تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     23-04-2014

امریکی سفارش چاہیے!

حامد میر کو میں اس وقت سے پڑھتا اور پسند کرتا ہوں جب میں نے ابھی باقاعدہ صحافت شروع نہیں کی تھی ۔ سیاست کے حوالے سے ان سے بہتر اندر کی کوئی خبر صحافی نہیں نکال سکتا ۔ تمام تر تنازعات کے باوجود وہ ایک محنتی، بہادر اور ذہین صحافی ہیں؛ تاہم ان برسوں میں ایسے مراحل بھی آئے جب مجھے حامد میر کی اپروچ سے اختلاف ہوا اور اب بھی ہے ۔ مجھ سے بھی بہت لوگوں کو اختلافات ہوں گے۔ آخری دھواں دھار اختلاف ان سے دو ہفتے پہلے دوست کے گھر کھانے پر ہوا، جہاں سب صحافی دوست موجود تھے۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حامد میر کو سرعام گولیاں مار دی جائیں ؟ 
امریکہ میں ڈاکٹر عاصم صہبائی بتارہے تھے کہ کیسے برسوں قبل شاہین صہبائی کو سبق سکھانے کے لیے ایک سیکرٹ ایجنسی کے لوگ ان کے گھر اسلام آباد میں گھسے۔ سکول پڑھتے بچوں کو تھپڑ مارے گئے ۔ عاصم کی کنپٹی پر پستول رکھ کر پیغام دیا گیا کہ باپ کو بتادینا‘اس کی رپورٹنگ کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں ۔ ایک نے کہا عاصم کو ہی گولی مار دو، کالج جاتے عاصم نے بھولے پن سے کہا گولی کیوں مارتے ہو ، جو لے جانا ہے وہ لے جائو۔ 
نصرت جاوید ، شاہین صہبائی، عامر متین، عمرچیمہ ، شکیل شیخ، سلیم شہزاد اور اب حامد میر تک ایک لمبی داستان ہے کہ جب صحافیوں کو اس قسم کے عذاب اور دہشت سے گزرنا پڑا اور گزر رہے ہیں ۔ اور تو اور یہ لوگ مشہور ادیب اور کالم نگار کشور ناہید کے گھر بھی جا گھسے کہ آپ این جی او کیوں چلاتی ہیں۔ ہماری صحافی دوست ماریانہ بابر کے گھر میں دیوار پھلانگ کر مہمانوں کی تصویریں لینا شروع کر دیں کہ اس تقریب میں بھارتی سفیر کی بیگم موجود تھیں ۔ کیا چند لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ زیادہ محب وطن ہیں اور ان کا جو جی چاہے وہ کھل کر کریں اور ان پر کچھ سوالات اٹھیں تو بچوں کی کنپٹی پر پستول رکھ دیا جائے یا پھر ایسا صحافی گولی کا مستحق ٹھہرے گا ؟ 
اسلام آباد میں ان صحافیوں کے لیے کام کرنا مشکل ہوجاتا ہے جو ایجنسیوں سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان پر اعتبار بھی نہیں کیا جاتا اور وہ ہمیشہ ایجنسیوں کے ریڈار میں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک محب وطن وہی ہیں جو ان سے خبر لے کر ان کی مرضی کی رپورٹنگ کریں۔ 
ارشد شریف گواہ ہیں تین برس قبل مجھے ایک فون کال آئی ۔ بڑی رعونت سے کہا گیا آپ سے ملنا ہے، کل تشریف لے آئیں ۔ میں نے کہا سوری ۔ دھمکی ملی‘ آپ کو آنا پڑے گا۔ جب اس نے تکرار شروع کی تو میں نے کہا‘ یہ اس جگہ کا ایڈریس ہے جہاں میں بیٹھا ہوں ۔ اپنے بندے بھیج کر مجھے اٹھوا لیں کیونکہ میں نے ویسے نہیں آنا ۔ کہنے لگے‘ آپ نے ایک سٹوری فائل کی ہے جس میں آپ نے چند فوجی جرنیلوں کے نام دئیے ہیں جنہوںنے بینکوں سے قرضہ معاف کرایا ہے، اس سے فوج کی بدنامی ہوئی ہے۔ میں نے کہا‘ بدنامی کس نے کی ہے جنہوں نے قرضہ لیا اور واپس نہیں کیا یا جس نے رپورٹ کیا ہے؟ 
ابھی چند دن پہلے پھر ایک سیکرٹ ایجنسی سے کرنل صاحب کا فون آیا کہ ہمارے پاس تشریف لے آئیں ۔ میں نے کہا سوری ۔ حیران ہوئے اور بولے یہ بھی پاکستانی ایجنسی ہے‘ ملنے میں کیا ہرج ہے۔ میں نے کہا ہرج یہ ہے کہ اس وقت میرے فون تین سیکرٹ ایجنسیاں سن رہی ہیں ۔ اگر میں آپ سے ملتا ہوں اور کل کوئی خبر فائل کروں گا تو پھر یہ سمجھا جائے گا کہ آپ مجھے خبریں دیتے ہیں اور یہ بات میرے لیے خطرات پیدا کردے گی۔ ابھی تو آپ تین ایجنسیوں کے لوگ مجھے اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میں کسی ایجنسی سے نہیں ملتا اور نہ ہی کسی سے خبر لے کر کسی کے ایجنڈے کی تکمیل میں حصہ ڈالتا ہوں ۔ جس دن میں نے یہ میل جول شروع کر دیا‘ اس دن میرے لیے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔
ایک اور واقعہ سن لیں ۔
مارچ 2000ء میں جب بل کلنٹن پاکستان آئے تو انہوں نے جنرل مشرف پر دبائو ڈالا کہ ہر صورت انہیں اسامہ بن لادن چاہیے اور وہ طالبان پر اپنا زور ڈالیں ۔ ان کے جانے کے بعد جنرل مشرف نے اپنے وزیرداخلہ کو قندھار بھیجا جہاں ان کی ملاقات ملا عمر سے ہوئی ۔ ان کی واپسی کے دو دن بعد‘ میں نے اپنے انگریزی اخبار میں خبر بریک کی کہ ملاعمر، اسامہ کو سعودی عرب یا کسی مسلمان ملک کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں جہاں ان کا ٹرائل ہوسکتا ہے۔ اگلے دن میں دفتر گیا تو میرے ایڈیٹر ضیاء الدین گھبرائے ہوئے تھے۔ بولے بہت گڑبڑ ہوگئی ہے۔ وزیرداخلہ جو خود ریٹائرڈ جنرل تھے‘ کا فون آیا تھا‘ وہ بہت غصے میں تھے اور ان کا کہنا تھا کہ خبر تو درست ہے لیکن آپ کے رپورٹر کو کیسے اس کا پتہ چلا۔ اپنے رپورٹر سے کہیں یا تو اپنا سورس بتائے وگرنہ وہ سیکرٹ ایجنسی کو کہہ کر اسے دفتر سے اٹھوا لیں گے اور پھر سب کچھ خود پتہ چلالیں گے۔ ضیاء صاحب نے مجھے کہا بہتر ہے ہم ان کی بھیجی ہوئی تردید چھاپ دیتے ہیں اور تم واپس ملتان چلے جائو وگرنہ یہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔ نیوز ایڈیٹر ناصر ملک بھی ساتھ بیٹھے تھے۔ میں نے کہا ضیاء صاحب‘ اگر میں آج بھاگ گیا تو پھر ساری عمر رپورٹنگ نہیں کر سکوں گا ۔ دوسرے اگر آپ نے میری خبر کی تردید کر دی تو پھر ساری عمر کوئی میری خبر پر یقین نہیںکرے گا۔ ناصر ملک نے میری حمایت کی۔ ضیاء الدین مان گئے۔ انہوں نے میری بیوقوفانہ ضد دیکھ کر وزیرداخلہ کو دوبارہ فون کیا کہ اگر رئوف کو کچھ نقصان ہوا تو وہ اس کے براہ راست ذمہ دار ہوں گے۔ یوں جا کر میری جان چھوٹی ۔
نذیر ناجی صاحب کو یاد ہوگا‘ میں نے تین سال قبل انگریزی اخبار میں بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے ایک اسٹوری فائل کی تھی تو مجھے ان کا فون آیا تھا ‘ وہ پریشان تھے اور کہہ رہے تھے کہ کیوں اپنی جان کے دشمن بن گئے ہو۔ ایجنسیاں تمہارا جینا حرام کردیں گی۔ 
بتانے کا مقصد اپنے آپ کو ہیرو بنانا نہیں بلکہ صرف یہ ہے کہ ہماری سیکرٹ ایجنسیوںکا کیا کردار رہتا ہے اور جس کام کے لیے انہیں تنخواہ ملتی ہے اس پر ان کی توجہ کم ہی رہتی ہے۔ اس لیے وہ شکوک پیدا ہوتے ہیں جو حامد میر کے حوالے سے پیداہورہے ہیں۔ دوسری طرف اس ملک میں جی ایچ کیو پر حملہ ہوجاتا ہے، اسامہ بن لادن پاکستان سے برآمد ہوجاتا ہے، ایجنسیوں کے دفاتر اور بسوں کو بموں سے اڑایا جاتا ہے لیکن کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ یہ لوگ کہاں سے آتے ہیں، کہاں بیٹھ کر پلاننگ کرتے ہیں۔ تاہم اگر ایجنسیوں نے جنرل مشرف کی آسانی کے لیے راتوں رات سیاسی جماعت کھڑی کرنی ہو، جنرل اسلم بیگ کے کہنے پر جنرل (ر)اسد درانی نے سیاستدانوں میں پیسے تقسیم کرنے ہوں یا حکومتوں کو گھر بھیجنا ہو تو پھر سب کام ان سے کرا لیں۔ یہ اپنے کسی بھی فوجی سربراہ کو مایوس نہیں کریں گے ۔
یہ بھی عجیب کہانی ہے کہ اگر کوئی صحافی بھارتی سفارت خانے چلا جائے تو وہ غدار ہوجاتا ہے لیکن اگر جنرل ضیا الحق بنگلور یا جنرل مشرف آگرہ سے ہو آئیں تو ان کی حب الوطنی خطرے میں نہیں پڑتی۔ پابندی صحافیوں پر ہے کہ وہ بھارتیوں سے نہیں مل سکتے۔ 
بینظیر بھٹو سے لے کرنواز شریف کی سیاسی حکومتوں کے ادوار میں ہمیں بھارت اپنا ازلی دشمن لگنا شروع ہوجاتا ہے وگرنہ جب جنرل مشرف بھارت سے پینگیں بڑھا رہے تھے تو کبھی کسی کونے سے آواز نہیں سنی اور نہ ہی غداری کے الزامات لگے تھے جیسے اب ان صحافیوں پر لگتے ہیں ۔ 
ویسے کسی نے خوب کہا ہے اس وقت قومی ادارے کی توہین نہیں ہوتی جب منور حسن ہمارے فوجیوں کو شہید ماننے سے انکاری ہوتے ہیں، فوجیوں کے گلے کاٹ کر طالبان فٹ بال کھیلتے ہیں،مولانا فضل الرحمن کتے کو شہید کا درجہ دیتے ہیں یا جنرل پاشا ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرانے کے لیے لاہور کی عدالت سے امریکی سفیر کو ٹیکسٹ میسیج کر رہے ہوتے ہیں۔ توہین ہوتی ہے تو اس وقت جب حامد میر کے خاندان کے لوگ شبہ کا اظہار کرتے ہیں کہ حملے میں فلاں ایجنسی کا ہاتھ ہوسکتا ہے؟ 
اگر ایف بی آئی کے ساتھ مل کر پاکستان سے القاعدہ کے650 مشتبہ دہشت گردوں کو ڈھونڈ کر امریکہ کے حوالے کر کے کروڑوں ڈالرز لیے جاسکتے ہیں تو پھر حامد میر کے حملہ آوروں کو کیوں نہیں ڈھونڈا جا سکتا؟ کیونکہ ان پر بھی تو ایک کروڑ روپے کا انعام رکھا گیا ہے یا پھر حملہ آوروں کو پکڑنے کے لیے امریکہ کی سفارش کرانی پڑے گی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved