معروف صحافی اوراینکر پرسن حامد میر پرکراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا اوروہ شدید زخمی ہوگئے۔ ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس پر انتہائی حُزن وملال اور رنج والم کا اظہار کرتے ہیں، اُن کے خاندان کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ ساتھ ان کی جلد صحت یابی کے لئے اﷲتعالی کی بارگاہ میں دعاگو ہیں اور اس پر یک گونہ تشکر بجا لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی زندگی کی حفاظت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ذات پاک سب کی جان، مال اورآبروکی حفاظت فرمائے ۔ ظلم اور قتل وغارت کی ہر صورت انتہائی مذموم، اذیت ناک اور قابلِ مذمّت ہے، خواہ اس کا نشانہ علماء ہوں ، صحافی ہوں ، جج اور وکلا ہوں یا سیاسی رہنما،کارکن یا عام شہری ہوں ۔
صحافت حامد میرکی شخصیت اورخون میں شامل ہے، یہ انہیں اپنے والد مرحوم سے وراثت میں ملی۔ انہوں نے انتھک محنت اور لگن سے میدانِ صحافت میں اپنا مقام بنایا، قسمت نے بھی ان کی یاوری کی اورانہیں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے استعمال کے مواقع فراہم کیے۔ لہٰذا وثوق سے کہا جاسکتاہے کہ وہ اس وقت ہمارے صحافتی شعبے کے نمایاں افراد میں سے ایک ہیں۔ کسی کے تمام نظریات سے نہ بلادلیل اختلاف درست ہے اور نہ ہی اندھا اتفاق۔ اختلاف واتفاق دلیل اور شواہد کی بنیاد پر ہوناچاہئے ، مثبت وتعمیری اختلاف اور بحث ومباحثہ اچھی روایت ہے، اس سے خالی الذہن اور غیرجانبدار قارئین وناظرین کو حقائق جاننے کا موقع ملتاہے۔ جناب حامد میرکو قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعرِ ملّت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال سے بے پناہ محبت ہے، اس کے ساتھ ساتھ ختمِ نبوت سے بھی انہیں عقیدت ہے اور ان کی فکرکے یہ زاویے ہمیں بھی پسند ہیں۔ اپنے کالموں یاٹی وی شو میں وہ بعض شعبوں پر تسلسل سے توجہ دیتے رہے، ظاہر ہے کہ ان کی فکر سے نظریاتی اختلاف رکھنے والے افراد یا ادارے موجود ہیں ۔ لیکن جب کوئی کسی چیزکو اپنا مشن بنا لے تو وہ ذہنی اور فکری طور پر خطرات کے لئے بھی تیار رہتاہے اور جیساکہ بتایا گیا،انہوں نے اپنے ادارے ، اہلِ خانہ یا بعض احباب کو اپنے خدشات سے آگاہ بھی کررکھا تھا۔ دراصل اپنے والد مرحوم پر بیتے ہوئے حالات اور ماضی کے ادوار میں اُن کے ساتھ روارکھے گئے اہلِ اقتدارکے نامناسب رویوں کی ناخوشگوار یادیں بھی ان کے دل ودماغ سے محو نہیں ہوپائیں اور بعض اوقات انسان غمِ جاں کو غمِ دوراں بنا لیتاہے اور یہ بھی انسان کی فطرت ہے کہ جو شخص ایک خاص طرح کے حالات کے جبر سے گزرا ہو اورکسی کے انتقام کا نشانہ بنا ہو تواس کو ان جیسے حالات میں مبتلا دوسرے اشخاص کے دکھ درد کا ادراک واحساس بہتر طور پر ہوتا ہے اوراُن کو دیکھ کر اُس کے اپنے زخم تازہ ہوجاتے ہیں۔ شاید حامد میر صاحب کی فکری ساخت میں یہ ایک عنصر بھی کارفرماہے۔
ان پر قاتلانہ حملے کے بعدبلاشبہ ایک جذباتی کیفیت پیدا ہوئی جس نے ان کے میڈیاکے رفقائے کار اور اہلِ خانہ کو شدید صدمے سے دوچار کردیا اور ایسے حالات میں جذبات کے اظہار میں انسان سے بے اعتدالی ہوجاتی ہے ۔ان کے میڈیا گروپ سے بھی ایک حدتک بے اعتدالی ہوئی جس کا بعد میں انہوں نے خود ادراک کرلیا اور اس کی تلافی کی بھی ممکن حدتک کوشش کی۔گزشتہ شب کے پروگرام واضح طورپر اسی تلافیِ مافات کے لئے تھے۔
آئی ایس آئی اے ایک قومی ادارہ ہے، اس کا دائرۂ کار اور تفویض کردہ ذمے داری ایک قومی، ملّی اور ملکی ضرورت ہے اور اس طرح کے ادارے دنیاکے ہر ملک میں موجود ہیں ۔ کسی بھی ادارے کے ایک فرد یا چند افراد کی بے اعتدالی سے اگر کہیں کچھ سرزد ہوجائے تو پورے ادارے کوطعن وتشنیع کانشانہ بنانا درست نہیں ، کیونکہ اس سے پاکستان کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہمارے حساس اداروں کے خلاف عالمی سطح پرمنفی پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا لیا جاتاہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارے ویسے بھی ہندوستان، امریکہ ، اسرائیل اور بعض دوسرے ممالک کے لئے انتہائی ناقابلِ قبول اور ناپسندیدہ ہیں ۔ ان دنوں جبکہ ہمارا ملک بین الاقوامی جاسوسی اداروں۔۔۔ را، موساد، سی آئی اے، ایم آئی سکس ، بعض برادر ہمسایہ ممالک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی آماجگاہ بناہواہے، آئی ایس آئی اے کی ضرورت وافادیت اور بڑھ جاتی ہے اور ہمارے قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ آئی ایس آئی کو داخلی تنازعات میں نہ الجھایاجائے تاکہ اس کی کامل توجہ اپنی اصل ذمے داریوں پر مرکوزر ہے۔
لیکن اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو زیادہ نہ اچھالا جائے، کوئی بھی کارروائی پیمرا کی سطح پر ہو یا عدالتی سطح پر، اس وقت اُس پر عالمی اداروں کی نظر ہوگی اوروہ اِسے Exploit کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے، اس کے لئے الیکٹرانک میڈیا اورآزادیِ صحافت کے اداروں کوعالمی سطح پر بھرپور طریقے سے استعمال کیا جائے گا اور اس کا نقصان ہمارے قومی ادارے آئی ایس آئی اے کو سب سے زیادہ ہوگا ۔ اس لئے ازحد احتیاط کی ضرورت ہے اور بہتر ہے کہ باہمی روابط کے ذریعے اعتذار اور تلافی کا کوئی قابلِ قبول اور باوقار طریقہ اختیار کیاجائے اور اسے حکومت اور حکومتی ادارے بھی قبول کریں ورنہ ہم اس محاورے کا مصداق بن جائیں گے کہ : ''چھری خربوزے پرگرے یا خربوزہ چھری پر، ہر صورت میں نقصان خربوزے کا ہوگا‘‘۔ اس لئے میری اپیل ہے کہ ہمارے قومی اداروں کو بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے قومی اداروں کو پہنچنے والے نقصان کے سدِّ باب کے لئے بروقت باہمی رابطے کا کوئی قابلِ عمل طریقۂ کار وضع کرناچاہئے۔
حامد میر صاحب کے سانحے نے الیکٹرانک میڈیا کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا۔ میں ایک عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے بعض اینکر پرسن ''خبر دینے اور خبر لینے‘‘ کی حدود سے تجاوز کرکے ''مصلحِ اعظم‘‘ کا منصب اختیار کرتے جارہے ہیں، وہ اپنے آپ کو مذہبی وسماجی مصلح ، سیاست کے معلم اور نہ جانے کیا کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم امریکہ اور مغربی دنیاکے میڈیاکو بھی وقتاً فوقتاً دیکھ لیتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں جو جارحانہ پن ہے، وہ امریکہ اور مغربی دنیا میں نہیں ہے۔
ہمارے میڈیا والے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اہلِ مذہب ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ایک دوسرے کے لئے منافرت کے جذبات رکھتے ہیں، اسی طرح وہ دوسرے شعبہ ہائے زندگی کو بھی اپنی ملامت کا ہدف بناتے رہتے ہیں، لیکن حامد میرکے سانحے نے یہ اجاگر کیا کہ ہمارے آزاد الیکٹرانک میڈیا میں مقابلے اور مسابقت کی وجہ سے منافرت انتہائی درجے پر پہنچ چکی ہے اوروہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ۔ یہ تو ہم دیکھتے رہتے تھے کہ ایک چینل دوسرے چینل کا نام لینے کا بھی روادار نہیں ہوتا، اگر کسی ایک چینل کے کارکن کو نشانہ بنایا جاتاہے تو صرف یہ ٹکر چلتاہے کہ ''ایک نجی ٹی وی کے رپورٹر یا فوٹو گرافر پر حملہ ہوا‘‘ ، لیکن اب تو یہ منافرت انتہا کو پہنچ گئی ، قرآن مجید نے اس کیفیت کو ان کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا:(1)''گویا وہ ابھی شدت غضب سے پھٹ جائے گی‘‘ (الملک:8)۔ (2)'' بُغض تو ان کی باتوں سے عیاں ہوچکااور جووہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے ہیں وہ اس سے بھی بہت بڑھ کرہے‘‘ (آل عمران:119) ۔ اس طرح کے تبصرے کہ ساری گولیاں نچلے دھڑ میں کیوں لگیں ، اس کا مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ براہِ راست دل یا دماغ میں کیوں نہ اترگئیں، انتہائی سنگ دلانہ ہے۔ غالباً بابابلھے شاہ کا شعر ہے کہ ع
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مر جانا
الغرض حامد میر کا حادثہ وسانحہ خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کے لئے ایک کسوٹی ہی نہیں بلکہ آئینہ بن گیا، جس سے ایک دوسرے کے لئے جو نفرتیں چھپائے بیٹھے تھے، چھلک کر سامنے آگئیں ۔اب بہتر ہوگا کہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا کے ناخدا دوسروں کو بھی اپنے جیسے انسان سمجھ کر ذرا نرم ہاتھ رکھیں گے اوراب وقت کا تقاضا بھی ہے کہ ہم سب ذمے داری ، توازن اور اعتدلال کا مظاہرہ کریں اور خود اپنے لئے ریڈ لائن مقرر کریںاور اُسے عبور نہ کرنے کی رضاکارانہ اخلاقی ذمہ داری اپنے اوپر عائد کریں ۔