خواجہ محمد آصف نے1965 ء کی جنگ ستمبر میںجب افواج پاکستان کو بزدلی کے طعنے دیئے تو میں نے ''زاغوں کے تصرف میں ہے شاہین کا نشیمن‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا‘ اس پر ایک ای میل میں مجھے دنیا جہاں کی غلیظ گالیاں اور دھمکیاںدی گئیں۔ ایک لمحے کیلئے میرا خون کھول اٹھا اور فیصلہ کیا کہ اسے منہ توڑ جواب دوں لیکن پھر سوچا کہ ہر ایک کا اپنا ظرف ہوتا ہے‘ گھریلو تربیت ہوتی ہے‘ میں ان جیسا کیوں بنوں؟ میری دعا ہے کہ اﷲ ایسے تمام لوگوں کو ہدایت دے۔ افواج پاکستان کے ساتھ میری حمایت کی بناء پر میرے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا ہے لیکن میں ایسے لوگوں کو کیسے بتائوں کہ پاکستان اور اس کی افواج میری پہلی محبت ہے جس کا با قاعدہ آغا ز جنگ ستمبر سے شروع ہو تا ہے۔ کیونکہ میں نے محاذ جنگ سے اپنے فوجیوں کی کٹی پھٹی لاشیں اپنے ہاتھوں سے قصور کے پرانے لاری اڈے کے ساتھ واقع قبرستانوں میں امانتاً دفنائی ہیں۔ میں نے شدید زخمی اور کٹے ہوئے جسموں والے فوجیوں کو نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے مارتے ہوئے یہ بلبلاتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے محاذ جنگ پر واپس بھیج دو‘‘۔ مجھے پاکستان اور اس کی فوج سے محبت پر جتنی چاہے گالیاں اور دھمکیاں دو لیکن یہ عشق اور بڑھے گا جس کا آغاز چھ ستمبر کو ہوا۔ جب میں پانچ ستمبر کی دوپہر قصور کے سرحدی گائوں سے لاہور جانے کیلئے گھر سے نکلا تو مجھے خلاف معمول فوجی نقل و حرکت نظر آئی لیکن لوگ اپنے معمول کے مطا بق آ جا رہے تھے۔ شام تک میں لاہور پہنچ گیاکیونکہ اگلی صبح مجھے ایبٹ روڈ پر ائیر فورس کے سلیکشن سینٹر پہنچنا تھا۔ چھ ستمبر کی صبح صدر بازار سے لاہور ریلوے اسٹیشن آتے ہوئے مجھے فوجیوں سے لدے ٹرک آتے جا تے نظر آئے۔ سچی بات ہے اس وقت تک مجھے لاہور کی سڑکوں اور راستوں بارے معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر سرخ رنگ کی دو منزلہ بس کے او پر والے حصہ میں بیٹھ گیا تاکہ ایبٹ روڈ سے ملحقہ شملہ پہاڑی کے پاس اتر سکوں۔ وہاں موجود دوسرے لوگوں کے علا وہ مسافروں میں عجیب قسم کی چہ میگوئیاں جاری تھیں۔ پتہ چلا کہ بھارت سے جنگ چھڑ گئی ہے ابھی ہم جی ٹی ایس سٹینڈ پر بس میں ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک خوفناک اور لرزا دینے والی چنگھاڑ نے ہلا کر رکھ دیا۔ ہماری اور ادھر ادھر کھڑی ہوئی بسوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ لوگ گھبرا کر جلدی جلدی بس سے اترنے لگے۔ ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ بھارتی جہازوں نے بم با ری کی ہے۔ ہر طرف لوگ ہی لوگ اکٹھے ہوگئے اور پھر افواہوں کا با زار گرم ہو گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہمارے کسی جیٹ فائٹر نے اپنی مقررہ سپیڈ توڑی تھی جس کی و جہ سے فضا میں زبردست ارتعاش پیدا ہوا۔ عوام کے ہجوم میں میری نظر اپنے ایک کلاس فیلو پر پڑی جس کا گائوں میرے قصبہ کے راستے میں پڑتا ہے ۔اسے دیکھ کر مجھے
کچھ حوصلہ ہوا اور پھر یہ ہجوم واہگہ کی طرف چل پڑا۔ میں اور میرا کلاس فیلوارشد چوہدری بھی واہگہ کی طرف چل پڑے۔ اس وقت ہم بھول گئے کہ ہما رے اپنے گھر تو با لکل سرحد کے ساتھ ہیں (میرے اس دوست نے بعد میں پاکستان نیوی میں کمیشن حاصل کرلیا تھا اور وہ چند سال پہلے بحیثیت کما نڈر ریٹائرہواہے) ہم دونوں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ نعرے ما رتے واہگہ کی طرف چل پڑے۔ کچھ لوگوںنے ہاتھوں میں لاٹھیاں، ڈنڈے اور چاقو پکڑے ہوئے تھے۔ ہم سب لوگ چلتے دوڑتے بھاگتے داروغہ والا سے کچھ آگے پہنچے تو پاک فوج کے کچھ جوان لوگوں کو آگے جانے سے روک رہے تھے۔ میری نظر پڑی تو سڑک
کے بائیں ہاتھ کچھ ہٹ کر اینٹوں کے ایک بھٹہ میں ہما ری رانی توپ اپنے جوہر دکھا رہی تھی۔ سرحدی علا قوں سے لٹے پٹے عورتیں مرد اور بچے سروں پر سامان اٹھائے لاہور کی طرف بھاگے چلے آ رہے تھے۔ ہجوم کی وجہ سے فوجی کانوائے گزرنے میں رکاوٹ پڑ رہی تھی‘ اس لیے فوجی جوانوں کی بار بار درخواست پر ہم سب واپس شہر کی طرف چل پڑے۔ آج جب اس بات کو پچاس سال ہونے کو ہیں اور اسٹیشن سے داروغہ والا سے بھی آگے کے فاصلہ پر غور کرتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ وہ کونسی طا قت اور جوش و جذبہ تھا جس نے پیدل آنے جانے پرتھکاوٹ کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہونے دیاتھا۔ سات ستمبر کو میں کسی نہ کسی طرح لاہور سے قصور اور پھر اپنے قصبہ پہنچ گیا جہاں ہر طرف گھبرائے ہوئے لوگ جنگ کی باتیں کر رہے تھے کیونکہ دشمن کے جہاز بار بار قصور اور اس کے نواحی گائوں فقیریئے والا کی آبا دیوں پر بمبا ری کر رہے تھے جس سے کئی شہری شہید ہو گئے۔ بی بی سی کے لاہور پر قبضہ کی خبر سے سب پریشان تھے جس پر میں نے انہیں بتا یا کہ میں خود داروغہ والا سے بھی آگے ہو کر آیا ہوں اور سب کچھ پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ اس وقت کا تھوڑا بہت شعور رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ دیہات
میں ریڈیو نہ ہونے کے برا براور بسوں کی تعداد نہایت کم تھی۔ فون کا سوال ہی نہیں تھا ‘سڑکیں چھوٹی چھوٹی اور وہ بھی زیادہ تر کچی۔ ریڈیو پاکستان کی ہدایات پر ''بلیک آئوٹ‘‘ پر عمل شروع ہو گیا۔ سرحدی علاقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مجاہد فورس بنائی گئی تھی۔ اس میں شامل ہونے کی وجہ سے میں نے براہ راست ملکی دفاع کی ذمہ داری سنبھالی۔ ہمیں اسٹین گن، گرینیڈ اور تھری نا ٹ تھری رائفل کے ا ستعمال کی تربیت دی گئی۔ ہمارے فرائض میں بلیک آئوٹ پر سختی سے عمل کرا نا ،دشمن کے ایجنٹوں پر نظر رکھنا اور پلوں اور دوسری اہم تنصیبات کی حفاظت شامل تھی۔ ہمارے قصبہ سے ملحقہ سیکٹر خاموش تھا۔ صرف تین چار دفعہ بھارتی طیاروں نے گولیاںبرسائیں جس سے میرے قصبہ کا ایک شہری شہید ہوگیا۔کچھ میل پرے قصور کا محاذ بہت گرم تھا جہاں بھارت نے اپنے چوتھے مائونٹین ڈویژن، اکتالیسویں مائونٹین بریگیڈ اور دو انڈی پینڈنٹ آرمرڈ بریگیڈ وںسے قصور کے راستے لاہور کی طرف بڑھنے کیلئے کھیم کرن کے مقابل روہی وال، بلانوالہ اور پنواںکی سرحدی پوسٹوں پر بھر پور حملہ کر دیا تھا۔ اس حملہ کے نتیجہ میں بھارتی فوج کی ڈوگرا رجمنٹ روہی وال کے جنوبی علاقہ سے آگے بڑھ گئی لیکن ہمارے توپ خانہ نے دشمن کی اس رجمنٹ کو ادھیڑ کر رکھ دیا اور میجر ملکیت سنگھ سمیت دشمن کے چودہ سپاہیوں کو گرفتار کرلیا۔ (جاری)
دشمن کی بھا ری نفری کے مقابلہ میں ہمارے پاس ایک نا مکمل ڈویژن تھا۔ سات دسمبر کو بریگیڈئیر صاحب داد خان کا بریگیڈ بھی کھیم سیکٹر پہنچ گیا۔ اب اندازہ کریں کہ اٹھائیس میل لمبے اس محاذ پر پاک فوج کی کل نفری صرف پانچ پلٹنیں تھی۔ 8 ستمبر کو بریگیڈئیر صاحب داد کے بریگیڈ اور پاکستان کی ٹینک رجمنٹ کے کرنل صاحبزاد گل شہید ہلال جرأت نے، پنجاب رجمنٹ اور ایف ایف کی ایک پلٹن سے کھیم کرن پر اپنا دبا ئو بڑھا دیا۔ دشمن نے اتنی خوفناک گولہ با ری کی کہ زمین اور آسمان آگ اور دھویں کے بادل میں تبدیل ہو گئے لیکن 8 ستمبر کو کرنل صاحبزاد گل شہید کی ٹینک رجمنٹ نے دشمن کے دونون فلینک بے بس کر دیئے۔ قصور کے محاذ پر پاکستانی فوج نے جنگی تاریخ کانا قابل یقین رسک لیتے ہوئے دشمن کی آنکھوں میں دھول جھونک کر بڑی بڑی اور دور تک ما ر کرنے والی توپیں دشمن کے منہ کے آگے کھڑی کر دیں ان گنوں نے فیروز پور میں نصب دشمن کے ریڈار ، آرڈی نینس فیکٹری، ریلوے اسٹیشن اور فوجی تنصیبات کو تہس نہس کر دیا۔1965 ء کی جنگ میں کھڈیاں اور عثمان والا سیکٹر کی جنگ میں خاموشی کی وجہ ہمارے اس توپ خانہ کی ٹھیک ٹھیک گولہ با ری تھی۔ چونکہ یہ گولہ با ری رات کو ہو تی تھی اس لیئے بھا رتی یہ سمجھتے تھے کہ ہوائی جہازوں سے گولہ با ری کی جا رہی ہے۔ میرے سمیت کچھ اور ساتھیوں کی ڈیوٹی قصور کے محاذ پر تھی تاکہ فوجی کنوائے اور دوسرا سامان گزارا جا سکے اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب ہما ری فوجیں کھیم کرن سے بھی آ گے نکل گئیں۔ ہم چونکہ محاذ کے قریب تھے اس لیئے ہمیں فوری اطلاع ہو گئی لیکن پاک فوج کا ایک اصول تھا کہ کسی جگہ پر قبضہ کرتے پھر اسے مستحکم کرکے اس جگہ سے آگے پیش قدمی کر نے کے بعد ریڈیو اور ٹی وی پر اعلان کرا یا جاتا تھا۔ اس کے برعکس بھارتی ابھی کسی جگہ سے دومیل پیچھے ہی ہوتے تھے لیکن ساری دنیامیں وہاں پر قبضہ کا شور مچا دیتے تھے۔ 11 ستمبر کو پاک فوج نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ بھارت کایہ بڑا تجارتی قصبہ ہندوستانی سرحد کے چار میل اندر اس ریلوے لائن پر واقع ہے جو کبھی قصور کو ترن تارن ، امرتسر سے ملا تی تھی۔ یہی وہ وقت تھا جب بھارت نے چونڈہ کا محاذ کھول دیا اور ہمارے کچھ ٹینکوں اور توپخانے کو فوری پر ادھر بھیجنا پڑا ورنہ کھیم کرن سیکٹر پر ہمارے جوان ولٹوہا، آصل اتر اور امرتسر 32 میل کے سنگ میل تک پہنچ چکے تھے۔ 11 ستمبر کو دکن ہارس کی ٹینک رجمنٹ اور سکھ رجمنٹ نے طو فانی حملہ کیا اور لمحہ بھر ایسا لگا کہ سکھ رجمنٹ آگے بڑھ جائے گی لیکن اﷲ کے شیروں نے قدم جما تے ہوئے انہیں ناکام کر دیا اورسا تھ ہی اس رجمنٹ کے کرنل اننت سنگھ اور اس کے جوانوں کو قید کر لیا گیارہ ستمبر کھیم کرن اور اس کا وسیع علا قہ مکمل طور پر پاکستان کے قبضہ میں آ گیا۔ جس جگہ پاکستانی فوج اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی تھی۔ وہاں ریزرو کے کچھ جوان اور مجاہد فورس کے لوگ دیکھ بھال کے فرائض انجام دیتے تھے۔ 11 ستمبر سے 23 ستمبر تک جنگوں کی تاریخ میں کھیم کرن سیکٹر ایک قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ بھا رتی دنیا بھر میں یہی پراپیگنڈہ کر رہے تھے کہ کھیم کرن بھا رتی فوج کے قبضہ میں ہے اور وہ چا ہتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح اسے واپس لے لیا جائے۔ میں نے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو قریب سے دشمن سے لڑتے ہو ئے دیکھا ہے۔ دشمن کی توپوں ‘ٹینکوں ‘ آر آر گنوں کی گولہ با ری، آسمان سے چیختے چنگھاڑتے گرجتے دشمن کے جنگی اور بم با ر طیاروں کی ہولناک بم با ر ی آنکھوں سے دیکھی اور کانوں سے سنی ہے ۔اس وقت کے لاہور کے شہریوں میں سے جنہوں نے6 ستمبر کی صبح ہما رے ایک فائٹر کی سائونڈ بیریئر توڑنے کی آ واز سنی تھی۔ اس چنگھاڑ کو اپنے تصور میں لائیں اور پھر سوچیں کہ میدان جنگ میں کیا حالت ہو تی ہو گی ۔
23ستمبرفائر بندی کی صبح کھیم کرن کے چا روں طرف جلے ہوئے بھا رتی ٹینک اور سینکڑوں بھا رتیوں کی لاشیں پڑی تھیں اوربھارتی فوجی اس طرح ننگے پائوں بھاگے تھے کہ اپنے بوٹ مورچوں میں ہی چھوڑ گئے اور میں نے خود اپنی آنکھوں سے بھارتی فوج کے مورچوں میں فوجی لانگ بوٹ بمع جرابوں کے پڑے ہو ئے دیکھے ۔ ایسے ہی ایک مورچہ سے مجھے پنجابی گانوں کاایک ریکارڈ ملا '' لیاندا دیور میرے مکلا وے تے اج مینوں نچ لین دے‘‘۔ اور کھیم کرن کا وہ ڈاک بنگلہ جہاں بیٹھ کر بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے 6 ستمبر سے پہلے صحافیوں سے با تیں کرتے ہوئے پاکستان کو اپنی پسند کا محاذ کھولنے کی دھمکی دی تھی‘ میرے وطن کے شیر جوانوں کی قربا نیوں کے نتیجہ میںمیرے قدموں کے نیچے تھا۔ میں وہاں کافی دیر بیٹھ کر ہندو کی شکست سے لطف اندوز ہو تا رہا۔ ہم لوگوں نے کھیم کرن کی گلیوں با زاروں میں گھومتے پھرتے کئی بوڑھے ہندو اور سکھ مردوں اور عورتوں کی دیکھ بھال کی۔ انہیں با قاعدہ خوراک مہیا کی جا تی رہی وہ بار بار ہم سے یہی پو چھتے کہ کیا کھیم کرن کے بعد امرتسر بھی پاکستان بن گیا ہے؟۔ 1965ء میں کھیم کرن کا قصبہ جہاں ختم ہوتا تھا وہاں ولٹوہا کو جانے والی سڑک کے بائیںطرف ایک سگریٹ ساز کمپنی کا اشتہاری بورڈ لگا ہوا تھا جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ افسوس کہ اس وقت میرے پاس کیمرہ نہیں تھا ورنہ میں یہ یاد گار تصویر اتار لیتا ۔48سال گزرنے کے با وجود وہ اشتہاری بورڈ آج بھی میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے جس پر لکھا ہوا تھا:
'' لیمپ کہو یا تار‘ سگریٹ ہے بہت مزے دار‘‘