تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     22-04-2014

یورپ کی سیر

قارئین! آئیے میرے ساتھ مل کر یورپ کی سیرکیجیے۔ زیادہ نہیں، چند یورپی ممالک میں رونماہونے والے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں۔ہم اپنا سفر اٹلی سے شروع کریں گے۔آپ کومعلوم ہے کہ حجاز میں تمام آثار قدیمہ نابوداور سلطنت عثمانیہ کے تعمیرکردہ تاریخی قلعے مسمارہو چکے ہیں۔ مدینہ منورہ میں حضور ﷺ کے زمانے کے مکانات کی جگہ کار پارک بن گئے ہیں؛ البتہ سعودی عرب اب روم کے کھنڈرات کی تعمیر نو پرکروڑوں ڈالر خرچ کرنے والا ہے۔ روم کے وسط میں شہنشاہ آگسٹس کا خستہ حال مزار ان دنوں خانہ بدوشوں، طوائفوں اور بے گھر لوگوں کا مسکن بناہوا ہے۔ روم کا میئرکشکول لے کر ریاض گیا اور ایک سعودی شہزادے سے ملا اورکروڑوں ڈالرکا عطیہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔معاہدہ طے پایاکہ روم کا میئر ایک شاہکار مجسمہ جس کانام The Dying Gaul ہے ریاض میں چند ماہ کی نمائش کے لئے عاریتاً دے گا۔ روم کا میئرسعودی عرب نو قدیم عمارتوں کی فہرست لے کر گیا تھا لیکن میزبانوں کی نظر کرم صرف آگسٹس (Augustus) کے مزار پر پڑی۔ یہ روم کا پہلا شہنشاہ تھاجس نے 31 قبل مسیح میںانتھونی اور افسانوی حسن کی مالک کلو پیٹرا (Cleopatra)کو شکست دے کر اقتدار حاصل کیا اور بادشاہ بن گیا۔ 
اب ہم فرانس چلتے ہیں۔ ہمارے بدنصیب ملک میں سیلاب آئے ، قحط پڑے یا کوئی اور قیامت ٹوٹے ہمارے حکمران اپنے عہدوں پر براجمان رہتے ہیں مگر مارچ کے آخر میں سوشلسٹ پارٹی کو پیرس کے علاوہ ملک کے دُوسرے تمام شہروں کے بلدیاتی انتخابات میں بری طرح شکست ہوئی تو وزیراعظم فوراًمستعفی ہوگیا۔ نئے وزیراعظم کا نامMamver Valls ہے، وہ پہلے وزیرداخلہ تھے۔ سپین میں پیدا ہوئے، لہٰذا مادری زبان ہسپانوی ہے، عمر صرف 51 سال ہے ۔ فارغ وقت میں باکسنگ کرتے ہیں۔ بیوی معروف فنکارہ اورکلاسیکی موسیقی پر عبور رکھتی ہیں۔ان کی کابینہ میں St. Golent Royal بھی شامل ہوں گی جو فرانس کے صدرکے چار بچوں کی ماں ہیں۔ ابھی شادی کی نوبت نہیں آئی تھی کہ صدر نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور ایک مشہور اداکارہ Julie Gayes سے اپنی خفیہ دوستی کو کھلم کھلا معاشقے میں تبدیل کر دیا۔اس سیکنڈل کا کئی ہفتے پورے یو رپ میں چرچارہا۔
فرانس سے برطانیہ کارخ کریں تو یہاں صرف دو خبریں توجہ طلب ہیں۔ ایک دلچسپ مگر غیر اہم اور دُوسری غیر دلچسپ مگر بے حد اہم۔ بڑے بڑے سفید پروں والے پرندوں کو انگریزی میں Stork کہتے ہیں جو ہمارے ہاں کے بگلے کا بڑا ایڈیشن ہے۔ ان پرندوں کے ایک خوش و خرم جوڑے کی تصویر روزنامہ ٹائمز کے صفحہ اوّل کی زینت بنی ۔ان پرندوں نے 1416ء کے بعد انڈے دیے ہیں جن سے ان نادر پرندوں کی اگلی نسل جلد باہرآجائے گی۔ بڑے بگلوں نے ساحل سمندر کے قریب ایک اُونچی عمارت پرگھونسلا بنانے کا جوکام شروع کیا تھا، وہ انڈوں سے چوزے نکلنے تک یقینامکمل ہوجائے گا۔ پرندوں نے کمال دانشمندی سے کام لیتے ہوئے آشیانہ بندی کا کٹھن کام خود ہی کیا۔ یہ بے چارے پرندے بگلوں کے بجائے شاہین ہوتے تو بقول اقبال کارآشیاں بندی کی ذلت آمیز عرق ریزی سے بچ جاتے اور چٹانوںپر بیٹھ کر ہی زندگی گزار لیتے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم کمزور انسان شاہین کے بجائے بگلوںکے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا سر ڈھانپنے کے لئے چھت بنانے کی طرف سے ہرگز غافل نہ ہوں۔ خود اقبال نے بھی اس طرف توجہ دی تھی ۔ پرانے دورکی حکومت پنجاب ہماری محسن ہے جس نے لاہور ریلوے اسٹیشن کے قریب اقبال کے گھر کو ایک قابل دید عجائب گھر میں تبدیل کر دیا تھا۔ بات سفید اور بڑے پروں والے پرندوں کی جوڑی سے چلی اور اُڑتی ہوئی اقبالؔ کے شاہین تک جا پہنچی۔ زیادہ دُور جانے کی بجائے واپس لندن چلتے ہیں جہاں فضائی کثافت پہلے ہی درد سر بن چکی ہے، رہی سہی کسر ریت کے اُن ذرات نے پوری کر دی جو افریقہ کے صحرائے اعظم سے بگولوں کا حصہ بن کر سینکڑوں میل کا سفر طے کرتے ہوئے جنوبی برطانیہ پر بارش کے قطروں کی طرح برس پڑے۔ آندھیاں اپنا سفر افریقہ کے صحرائوں سے شروع کرتی ہیں مگر ختم یور پی ممالک میں ہوتی ہیں اور وہاںکے رہنے والوں کے نظام تنفس میں شدید خلل ڈالتی ہیں۔ دُنیا کا کوئی حصہ قدرت کے انتقام سے محفوظ نہیں۔ اگر انسان اپنی بے وقوفی یا بے حدو حساب مفادکی خاطر درخت کاٹیں گے ،دریا ئوں پر بڑے بڑے ڈیم بنائیں گے، دھرتی ماںکا احترام نہیں کریں گے، نباتات اور حیوانات کو اپنے حرص وہوس کی بھینٹ چڑھائیں گے تو قدرت ناراض ہوگی اور اپنے غصے کا اظہار زلزلوں، سیلابوں اور قحط کی صورت میں کرکے انسانوں کو اپنے کیے کی سزادے گی ۔ اقبال نے کہا تھا:
حذر اے چیرہ دستاں، سخت ہیں فطر ت کی تعزیریں 
افریقہ کے صحرائوں سے ہماری اُچٹتی ہوئی نظر افغانستان کے پہاڑوں پر جا رکتی ہے جہاں آٹھ برسوں کی بے مقصد خونریزی اور 448 برطانوی سپاہیوں کی موت کے بعد برطانوی فوج نے اپنا بوریا بستر لپیٹا اورافغانستان کے کوچے سے بے آبروہو کر نکلنے کی جانب پہلا قدم بڑھایا۔ اب برطانوی افواج اپنے قیام کے باقی دن امریکی جرنیل کی کمان میں پورے کریں گی ۔ اس وقت افغانستان میں برٹش آرمی کی تعداد پانچ ہزار ہے۔ اُس نے ہلمندکے مقام پر اپنی چھائونی میں برطانوی پرچم کو آخری سلامی دی اور اسے اُتارکر سنبھال کے رکھ لیا ہے۔ وہاں اب افغان پرچم کو بلند کیا گیا ہے۔ برطانوی فوج کے آخری کمانڈر نے اپنے افغان ہم منصب سے الوداعی مصافحہ کیا، بگل پرالوداعی دھن بجا کر رسمی کارروائی مکمل کی گئی ۔ ایک عامیانہ محاورے کے مطابق کھایا پیاکچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ اہل برطانیہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے کہ خیر سے بدھوگھرآنے والے ہیں۔ اس کالم نگار کے پڑوس میں ایک بوڑھی بیوہ ماں اپنے اس بچے کا انتظارکر رہی ہے جوباامر مجبوری افغان جنگ کا حصہ بن کر ایک ایسی جنگ لڑتا رہا جو وہ کبھی نہیں جیت سکتا تھا۔
قارئین یوکرائن کے حالیہ بحران سے بخوبی واقف ہوں گے۔ وہاں کے ایک بڑے سیاست دان نے اپنے ملک کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ ہم سب کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔ یوکرائن کے صوبہ Odessa کے گورنرولاڈی میرمیروسکی نے پتے کی بات کہی ہے کہ اگر مغربی یورپ نہیں چاہتا کہ یوکرائن پر ایک بار پھر رُوس کا تسلط قائم ہو جائے تو وہ ایسے قدم اُٹھائے جن کی بدولت یوکرائن کے لوگوں کا معیار زندگی رُوسی عوام سے نمایاں طور پر بلند ہو جائے۔کرپشن کے باعث عوام کی اکثریت غربت کے چنگل میں گرفتار رہے ، فوج کمزو ر ہے، سڑکیں خراب ہیں، طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، عوام تہی دست ہیں، قانون نافذکرنے والے ادارے بھونک تو سکتے ہیں مگر دانتوں سے محروم ہونے کی وجہ سے کاٹ نہیں سکتے۔ اگر حالات میں جلد تبدیلی نہ آئی تو Odessa پکے ہوئے پھل کی طرح رُوس کی جھولی میں جا گرے گا۔ چونکہ اس صوبے کی آدھی آبادی کی مادری زبان رُوسی ہے، اس لیے رُوس کواسے دوبارہ لقمہ تر بنانے میں ہرگز کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
آخر میں آپ ایک خوشخبری سنیں۔ پاکستان کے سوشلسٹوں کے برعکس برطانوی سوشلسٹوں کے صف اوّل کے رہنما اور دانشور طارق علی کو عمرگزرنے کے ساتھ عقل آگئی ہے جس کا تازہ ترین مظاہرہ اُنہوں نے حال ہی میں اس قابل تعریف مضمون میں کیا جو اُنہوں نے یوکرائن کے حالیہ بحران پر لکھا۔کہتے ہیں: وہ مغربی ممالک جنہوں نے چیچنیا کی مسلم آبادی کے رُوس کے ہاتھوں قتل عام پر مجرمانہ خاموشی اختیارکی اب کریمیا پر رُوس کے قبضہ پرمنافقت سے کام لے کر مگر مچھ کے آنسو بہا رہے ہیں جو قابل مذمت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved