بندوق پر خون غالب آ گیا ۔ حامد میر‘ اپنے خون میں لت پت‘ کاروباری چپقلشوں‘ دوریوں ‘ مقابلہ آرائی کی رکاوٹوں اور تعصبات کی خندقوں کو بلا امتیاز پھلانگتا ہوا‘ ٹی وی چینل کی لہروںاور اخباری کالموں میں داخل ہو گیا۔ چند روز پہلے تک ایسا نہیں تھا۔ صحافیوں کا خون تو بہالیکن وہ اسی مٹی میں جذب ہو کر رہ گیا‘ جس پر گرا تھا۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ہر صحافی ''ایک میڈیا ہائوس۔ ایک نجی ٹی وی چینل۔ ایک اخبار۔ ایک نیوز ایجنسی‘‘ کا صحافی ہوا کرتا تھا۔ بطور زخمی یا مقتول‘ اس کا نام صرف اسی میڈیا کے ٹی وی اور اخبار میں آتا۔ جس کے لئے وہ کام کر رہا ہوتا۔صرف روزنامہ ''دنیا‘‘ نے کارکن اور ادارے کے نام سے خبریں شائع کیں۔ چند روز پہلے رضا رومی پر حملہ ہوا تھا۔ ''دنیا‘‘ نے ان کی خبر‘ ادارے اور ان کے نام کے ساتھ شائع کی۔ یہ انفرادی عمل تھا۔ لیکن مجموعی طور پر میڈیا کا طرزعمل یہی رہتاہے کہ جس مٹی پر خون گرے‘ اسی میں جذب ہو کر رہ جائے۔ حامدمیر کے خون نے مٹی میں جذب ہو کر ‘ معدوم ہونے سے انکار کر دیا۔ وہ کاروباری عصبیتوں‘ تنگ نظری پر مبنی رویوں اور پیشہ ورانہ رقابتوںکو عبور کرتا ہوا‘ بلا امتیاز تمام میڈیا گھروں کے اندر پہنچ کے‘ احتجاج کی صدائیں بلند کرنے لگا۔ جو حامد میر ہر دن کبھی اپنے شو‘ کبھی اپنی تحریر اور کبھی اپنے خطاب میں بلند کیا کرتا ہے۔ قتل کرنے والوں نے اپنی طرف سے منصوبہ بندی میں کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بالکل کراچی سٹائل حملہ‘ جس میں ٹارگٹ کلر90فیصد کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ ٹارگٹ کلرزکا ہدف حامد میر تھا۔ وہ 6گولیاں اس کے جسم میں اتار گئے۔ لیکن موت کی جگہ نہ ڈھونڈ سکے۔ جس انسانی وجود کا ایک ایک انچ زندگی سے بھرا ہو‘ اس کے اندر موت کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
حامد میر کے قتل کا منصوبہ بنانے والوں نے‘ اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ کراچی میں ماہر شوٹروں کی افراط ہے۔ میں نے بیشتر ٹیلیویژن دیکھنے والوں کی طرح‘ قاتلانہ حملوں کی فٹیج دیکھی ہے۔ ایک منظر کبھی نہیں بھولے گا۔ کراچی کی ایک آباد شاہراہ پر‘ دو موٹرسائیکلوں پر سوار شوٹر تعاقب کرتے ہوئے‘ سوزوکی کیری وین کے دونوں اطراف آئے اور کھڑکیوں میں سے‘ اندر بیٹھے ایک عالم دین کو نشانہ بنایا اور موقع پر شہید کر دیا۔ ایسے واقعات سننے اور پڑھنے میں بہت آتے ہیں۔ مگر حامد میر کے سامنے شوٹروں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ان کی مہارت دھری رہ گئی۔ اپنے موقف پر یقین رکھنے والے صحافی کا عزم زندہ رہا اور انشاء اللہ حامد میر جلد صحت یاب ہو کر‘ اپنے پروگرام میں مسکراتی گھن گرج اور کالموں میںاپنے مخصوص اسلوب کے ساتھ‘ قتل کا منصوبہ بنانے والوں کی ناکامی کا مضحکہ اڑایا کرے گا۔ایک بات میں اپنے تجربے کی روشنی میں لکھ رہا ہوں کہ ہر سرگرم صحافی کی زندگی خبروں اور افواہوں کے جھکڑوں میں گزرتی ہے۔ وہ خبروں کو چھان پھٹک کر منظرعام پر لاتا ہے اور افواہوں اور نیم پختہ خبروں کا‘ ذاتی محفلوںمیں ذکر کر کے‘ ذہن کے نہاں خانوں میںپھینک دیتا ہے۔ حامد میر نے اپنی تحریر اور مکالموں کے ذریعے‘ ہمیشہ طاقتوروں سے ٹکر لی ہے۔ وہ ایک بہادر باپ کا بیٹا ہے‘ جو بیوقوفی کی حد تک اپنے مخالفین کو‘ وار کرنے کی سہولتیں مہیا کیا کرتا۔ یہ پروفیسر وارث میر تھا۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں اپنی سینیارٹی کی بنیاد پر جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بنا۔ 1970ء کا زمانہ تھا۔ نوابزادہ شیر علی خان‘ یحییٰ حکومت کے طاقتور ترین وزیر تھے۔ محکمہ اطلاعات و نشریات کا تھا۔ ساتھ ہی قومی سلامتی کا محکمہ گھڑ کے‘ انہیں غیرمعمولی اختیارات دے دیئے گئے۔ وارث میر کا عملی صحافت سے صرف اتنا تعلق تھا کہ وہ یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے سربراہ تھے اور اخبارات میں قومی موضوعات پر مضمون لکھتے تھے۔ میرے نزدیک وہ اپنے زمانے میں دائیں بائیں کی تقسیم سے بالاتر‘ ایک وطن پرست دانشور تھے۔ یحییٰ دور کی انتظامیہ نے تمام حقیقی وطن پرستوں کو ‘ وطن دشمن قرار دے رکھا تھا اور حب الوطنی کا لیبل ان لوگوں پر چسپاںکر دیا گیا‘ جو آمریت کے آلہ کار تھے۔ انہی لوگوں کو یونیورسٹیوں میں آزاد خیال
اساتذہ اور طلباکو سبق سکھانے پر مامور کیا گیا۔ وارث میر اپنی آزاد خیالی اور حقیقت نگاری میں بے خوف تھے۔ ان پر محکمے کے اندر اور باہر دونوں طرف سے حملہ کر دیا گیا۔ ان حملوں میں سے ایک کا نشانہ‘ ان کا نوجوان فرزند حامد میر بنا۔ اسے قتل کے مقدمے میں ملوث کیا گیا۔ وارث میر کے لئے محکمے کے اندر ‘روز نئی مشکلات کھڑی کی جاتیں۔ تشدد پسند طلبا کی تنظیم‘ انہیں ہراساں کیا کرتی اور ساتھ ہی قتل کا یہ مقدمہ بھی درج ہو گیا۔ دھڑے بازی کے کھیل سے بے نیاز‘ علمی کام میں مصروف ایک دانشور کے لئے تشدد پر آمادہ‘ تنگ نظر مخالفین کا مقابلہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میں ان دنوں ویکلی ''شہاب‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ یہ پورے ملک میں اردو کا واحد ہفت روزہ نیوز ویکلی تھا۔میں میڈیا کے ذریعے اشتعال انگیزی کرنے والوں کا مقابلہ کیا کرتا۔وارث میر سے میری دوستی‘ علمی و فکری نشستوں کے دوران ہوئی‘ جو زندگی بھر قائم رہی۔ وارث میر پر مخالفانہ حملوں کے جواب ''شہاب‘‘ میں دیئے جاتے اور اکثر اوقات ان کے مخالفین کو دفاعی پوزیشن میں جانے پر مجبور ہونا پڑتا۔ حامد میر کے کیس کے سلسلے میں بھی‘ میں پولیس افسروں اور متعلقہ حکام سے ملاقاتوں کے لئے وارث میر کے ساتھ جایا کرتا۔ ہم دونوں کے پاس گاڑی نہیں تھی۔ بھاگ دوڑ بہت زیادہ کرنا پڑتی۔ میرے ایک دوست سرور بٹ کے پاس پجیرو تھی۔ اس وقت تک دبئی میں‘ بٹ کا کاروبار چل رہا تھا۔ یہاں اس کا کاروبار‘ دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں اور انہیں اپنی پجیرو میں گھمانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ سرور بٹ سے مجھے پرویزرشید نے ملایا تھا۔ میں نے اسے عباس اطہر‘ وارث میر ‘ ریاض حسن شاہ (آرکیٹیکٹ) سے ملا دیا۔ صرف ریاض شاہ کے پاس اپنی کار تھی۔ باقی ہم سب سرور بٹ کی پجیرو کو مصروف رکھتے۔ وارث میر کو جھوٹے مقدمے سے نکالنے کی جدوجہد میں‘ پجیرو ہمارے بہت کام آئی۔ کچھ عرصہ پہلے بٹ صاحب اور ان کی پجیرو ‘ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔ اللہ دونوں کی مغفرت فرمائے۔
جس سیاسی گروہ نے‘ پروفیسر وارث میر کو یونیورسٹی میں تنگ کر رکھا تھا‘ حامد میر نے اپنا گروپ بنا کر‘ اسے چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ غالباً اسی زمانے میں خواجہ سعد رفیق بھی تشدد پسند گروہ کے مقابلے پر آ گئے۔ انتظامیہ اس گروہ کی پشت پناہ تھی۔ اس سرپرستی کا فائدہ اٹھا کر تشدد پسند‘حامدمیر اور سعد رفیق پر کیس بنواتے۔ حامد میر نے شعبہ ابلاغیات میں ماسٹر کی ڈگری لے کر یونیورسٹی تو چھوڑی دی‘ تشدد اور دہشت گردی کے خلاف ‘ جدوجہد نہیں چھوڑی۔ یہ آج بھی جاری ہے۔ قاتلانہ حملہ کرنے والوں نے اسے موت کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش کی لیکن وہ موت سے مصافحہ کر کے‘ واپس اپنے سٹوڈیو میں آنے کی تیار کر رہا ہے۔ حامد میر نے بہت کم عرصے میں ترقی کی منزلیں طے کیں۔ اس کے والد کے بہت سے شاگرد مختلف میڈیا ہائوسز میں اچھی پوزیشنوں پر فائز تھے۔ لیکن حامدمیر نے کسی کی مدد لئے بغیر‘ایک عام رپورٹر کی حیثیت سے کیریئر شروع کیا اور جو لڑائی وہ یونیورسٹی میں لڑتا ہوا آیا تھا‘ اس کی جدائی زیادہ عرصے تک برداشت نہ کر سکا ۔ تنگ نظری اور شدت پسندی کی سوچ سے جنم لینے والی دہشت گردی اور انتقامی کارروائیوں نے دفتر میں بھی اس کا خیرمقدم کیا۔ مزاحمت کے بغیر‘ منزل کی طرف پیش قدمی کا مزہ بھی نہیں آتا۔ حامد میر مزاحمت کے طویل دور سے گزرتا ہوا‘ موجودہ مقام تک پہنچا ہے۔ خدا نے اسے پاکستان ہی نہیں‘ دنیا بھر کے میڈیا میں باعزت مقام عطا فرمایا۔ وہ متعدد اعزازات حاصل کر چکا ہے۔ کچھ صحافیوں نے عمرکا بڑا حصہ گزار کے سیاست اور حکومت میں پوزیشنیں حاصل کیں۔ حامد میر کو متعددمواقع پر سینٹ کی نشست کے ساتھ وزارتیں پیش کی گئیں۔ لیکن صحافت کے سپاہی نے‘ اپنا میدان چھوڑنا پسند نہیں کیا۔ جدوجہد کو بھی حامدمیر کا وجود پسند آ گیا ہے۔وہ بھی اسے چھوڑنے کو تیار نہیں۔جدوجہد اور بہادری کا ساتھ بہت پرانا ہے۔ یہ ساتھ باقی رہے گا۔ اسی وجہ سے سچائی ہمیشہ باقی رہے گی۔