یحییٰ خان کے مارشل لا میں‘ جب کسی طرف سے انسانی حقوق کی حمایت میں آواز نہیں اٹھائی جا رہی تھی‘ ایک شخص آمریت کے خلاف ‘ ہاتھ میں بینر اٹھائے ‘ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر اکیلا کھڑا ہو گیا۔ پھیلی ہوئی کشادہ سڑک پر‘ بلندوبالا عمارتوں کے درمیان یہ اکیلا شخص ''چراغ آفریدم‘‘ کی تصویر بنا‘ دیر تک دنیا کو بتاتا رہا کہ یحییٰ ٹولے کے جبر و تشدد کی گہری تاریکیوں میں آزادی اور روشن ضمیری کا ایک چراغ ‘آج بھی اپنی منحنی سی روشنی کی لو بلند کئے کھڑا ہے۔ یہ علامتی احتجاج تھا ۔ جبر سے زیادہ‘ جبر سہنے والوں کے خلاف۔اس شخص کا نام ملک غلام جیلانی تھا‘ جس نے ہمیشہ عیش و آرام کی زندگی گزاری۔ لندن کی بہترین فیملی کلبوں میں‘ بڑے بڑے رئیس خاندانوں کے ساتھ شامیں گزارتا۔ پاکستان واپس آتا‘ تواہل وطن کی مصیبتیں دیکھ کر‘ اپنے آپ پر قابو نہ پا سکتا اور احتجاج کے لئے جہاں بھی گنجائش نکلتی‘ پہنچ جاتا۔ کبھی عدالتوں میں‘ کبھی سڑکوں پر‘ کبھی چوراہوں میں اور کہیں جگہ نہ ملتی‘ تو جیل میں۔ یہ روایتی سیاسی ورکر نہیں تھا۔ انسانی حقوق‘ شہری آزادیوں اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والا‘ ایک مہذب انسان تھا۔ اپنی بات کہنے میں نہ کسی دوست کا لحاظ کرتا اور نہ کسی دشمن سے بد لحاظی۔جو سچ اسے دکھائی دیتا‘ اس کا اظہار کرنے میں وہ کبھی نہیں چوکا۔منہ پر سچی بات کہہ دی۔ کوئی ناراض ہوا‘ تو پروا نہ کی۔ کوئی خوش ہوا‘ تو بھی پروا نہ کی۔ اس کی زندگی ایک مکمل تاریخ ہے‘ جو پاکستانی عدالتوں میں مقدموں کے ریکارڈ کی شکل میں محفوظ پڑی ہے۔ کبھی کسی محقق نے ہمت کی‘ تو پاکستانی آمریت کے خلاف جدوجہد کے ریکارڈ کا بڑا حصہ‘ عوام کی نظروں میں آ جائے گا۔ ملک صاحب کے مقدمے اور پاکستان کی پہلی دستورساز اسمبلی میںمیاں افتخارالدین کی تقریریں ‘روشن ضمیری‘ سیاسی دوراندیشی اور فہم و فراست کے عمدہ نمونے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر‘ پاکستان کی ممتاز وکیل اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خاطر لڑنے والی‘ عالمی شہرت کی حامل خاتون ہیں۔ اپنے والد کی طرح انہیںجہاں بھی سچائی اور انسانی اقدار پابہ زنجیر نظر آئیں‘یہ انہیں توڑنے کی جدوجہد میں جا کودیں۔ کامیابی و ناکامی سے بے نیاز‘بقول میاں محمد بخشؒ ؎
مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھُل لانا‘ لاوے یا نہ لاوے
ملک غلام جیلانی اور ان کی بیٹی عاصمہ جہانگیر کی زندگی اسی شعر کی تفسیریں ہیں۔پاکستان میں‘ ان دنوں جو بظاہر میڈیا وار دکھائی دے رہی ہے‘ یہ طاقتوروںمیںجاری کش مکش کا ایک حصہ ہے۔ ایک طرف قوم پرستی‘ پیشہ ورانہ تربیت اور قومی آزادی کے تصورات ہیں‘ دوسری طرف ترقی و خوشحالی‘ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے مفادات اور مالیاتی قلعہ بندیوں کے تحفظات ہیں۔ یہ اتفاق نہیں کہ پاکستان کے سب سے بڑے سرمایہ دار ‘میڈیاگروپ اور سب سے زیادہ مالیاتی مفادات رکھنے والی سیاسی طاقت ‘ ملک کے عسکری مراکز کے ساتھ غیراعلانیہ زورآزمائی میں مصروف ہیں۔ بظاہر اس جنگ کو آزادی اظہارکے حامیوں اور مخالفوں کی محاذآرائی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اصل میں یہ ارتکاز اختیارات کی رسہ کشی ہے‘ جو قیام پاکستان سے لے کر آج تک جاری ہے۔
ہو سکتا ہے یہ لڑائی فیصلہ کن دور میں داخل ہو جائے اور اس وقت تک جاری رہے ‘ جب تک ایک فریق دوسرے پر غلبہ حاصل نہیں کر لیتا یااس کشمکش سے تنگ آئے ہوئے عوام بیدار ہو کر‘ انسان کے آئینی و قانونی حقوق چھین نہیں لیتے۔ میرے نزدیک نہ اداروں کے وقار کا سوال حقیقی ہے اور نہ عوام کی بالادستی کا نعرہ۔ یہ دونوں بھی مل جائیں‘ جس کا بے حد امکان ہے‘ تو بھی تیل عوام ہی کا نکلے گا۔ دونوں میں سے ایک غلبہ حاصل کر جائے‘ پھر بھی عوام کو نجات نہیںملے گی۔ کوئی فتح یاب ہو یا مفتوح۔ شکست عوام کی ہے۔ ایک مشقتی بیل کے فلسفہ حیات کی طرح‘ جس نے زندگی بھر کا نچوڑ ان الفاظ میں بتایا تھا کہ ''مجھے کھیت میں کام کرنا پڑے یا کولہو چلانا۔ یاراں نے تے پٹھے ای کھانے ایں‘‘ (یاروں کو تو چارہ ہی کھانا ہے)۔ پاکستان کی موجودہ عسکری اور جمہوری آمریتوں کے جھگڑے پر ‘عاصمہ جہانگیر نے حسب روایت حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے کہا ہے ''مجھے اس بات پر بہت تشویش ہے کہ میڈیا کو آزاد کرانے کے لئے ہم نے جو جدوجہد کی‘ وہ اب بالکل ہی پیچھے چلی گئی ہے۔ ''جیو‘‘ گروپ نے بھی حدیں پار کی ہوئی تھیں۔ اس گروپ نے بے شرمی سے لوگوں کی تذلیل کرنا اور انہیں تکلیف دینا شروع کیا ہوا تھا۔ مجھے اس بات پر بہت تشویش ہے کہ ہم نے جس جدوجہد کے ساتھ آزاد میڈیا مانگا تھا‘ اس کے لئے ہماری جدوجہد مکمل نہیں ہوئی۔ بلکہ اب وہ بالکل ہی پیچھے چلی گئی ہے۔‘‘ عاصمہ جہانگیر نے آگے چل کر کہا ''لوگوں کو میڈیا سے شکایت تھی کہ بلاوجہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا تھا۔ متعدد افراد اس مسئلے کی وجہ سے بیمار ہو چکے تھے۔ میں بہت شدت سے اس بات کی مذمت کرتی ہوں کہ کسی بھی چینل کو بند کر دیا جائے۔ یہ انتہائی اقدام ہے۔ اس سے آزادی اظہار کو بہت ٹھیس پہنچے گی۔ ''جیو‘‘ گروپ نے حب الوطنی اور ملکی مفاد کے بارے میں جو بحث چھیڑ رکھی تھی اور اس کے پروگراموں کے شرکا نے‘ جس طرح حب الوطنی کی فیکٹری کھول رکھی تھی‘ اس پر ردعمل تو ہونا ہی تھا۔ ''جیو‘‘ گروپ کو ایک حد تک لائن ڈرا کرنا چاہیے تھی کیونکہ پاکستان میں کوئی بھی شخص‘ کسی کو بھی حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتا اور جس سطح پر ''جیو‘‘ کے خلاف پراپیگنڈا ہوا ہے‘ وہ بھی قابل برداشت نہیں۔‘‘
میں عاصمہ جہانگیر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کروں گا کہ جس سوال پر کشیدگی پیدا ہوئی ‘ اس کا نہ حب الوطنی سے تعلق ہے اور نہ آزادی اظہار سے۔ یہ دونوں اصطلاحیں کھوٹی نیتوں کے سکے ہیں۔ جنہیں ڈنڈے کے زور پر مسلسل چلایا جا رہا ہے۔کھوٹے سکوں کے کاروبار میں‘ ایک سچے صحافی پر قاتلانہ حملے کاسانحہ بالکل ہی پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ ان کی حمایت اور مخالفت میں لکھنے والوں کا زیادہ زور اس تکرار پر رہا ''میں صحافی۔ میں صحافی۔ میں صحافی۔‘‘ یوں لگتا ہے ‘ جیسے میڈیا میں نوکری پا کے‘ کچھ لوگ کسی ارفع مخلوق میں جا ملے ہیں۔ خود فریفتگی کے مارے ہوئے ایسے ہی ایک ''میں صحافی‘‘ نے ٹی وی ٹاک میں مجھ سے سوال کر دیا تھا ''آپ نے صحافت میں کیا کیا ہے؟‘‘ جس شخص کا مبلغ علم یہ ہو‘ وہ کسی بڑے ادارے میںذمہ دار پوزیشن کا حقدار نہیں۔خواہ مخواہ کی مشکل میں پھنسے‘ میڈیا گروپ کو اسی طرح کے دوتین کنوئیں کے مینڈکوں نے بلاوجہ پھنسا دیا ہے۔ اس کی فکری اور علمی سطح‘ کسی دور افتادہ گائوں کے ان پڑھ مولوی جیسی ہے‘ جس نے مناظروں میں حصہ لینے کے لئے انگریزی سیکھ لی ہو۔ بیگانی شادی کے جھگڑے میں پڑے ہوئے‘ ادارے کے سینئرز کو‘مریضانہ ذہنیت کے حامل‘ اس شخص کو مزیدچھوت پھیلانے کا موقع نہیں دینا چاہیے۔ جو شخص عالمی سطح کے سکالر‘ ڈاکٹر پرویزہودبھائی کو جاہل قرار دیتا ہو‘ اجنبیوں کے ہجوم میں‘ چار مردوں کے ہاتھوں میں جکڑی‘ ایک بے بس لڑکی پر کوڑے برسانے کے وحشیانہ عمل کو‘ اسلامی سزا قرار دیتا ہو‘ اسے انصاف ‘ تہذیب اور انسانیت سے کیا واسطہ؟ وہ شخص خود ہی بربنائے جہالت‘ اپنی تحریروں کو انفرادی فعل تسلیم کر رہا ہے۔ جب کوئی تحریر یا خیال ‘ اشاعتی ادارے کی طرف سے شائع یا نشر ہو جائے‘ تو وہ انفرادی رائے نہیں رہتی‘ ادارے کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ مناسب یہی ہو گا کہ ادارے کے سینئر ایڈیٹرز اس ''انفرادی فعل‘‘ سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے‘ اظہار افسوس کریں اور میڈیا کی آزادی کے لئے پیدا ہوتے ہوئے خطرات سے خود کو بھی بچائیں اور اپنے ساتھی ہنرمندوں اور محنت کشوں کے روزگار کا بھی تحفظ کریں۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ پاگل پن میں بم چلا کر‘ اردگرد کے لوگوں کوخطرے میں ڈالے۔میڈیا میں کبھی ایسی لڑائی نہیں چھیڑنا چاہیے‘ جس کا فیصلہ اجتماعی طور پہ نہ کیا جائے۔ ہر ادارے کو ایسی غلطی سے گریز کرنا چاہیے‘ جس کا نتیجہ پوری کمیونٹی کو بھگتنا پڑے۔قدرت نے ادارہ ''جنگ‘‘ کو
وافروسائل مہیا کر رکھے ہیں‘ وہ محاذآرائی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ سارے کارکنوںکے پاس اتنے وسائل نہیں اور اس لئے تو بالکل نہیں کہ تمام ادارے‘ کسی دوسرے ادارے میں‘ ایک انفرادی غلطی پر‘اپنی آزادی اور کاروبار دائو پر لگائیں۔آخر میں آغا خان ہسپتال کے اندر حامد میر کے لئے لائے گئے پھولوں پر لکھ کے رکھی ایک تحریر"Get well Hamid Mir,we may not be able to protect you,but we know where to order the best flowers."(ہم تمہیں تحفظ نہیں دے سکے۔ مگر وہ جگہ ڈھونڈ لی جہاں سے‘ تمہارے لئے بہترین پھول لے آئیں۔)