تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     20-04-2014

تنہائی کے ستاسی برس

ایک سچا تخلیق کار‘ ایک خالص ادیب‘ اپنی ذات میں ہمیشہ تنہا ہوتا ہے۔ بظاہر وہ ہجوم میں گھِرا دکھائی دے‘ محفلوں میں بیٹھا نظرآئے ‘ تو بھی‘ ایک ازلی تنہائی کی دھند اس کے وجود کے گرد پھیلی رہتی ہے۔ لکھاری کو اس کے قاری‘ اس کی لکھی کہانیوں اور تراشی ہوئی نظموں میں ڈھونڈتے ہیں۔ تخلیق کار کے گرد پھیلی تنہائی کی یہ دھند ایک مضبوط دیوار جیسی ہوتی ہے‘ اس دیوار کے پار اترنا ممکن نہیں ہوتا‘ شاید تخلیق کار کی زندگی میں کوئی ایک آدھ شخص ہی ایسا ہو‘ جو اس کی ازلی تنہائی کا ساتھی بنے ۔سچی بات یہ ہے کہ ایک شخص جو سرتا پا تخلیق کار ہو‘ وہ اپنی تنہائی کی اس جاگیر میں کسی اور کے قدم پسند نہیں کرتا کیونکہ یہی تنہائی اس کا اثاثہ ہے۔ اس کی ہر تخلیق اسی زمین سے پھوٹتی ہے۔ یہی تنہائی اس کی ہم نشین و ہم راز ہے۔ 
اسی لیے گارشیا مارکیز نے اپنے لازوال ناول 'تنہائی کے سو سال‘ کی بے پناہ مقبولیت کے بعد ملنے والی شہرت اور عوامی پذیرائی سے ایک روز اکتا کر کہا‘ مجھے ایسی شہرت کی طلب کبھی نہیں تھی۔ 20 ویں صدی کا یہ عظیم ناول 1967ء میں پہلی بار شائع ہوا‘ 1985ء میں گارشیا مارکیز کا دوسرا ناول Love in the time of cholera منظرعام پر آیا۔ 1982ء میں گارشیا مارکیز کو ادب کا نوبل پرائز ملا۔ 
اس شہرت اور پذیرائی سے پہلے اس عظیم لکھاری نے اپنی زندگی کے کتنے ہی برس غربت تک پہنچی ہوئی معاشی ابتری میں گزار دیئے۔ وہ اخبار کی نوکری بھی کرتا اور باقی وقت قلم اور کاغذ تھامے‘ کہانی گھڑنے اور کردار تخلیق کرنے میں گزارتا۔ غربت زدہ ماحول میں فلیٹ کے ایک کمرے میں اپنے شب و روز گزارنے والا مارکیز کہتا ہے کہ معاشی ابتری کی صورت یہ تھی کہ ایک روز اس کی دادی اس کو ملنے اس کے فلیٹ میں آتی ہے اور کہتی ہے "I thought you are a beggar"۔ 
اسّی کی دہائی کے بعد گارشیا کے لیے شہرت اور معاشی خوشحالی کا زمانہ شروع ہوتا ہے‘ بلکہ شہرت اور مقبولیت کا حیرت انگیز دور جب اسے دنیا بھر میں ایسا پروٹوکول ملتا ہے جیسا سربراہان مملکت کو دیا جاتا ہے۔ اس کے مداحین میں‘ وقت کے نامور ادیب بھی شامل تھے اور سیاست کی نمایاں عالمی شخصیات بھی۔ فیڈل کاسترو‘ بل کلنٹن‘ مارکیز کے ذاتی دوستوں میں تھے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ستاسی سالہ ادیب کی موت پر کہا‘ میں گزشتہ بیس سال سے مارکیز کے حلقہ اثر میں رہا۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے گارشیا مارکیز کی صورت میں ایک بہترین دل اور ایک شاندار دماغ کو قریب سے دیکھا۔ اس کے آبائی وطن کولمبیا کے صدر نے اس عظیم ادیب کے لیے ان الفاظ میں اظہارِ تعزیت کیا‘ گبرائل گارشیا مارکیز کی موت سے کولمبیا پر اداسی اور تنہائی کے سو سال اترے ہیں۔ 
مارکیز کو ادب کا نیلسن منڈیلا بھی کہا گیا کہ جو اثرات منڈیلا کی جدوجہد اور شخصیت نے عالمی سیاست پر مرتب کیے‘ ویسے ہی دیرپا اثرات‘ مارکیز نے عالمی ادب پر ثبت کیے۔ ہسپانوی زبان میں لکھی تحریریں‘ دنیا کی ہر بڑی زبان میں ترجمہ ہوئیں۔ 
گارشیا مارکیز کو اپنے عہد کے دو بڑے ادیبوں کا ساتھ بھی میسر رہا۔ ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فاکنر‘ انگریزی زبان کے دو بڑے نام‘ دونوں نوبل انعام یافتہ اور دونوں نے ناول کی صنف میں اظہارِ بیان کے نئے انداز متعارف کرائے‘ خصوصاً ولیم فاکنر نے اپنے ناول Sound and fury میں پہلی بار ادب میں Stream of consiousness کا تجربہ کیا۔ گارشیا مارکیز نے اکثر اس بات کا اعتراف کیا کہ اس کی تحریروں پر ارنسٹ ہیمنگوے اور ولیم فاکنر کے اثرات موجود ہیں کیونکہ وہ ان دونوں کے کام سے بے حد متاثر رہا۔ خود گارشیا مارکیز کو ادب میں Megical realism کا بانی کہا جاتا ہے۔ 
اپنی تحریروں میں اس عنصر کے بارے وہ کہتا ہے کہ بچپن میں میری دادی نے میری پرورش کی۔ رات سونے سے پہلے جو کہانیاں وہ سنایا کرتی تھیں وہ لاشعور کا حصہ بنتی گئیں۔ ان کہانیوں میں سپر نیچرل چیزوں کا بیان بہت دلچسپ انداز میں ہوتا۔ یوں غیر محسوس طریقے سے دادی کی گود میں کہانیاں سننے والا کم سن مارکیز‘ کہانی بیان کرنے‘ کردار بُننے کے رمز سیکھتا رہا۔ بات تو معروضی ہے لیکن سرِ راہے بیان ہو جائے تو حرج نہیں کہ ہماری آج کی نسل اور آج کے بچے کہانی سننے اور کہانی پڑھنے جیسی خوب صورت سرگرمی سے محروم ہیں۔ ٹی وی‘ کمپیوٹر پر کارٹون اور ویڈیو گیمز دیکھنے والے بچوں کے اندر امیجی نیشن کی صلاحیت پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ویڈیو گیمز اور ٹی وی بند کر کے‘ ننھے بچوں کو کہانی سنانے کی خوبصورت روایت والدین کو پھر سے شروع کرنا چاہیے۔ 
گارشیا مارکیز کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس وقت جب اس کے والدین‘ ننھے مارکیز کو دادی دادا کے پاس چھوڑ کر چلے گئے تھے تو اپنی دادی کے ساتھ اس محبت بھرے رشتے ‘جو کہانی سننے اور سنانے کے ساتھ مزید مضبوط ہوا‘ اس نے نہ صرف والدین سے جدا ہونے والے کم سن مارکیز کو بکھرنے سے بچایا بلکہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری بھی کی۔ 
گارشیا مارکیز کی زندگی میں ایک دلچسپ قصہ یہ ہوا کہ جب 1999ء میں کینسر کی تشخیص ہونے پر اس کی صحت بگڑنے لگی تو اس عظیم لکھاری نے عوامی زندگی سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور اپنے چاہنے والے مداحین کے بعد دوستوں کو الوداع کہا اور ان کی محبت کا شکریہ ادا کیا۔ چند روز کے بعد اخبارات‘ رسائل میں ایک نظم شائع ہوئی ‘ جس کے اوپر لکھا ہے۔ گارشیا مارکیز کی جانب سے الوداعی خط۔ اس نظم میں سادہ مصرعوں اور پراثر انداز میں گارشیا کی طرف سے اپنے دوستوں اور مداحین کو مخاطب کیا گیا ۔ 
اس طویل نظم کے چند منتخب فقروں کا مفہوم: 
اگر مجھے خدا زندگی میں نئی مہلت دیتا ہے تو میں‘ کم سوئوں گا۔ خواب زیادہ دیکھوں گا۔ زیادہ محبت کروں گا‘ زیادہ خوش رہوں گا۔ 
میں نے یہ سیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص پہاڑ کی چوٹی تک پہنچنا چاہتا ہے‘ اس حقیقت کو جانے بغیر کہ اصل خوشی اور کامیابی اس سفر میں ہے جو چوٹی کی جانب کیا جائے‘ کیونکہ اس کے بعد اترائی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ 
اگر میں جان جائوں کہ یہ میرے آخری لمحات ہیں تو میں یہ اعتراف کروں کہ مجھے تم سے محبت ہے۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ 
گارشیا کے اس الوداعی خط کو اس کے مداحین نے بہتے آنسوئوں کے ساتھ پڑھا مگر پھر یہ انکشاف ہوا کہ یہ خط گارشیا نے نہیں بلکہ اس کے ایک مداح نے اس کی جانب سے لکھا اور لوگوں اس لیے یقین کیا کہ اس نظم میں پروئے ہوئے فقرے گارشیا مارکیز کی کہانیوں‘ ناولوں ہی سے لیے گئے تھے۔ یہ ایک مداح کی جانب اپنے پسندیدہ لکھاری کو خوب صورت خراج تحسین تھا۔ 
17 اپریل کو تنہائی کے ستاسی سال پورے ہونے پر یہ عظیم لکھاری دریا کے دوسری جانب اتر گیا۔ وہ منظر سے اوجھل ہوا‘ لیکن اپنی تحریروں میں سانس لیتا رہے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved