''ورجا پاسا‘‘ ہماری دوست انجم قریشی کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جبکہ پہلی کتاب ''میں لبھن چلی‘‘ کے نام سے کوئی بارہ سال پہلے شائع ہو کر دھومیں مچا چکی ہے‘ اسے سچیت کتاب گھر لاہور نے چھاپا تھا اور 2005ء میں اسے مشرقی پنجاب میں گورونانک یونیورسٹی امرتسر سے ڈاکٹر جتندر پال سنگھ جولی نے گورمکھی میں شائع کیا اور اس پر تھیسس بھی ہوئے۔ موجودہ کتاب کے سرورق پر نادر علی‘دی نیوز‘شفقت تنویر مرزا‘ دی ڈان‘ ڈاکٹر انیس ناگی ‘دی انڈی پنڈنٹ‘ منو بھائی‘روزنامہ جنگ‘ راجہ صادق اللہ‘ ڈاکٹر ابرار احمد اور اس خاکسار کی آرا درج ہیں۔منو بھائی کی دلچسپ رائے کچھ اس طرح سے ہے:
انجم قریشی سرسوں کی گندل جیسی لڑکی ہے جس کا نام لڑکوں جیسا ہے اور کچھ ایسی ہی شاعری کرتی ہے جسے پڑھتے ہوئے میری زوجہ کے منہ سے کم از کم چھ مرتبہ ''ہاہائے‘‘ نکلا۔ وہ اپنی شاعری میں کچھ ایسی باتیں بھی کر جاتی ہے‘ جو عورتوں کو زیب نہیں دیتیں اور مردوں کے روز مرہ میں شامل ہیں۔
یہ رائے پہلی کتاب کے حوالے سے ہے جسے اس وقت تک شائع ہونے والے پنجابی شاعری کا بولڈ ترین مجموعہ قرار دیا جا سکتا ہے۔کتاب کے اندرونی فلیپ پر اس وقت کی ڈائریکٹر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر ڈاکٹر شائستہ نزہت جو خود بھی ایک بہت عمدہ شاعرہ ہیں‘ اس طرح رقم طراز ہیں:
انجم قریشی کی شاعری کی نمایاں چیز یہ ہے کہ اس نے عورت کے سکینڈ سیکس ہونے کو تسلیم کیا ہے لیکن فخر کی بات یہ ہے کہ اس نے اسے غم کی علامت نہیں بننے دیا۔شاعری کی ساری زمین پر آج تک کسی کو اتنی بلند آواز میں کلمہ عشق کہنے کی توفیق نہیں ہوئی تھی۔ اس سے پہلے جسم اور روح کی اکٹھی شاعری کرنے والوں میں کہیں بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اتنی فلنٹ‘ بریو اور بیباک ہوتے ہوئے بھی اس نے لڑکی ہونا کبھی ترک نہیں کیا‘ اس کے خواب‘ اس کی سوچیں‘اس کے انتظار‘ اس کی بھوک‘اس کی پیاس‘ اس کے سارے شوق ایک مکمل لڑکی ہونے کے واضح اشارے ہیں۔کلچر پر الفاظ کی گہرائی کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر ممکن ہوتا تو انجم کی شاعری کو پنجابی پڑھنے والوں کے نصاب کا حصہ بنا دیا جاتا(پنجابی سے ترجمہ)
''میں لبھن چلی‘‘کی اشاعت سے پہلے مجھے ایک دن فون آیا کہ میں انجم قریشی بول رہی ہوں‘ شعر کہتی ہوں اور رہنمائی لینے کے لیے آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا‘بی بی‘میں تو گمراہ ہی کر سکتا ہوں۔ جواب دیا کہ میں بھی گمراہ ہی ہونا چاہتی ہوں۔ میں نے کہا‘ آ جائو۔ اس کے بعد جب اس کی کتاب چھپی تو میں نے اخبار میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس کے کچھ شعر بھی نقل کیے جس پر ایڈیٹر نے میرا کالم بند کر دیا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا‘ہور چوپو!طارق اس کے محبوب بھی ہیں اور دوسرے میاں بھی۔ ماشاء اللہ دو بیٹے ہیں‘پہلے میاں سے ۔
میرے ہاں آتی تو صرف مرنڈا پینے کی فرمائش کرتی۔اس کے بعد یکایک غیر حاضر اور غائب ہو گئی تو میں نے یہ شعر لکھا ؎
اپنی محنت‘ اپنے خون پسینے والی
کہاں گئی وہ صرف مرنڈا پینے والی
واضح رہے کہ وہ اس وقت بھی شعبہ تدریس سے وابستہ تھی اور اب تک ہے۔اس کتاب میں کچھ زیادہ بہادری کا اظہار تو نہیں کیا گیا لیکن اس کا اصل ذائقہ اس میں بھی موجود ہے کہ جو مسعود کھدر پوش ٹرسٹ لاہور نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 150روپے رکھی گئی ہے۔ وہ خود اس کتاب سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں تھی‘ اس لیے مجھے تبصرہ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اس میں زیادہ تر مختصر نظمیں شامل ہیں جن میں بعض ابیات کی شکل میں‘ یعنی دو مصرعی ہیں۔کچھ نظمیں دیکھیے:
ہنّے بنّے
کھنڈ وی مٹھی‘ گڑ وی مٹھا‘ مٹھیاں توں مٹھے گنے
اونہاں نال شریکا کاہدا صاحب جنہاں دیاں منے
گل جے مکے تے انج مکے یا ہنے یا بنے
رَجے پُجے
ہولے سفلے لوبھی لوکی بھر بھر پیٹ پئے کھاندے
ساڈے جئے رجے پجے بھکھے بھانے رہ جاندے
چندرہ
میری دکھی رگ تے ہتھ رکھ دے میں چنہاں پیڑدا ترجاں
تو ہر کے وی جت جاویں تے میں جتاں وی تے ہرجاں
اک ساہ چندرے تے ڈولنی آں اوہ وی کھچ لاں تے مرجاں
آہر
روٹی تیری دا آہر کراں‘تینوں اپنا میں اک وار کر اں
تینوں ہور وی بوہتا پیار کراں‘بیڑی جنڈری دی پار کراں
ہالے نوری ایں‘ تینوں نار کراں
دعا
خیر ہووے گی ہر پاسے تیری جھوک وی وسدی رہے
دھی پتر تیرے نوکر چاکر‘میری سَوت وی ہسدی رہے
اندر
اج تکیا اے پہلی واری سوچاں نوں لا کے جندرے
جیہڑی گل باہرساں لبھدی اوہ ساری میرے اندر اے
نہ تینوں پیار کرانا آیا نہ مینوں پیار نوں کرنا
نہ تینوں مینوں جِتنا آیا‘ نہ مینوں تینوں ہرنا
سانجھ
جے توں اپنے دکھ نہیں دینے
میرے سکھ وی کول ای رکھ
رنگولی
ویلے کویلے آ جاندا سیں
کول تیرے ساں بہندے
پہراں لنگھدے تیریاں سُندے
تے آپ تے بیتی کہندے
مت وج گئی اے ہوشاں دی
ساہ سینے نال نیں کھیندے
رنگ اینا گوڑھا چڑھ گیا اے تیرا
ایہہ لتھنا ایں لیہندے لیہندے
آج کا مقطع
ظفر جو خواب میں بھی بولتا رہتا ہے شب بھر
اسے جا کر کہو ہم بھی یہاں سوئے ہوئے ہیں