سنتے آئے ہیں کہ سیاستدان عموماً انتہائی سمجھدار زِیرک اور سیانے ہوا کرتے ہیں‘ بولنے سے پہلے ایک لفظ لفظ کو سو بار تولتے ہیں اور پھر ادا کرتے ہیں کیونکہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی راہنمائی کا علم تھامے وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ آگ لگا بھی سکتے ہیں اور بجھا بھی سکتے ہیں۔ الفاظ تو الفاظ سیاستدان کی خاموشی بھی بے معانی و بے مقصد نہیں ہوا کرتی۔ سیاستدان بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہ کس وقت کس خاموشی کا کیا مطلب لیا جائے گا‘ سو‘ ماہر سیاستدان خاموشی سے بھی لفظوں کا کام لے رہا ہوتا ہے‘ اپنی خاموشی سے بھی ایسی لہریں پیدا کر رہا ہوتا ہے جو کوئی عام آدمی تقریر کا ماہر ہونے کے باوجود نہیں کر سکتا۔ مشرف کیس میں جب کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے گرد قانونی گھیرا آہستہ آہستہ تنگ ہوتا چلا جا رہا تھا اور اہم ادارے اس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ جنرل مشرف کے ساتھ کُھل کر کھڑا ہوا جائے یا ان سے زیادہ سے زیادہ گریز کی پالیسی پہ گامزن رہا جائے کہ اچانک موجودہ حکومت کے دو اہم ترین سیاست دانوں نے لفظوں کی ایسی آگ اُگلی کہ نہ چاہنے کے باوجود اہم اداروں پہ اتنا دبائو آیا کہ انہیں کُھل کے مشرف کی حمایت میں سامنے آنا پڑا۔ تنائو بڑھتا چلا گیا اور اگر آپ غور کریں تو مشرف کیس کی جو آگ دھیمے دھیمے سُلگ رہی تھی اس پر تیل ڈالنے کا کام سیاستدانوں کے لفظوں اور لہجوں نے ہی کیا۔ وہ ادارے جو پچھلے کئی برسوں سے اپنی حدود میں رہنے پر سختی سے کاربند تھے (کم ازکم بظاہر یہی نظر آتا تھا) جس کے نتیجے میں2008ء کے الیکشن میں مشرف کے حامیوں کے بجائے جمہور کو نام نہاد جمہوریت اور حکومت نصیب ہوئی تھی‘ ان اداروں میں خود بھی یہ سوچ پروان چڑھنا شروع ہو گئی تھی کہ واقعی اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے سے ہی عوام کی محبت نصیب ہوا کرتی ہے اور ملکی بقا بھی اسی میں ہے۔ یہ وہی سوچ تھی جس کے باعث اہم اداروں کے سربراہ بخوشی اپنے وزرا کو سلیوٹ کرتے پائے گئے۔ مگر سچی بات ہے کہ جتنی تبدیلی پچھلے چند سالوں میں، پھر لکھوں گا بظاہر ہی سہی مگر اہم اداروں میں دیکھی گئی‘ سیاستدانوں نے اپنے ہر فعل سے یہی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اگر کسی نے بالکل نہیں سیکھا اور ذرا بھی نہیں بدلے تو وہ ہمارے سیاستدان ہی ہیں‘ جب کہ حقیقت اور المیہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ بدلنے کی ضرورت سیاستدانوں کو تھی اور ہے کہ سیاستدان ریاست کے سربراہ ہوا کرتے ہیں۔ انہیں کے ہر قسم کے رویوں کو ادارے تو کیا پوری قوم فالو کر رہی ہوتی ہے۔ ایک عربی محاورے کے مطابق عوام کا وہی دین و مذہب ہوا کرتا ہے جو حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ ایک اور عربی محاورے کے مطابق مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے۔ گویا ہر فرد ہر ادارے کی ذمے داری بے پناہ مگر سب سے زیادہ ذمے داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہوتی ہے کہ ان کے ہر ہر رویے سے یہ ثابت ہو کہ وہ کسی قوم کی راہنمائی کے اہل ہیں۔ افسوس کہ پچھلے چند سالوں میں پیپلز پارٹی کی حکومت سمیت موجودہ حکومت نے بھی اس حوالے سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
مشرف کیس میں جو تلخی خصوصاً سیاستدانوں کی بڑھکوں کے باعث پیدا ہوئی تھی‘میڈیا اور دانشوروں کے بھرپور دبائو کے باعث وزیر اعظم کے خوشگوار ماحول میں کاکول جانے سے کسی حد تک اس تلخی میں کمی آئی ہی تھی کہ حامد میر صاحب کا اندوہناک واقعہ سامنے آ گیا ۔اس واقعے کی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت جو ریاست کی حکمرانی کا تاج سر پہ سجائے ہوئے ہے‘ اس موقع پر صورتحال بگڑتی دیکھ کر اداروں اور میڈیا کے درمیان پُل کا کام کرتی‘ تلخیاں اور غلط فہمیاں دور کرتی۔ ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے جس کا نقصان ہوا ہے اسے اپنا نقصان سمجھتی اور جس پہ الزام لگ رہا ہے اس کو اپنا ایک ادارہ تصور کرتے ہوئے اس الزام کو اپنے اوپر الزام تصور کرتی۔ اگر اس درد مندی اور خلوص سے آگے بڑھا جاتا تو یقیناً ایک طرف حکومت زخمی دلوں پر مرہم رکھتی اور دوسری طرف اپنے ماتحت ادارے کی توہین و تذلیل برداشت کیے بغیر، اس ادارے سے اس پہ لگے الزام کی وضاحت و صفائی کا مطالبہ و اہتمام کرتی۔ لیکن ہوا کیا؟ یہی تاثر دیا جاتا رہا کہ حکومت کو اپنے ماتحت اداروں پہ لگے الزامات کی کوئی پروا نہیں۔ پھر جب حکومتی خاموشی سے تنگ آ کر اداروں کو خود اپنے دفاع اور خود پر لگے الزامات کی وضاحت کے لیے آگے آنا پڑا‘ جون ایلیا کے اس شعر کے مصداق کہ...
بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
تو حکمرانوں نے الفاظ سے وہی جلتی پہ تیل کا کام لیا جو پہلے اپنی خاموشی سے لے رہے تھے۔ فرمایا... ''وزیر اعظم کی حامد میر صاحب کی عیادت سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کس کے ساتھ ہے‘‘۔ آقاﷺ نے فرمایا کہ ''میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کا ہاتھ بھی کٹوانے کا حکم دیتا‘‘۔ گویا اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ چاہے کوئی کتنا ہی طاقتور شخص کیوں نہ ہو اگر غلطی کرے گا تو اسے قانون کی گرفت میں آنا چاہیے‘ مگر دانشمندی و عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ الزام تراشیوں سے نہیں‘ انصاف کے حصول کے لیے حکمت، تدبر اور تحمل سے آگے بڑھنا پڑتا ہے۔ عجلت میں تعصب، کینہ اور بغض رکھتے ہوئے جو فیصلے کیے جاتے ہیں، جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں یا جو خاموشی بھی اختیار کی جاتی ہے‘ اس سے کبھی انصاف نہیں ملتا اور سچ یہ ہے کہ ایسے رویوں سے دستیاب آزادی بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ انصاف اخلاص کا تقاضا کرتا ہے جو سچے اور پُرخلوص سیاستدان یقیناً اپنی قوم سے رکھتے ہیں مگر مال بنانے والوں کی توجہ مال پر ہوا کرتی ہے قوم پہ نہیں۔ اگر مال بنانے والوں کو سیاستدان سمجھ کر اپنی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھما دیں گے تو ان کے الفاظ بھی تباہی لائیں گے اور ان کی خاموشی بھی۔ خدا خدا کر کے جو جمہوریت اس ملک کو نصیب ہوئی ہے وہ ان نااہل سیاستدانوں کے باعث خطرے میں پڑتی نظر آتی ہے۔ خدانخواستہ پھر ایسا ہوا تو کوئی دبئی، کوئی لندن، کوئی نیویارک، پیرس اور جدہ نکل جائے گا اور اس ملک کا عام آدمی، عام صحافی، سول سوسائٹی، عام وکیل پھر سے جمہوریت کے لیے لڑ رہا ہو گا۔... ہے تو یہ مشکل کام پھر بھی کوئی سمجھائے انہیں...