جیب میں ڈال لو!
آج کا مقطع
میں اب کے اُس کا بھی احسان مند ہوں جو ظفرؔ
غریب خانے پہ اس خوشنما کے ساتھ آیا