تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     23-04-2014

یارِ غار

اللہ تعالیٰ سورۃالتین میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ''ہم نے انسان کو بہترین تقویم میں پیدا کیا ہے‘‘ اللہ تعالیٰ نے اپنی جمیع مخلوق میں سے جو شرف اور بلند ی اولاد آدم ؑ کو عطا کی ہے‘ وہ کسی کے مقدر میں نہیں آئی۔ حضرت آدم ؑکو اللہ تعالیٰ نے صفت علم سے متصف کرنے کے بعد ملائکہ اور جنات کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا ۔
انسانوں میں سے وہ لوگ جو احکام الٰہی پر کار بند رہے‘ ان کا مقام دیگر انسانوں کے مقابلے میں بلند ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورۃالنساء کی آیت نمبر 29 میں انعام یافتہ لوگوں کے چار گروہوں کا ذکر کیا ہے جن میں سر فہرست انبیاء ہیں جبکہ انبیاء علیھم السلام کے علاوہ صدیقین ،شہداء اور صلحاء بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تابعداری کی وجہ سے کامیابی و کامرانی کے حق دار قراردئیے گئے ہیں۔
اللہ تعالی نے نبوت ورسالت کے سلسلے کو حضرت محمدالرسول اللہﷺ کی ذات پر تمام کر دیااور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں واضح فرما دیا کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی بھی شخص منصب نبوت پر فائز نہیں ہو سکتا لیکن آپؐ کی امت میں شہداء اور صلحاء بڑی تعداد میں ہوںگے‘ تا ہم آپ ﷺ کی امت میں سے نبوت کے بعد صدیقیت کا مقامِ بلند صرف حضرت ابو بکر صدیق ؓکو حاصل ہوا۔حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے بارے میں سورۃ الزمر کی آیت نمبر 33 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے ذریعے ملنے والے پیغام حق کی تصدیق کی ۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ ؓ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپ نے اس دور میں دین حق سے وابستگی اختیار کی ‘ جب دین کو قبول کرنا انگاروں پر چلنے کے مترادف تھا۔ اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسلام کی جانچ پڑتال کی اور نبی کریم ﷺ سے نشانی یا معجزات طلب کیے‘ لیکن حضرت ابو بکر صدیق ؓ چونکہ نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ اور اوصاف حمیدہ سے پور ی طرح آگاہ تھے‘ اس لیے جب نبی ﷺ نے اسلام کی دعوت دی تو آپ نے اس کو بغیر کسی چون وچرا کے قبول کر لیا۔
امام بخاری ؒ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قبول اسلام کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابودرداء ؓفرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا'' اے لوگو! جب میں نے کہا کہ میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تو سب نے میری تکذیب کی جبکہ ابو بکر ؓ نے میری تصدیق کی ‘‘۔ 
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اسلام قبول کرنے کی پاداش میں بہت سی تنگیوں اور تکالیف کو سہنا پڑا‘ جن کو آپ ؓ نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور صرف خود ہی اسلام پر ایمان اور استقامت کواختیار نہیں کیا بلکہ بہت سے ان لو گوں کی جو اسلام کی وجہ سے مصائب کا شکار ہوئے ‘ڈھارس بھی بندھاتے رہے ۔ آپ ؓ نے ان کی دلجوئی کے لیے گاہے بگاہے اپنا مال و اسباب بھی خرچ کیا۔
اللہ کی رضاء اور خوشنودی کیلئے مال خرچ کرنے کی وجہ سے سورۃ اللیل کی آیات نمبر 17 سے 21 میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓکی توصیف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا''جو پاکی حاصل کرنے کے لئے اپنا مال دیتا ہے ،کسی پر اس کا کوئی احسان نہیں کہ جس کا بدلہ دیا جا رہا ہوبلکہ اس کو صرف اپنے بزرگ وبلند پروردگار کی رضامطلوب ہے اور عنقریب اللہ بھی اس سے راضی ہو جائیں گے ‘‘۔
حضرت ابو بکر صدیق ؓ ہر وقت حضرت رسول اللہ ﷺ کے حکم کے منتظر رہتے تھے کہ آپ کا حکم ہو اور آپؓ اپنے نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اپنا مال خرچ کر سکیں ۔مسند احمد میں ایک روایت مذکور ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ ''کسی کہ مال نے مجھے ابو بکر کے مال جتنا فائدہ نہیں پہنچایا‘‘آپ کے اس فرمان پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ رو پڑے اور عرض کی کہ ''اے اللہ کے رسول میں اور میرا مال تو آپ ہی کا ہے ‘‘۔ 
امام ابن عساکر ؒنے روایت نقل کی ہے حضرت عروہ بن زبیراور حضرت عائشہؓ فرماتے ہیں ''جس دن حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اسلام قبول کیا ان کے پاس چالیس ہزار دینار تھے اور ایک دوسری روایت کے مطابق چالیس ہزار درہم تھے جن کو آپ ؓ نے اللہ کے نبی ﷺ پر خرچ فرمادیا تھا‘‘ اور امام ابن عساکر ہی نے ایک موقع پر حضرت عائشہ ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ''حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ایسے 7 غلاموں کو آزاد کروایا جن میں سے ہر ایک کو اللہ کی تو حید کی وجہ سے اذیت کا نشانہ بنایا جارہا تھا‘‘۔ 
مکہ کی زمین کو جب مسلمانوں پر تنگ کر دیا گیا تو نبی کریم ﷺ کے حکم پر مسلمانوں کی ایک جماعت حبشہ کی طرف ہجرت کر گئی جبکہ نبی کریم ﷺ خود اللہ کے حکم کے منتظر رہے کہ جب اللہ کا امر ہو تو آپ بھی سرزمین مکہ کو دیگر مسلمانوں کے ہمراہ خیر باد کہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو ہجرت کی اجاز ت دی تو آپ ﷺ کی رفاقت کے لیے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو منتخب فرمایا۔مکہ مکرمہ سے مدینہ جاتے ہوئے سفر کی تمام تکلیفوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ تھے۔ غار ثور کی تنہائیوں میں حضرت ابوبکر ؓکو اس بات کی فکر تھی کہ کہیں کافر آپ ﷺکو نقصان نہ پہنچادیں ۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی جانثارانہ ادائیں اتنی پسند آئیںکہ اللہ نے قیامت تک ان کو اپنے کلام کا حصہ بنادیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃالتوبہ کی آیت نمبر 40 میں ارشاد فرمایا: ''اگر تم ان کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی‘ اس وقت جب کافروں نے ان کو دیس سے نکال دیا تھااور دو میں سے دوسرے ان کے ہمراہ تھے‘ جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ہمراہی میں بحفاظت مدینہ منورہ منتقل فرمادیا لیکن مدینہ طیبہ کا قیام بھی اہل اسلام کے لئے پھولوں کی سیج ثابت نہ ہوا ۔ کفار مکہ حسد اور انتقام کے جذبے سے مغلوب ہو کر بار بار مدینہ پر فوج کشی کرتے رہے ۔اللہ کے رسولﷺ نے بھر پور جرأت اور بہادری سے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی ہمراہی میں کافروں کا مقابلہ کیا ۔اسلامی ریاست کے دفاع اور استحکام کے لیے لڑی جانے والی ان تمام جنگوں میں حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہوا کرتے تھے ۔رومی سیکٹر پر لڑی جانے والی جنگ ،جنگ تبوک میں نبی ﷺ نے مسلمانوں کو بڑھ چڑھ کر اپنا مال خرچ کرنے کی تلقین کی جس پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے گھر کا سارا سامان اللہ کی رضا کے لیے وقف کر دیا ۔
آپ ؓ نے حضرت خدیجۃالکبریٰ ؓ کے انتقال کے بعد بھی نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی لخت جگر حضرت عائشہ ؓ کو آپ ﷺ کے حرم پاک میں داخل فرمادیا ۔گو کہ سیدہ خدیجۃالکبری ؓکاخلاء اور کمی پوری نہ ہو سکی لیکن حضرت عائشہ کی شکل میں نبی کریم ﷺ کو بہت زیادہ محبت اور خدمت کرنے والی شریک زندگی میسر آگئی ۔
نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کو مسلمانوں کی امامت کا حکم دیا گیا اورنبی کریمﷺ آپ ؓ کی امامت میں لوگوں کو جمع فرما کرہی دنیا سے رخصت ہوئے ۔آپ ﷺ کے انتقال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓ خلیفۃالمسلمین بنے اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی سیرت وتعلیمات کے مطابق حکومت کرتے رہے ۔ آپؓ نے اپنے عہد مبارک میں مرتدین کی سرکوبی کی،مانعین زکوٰۃ سے زکوٰۃ وصول کی، مسیلمہ کذاب کے فتنے کاقلع قمع کیا،سادگی اور قناعت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور اسلامی سلطنت کو درپیش چیلنجز کا پورے وقار اور حوصلے سے مقابلہ کیا ۔
دو سال دو مہینے کے قلیل عرصے میں مستحکم اور منظم اسلامی حکومت قائم کر کے 22 جمادی الثانی کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ آپ ؓ کے شرف اور خوش نصیبی کا کیا کہنا کہ آپؓ کوآغاز اسلام میں سفر ہجرت سے رسول اللہ ﷺکی ہمراہی حاصل رہی ۔غار کی رفاقت کے دوران نبی ﷺ کی غیر معمولی قربت کا جوامتیازی اعزاز آپؓ کو حاصل ہوا وہ انتقال کے بعد بھی برقرار رہااور آپؓتا قیامت نبی کریم ﷺ کے حجرہ مبارک میں آپ ہی کے دامن میں محوخواب ہو گئے ۔اس طرح آپؓ کی نبی کریم ﷺ سے محبت اور رفاقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved