جس طرح طالبان کی مذاکراتی کمیٹی نئی شرائط کے ساتھ‘ نئے مطالبات پیش کر رہی ہے اور نئے مطالبے لانے کی دھمکیاں دے رہی ہے‘ زمینی حقائق سے ان کی کوئی مطابقت نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان نے‘ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے اچانک جو حیران کن پیش گوئی کی تھی‘ وہ صرف ہمارا فیصلہ نہیں تھا۔ یقینی طور پر اتحادیوں کے ساتھ مشاورت کی گئی ہو گی۔ جیسے خطے میں درپردہ ہمہ جہتی سرگرمیوں میں تیزی آ رہی ہے‘منظر واضح ہوتا جا رہا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان ہوتے ہی‘ حکومت پاکستان نے سختی سے طالبان کو نقل و حرکت کی آزادی فراہم کر دی۔ امن اور آزادی کے اس ماحول میں بیرونی طالبان نے‘ جو پاکستان میں اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار ہو رہے تھے‘ باہمی مشاورت کے بعد جنوبی وزیرستان سے نکل جانے میں عافیت سمجھی۔ ان میں باہمی مشاورت ہوئی اور ''قرآن و حدیث‘‘ کے مختلف حوالوں کی روشنی میں‘ انہوں نے فیصلہ کیا کہ جہاد میں سرحدوں کی پابندی نہیں ہوتی۔ ہمارا جہاد اس وقت بھی سرحدوں کا امتیاز کیے بغیر‘ آگے بڑھ رہا ہے۔ باہمی غوروفکر کے بعد غیرملکی دہشت گردوں نے فیصلہ کیا کہ اس وقت تحریک جہاد کو‘ شام میں مدد کی ضرورت ہے‘ لہٰذا انہیں وہاں پہنچ کر جہادیوں کی طاقت میں اضافہ کرنا چاہیے۔ جیسے ہی انہیں جنگ بندی کا تحفظ ملا‘ انہوں نے شمالی وزیرستان سے نکلنا شروع کر دیا۔ جنگ بندی کے عرصے میں قریباً 8 ہزار دہشت گرد فاٹا کے مختلف ٹھکانوں سے چھپتے چھپاتے نکل گئے۔ ان کی منزل شام ہے۔ جو راستے انہوں نے اختیار کیے‘ وہ بلوچستان‘ افغانستان اور ایران سے گزرتے ہوئے براستہ عراق‘ شام پہنچتے ہیں۔ شام کی تین سالہ خانہ جنگی کے دوران‘ خطے کے دہشت گرد‘ ان راستوں سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں۔ کہیں کہیں انہیں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ مگر عمومی طور پر یہ منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ پنجابی طالبان کا رخ شام کی بجائے پاکستان کے تمام صوبوں کی طرف ہے۔ ان کے سلیپر جگہ جگہ محفوظ ٹھکانوں میں آرام سے قدم جما رہے ہیں۔
پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کے خصوصی نمائندے کو‘ شمالی وزیرستان میں انٹرویو دیتے ہوئے دہشت گردوں کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ان کے جہاد کے مقصد اور منزل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہمارے جہاد کا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آئے گا‘ جب ہمارا مقابلہ شیعہ مسلک رکھنے والوں سے شروع ہو گا۔ جہاد کے اس مرحلے پر‘ ہم پیش قدمی کرتے ہوئے شام سے واپس عراق‘ ایران اور آخرکار واپس پاکستان آ جائیں گے۔ کیا پاکستان کے سیاسی اور عسکری ماہرین اس گہری سٹریٹجی کے ٹارگٹ کو دیکھ رہے ہیں؟ جسے حاصل کرنے کے لیے‘ ہمیں ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ دیا گیا؟ یاد رہے‘ غیرسرکاری طور پر یہ دہشت گرد‘ تین برس سے شام کے محاذ پر برسر پیکار ہیں۔ ان میں سے بعض کی لاشیں مختلف راستوں سے پاکستان لائی جاتی ہیں۔ گزشتہ 3 سالوں کے دوران شام میں پولیو کے مرض کی نشاندہی ہوئی‘ تو تحقیق سے پتہ چلا کہ یہ مرض پاکستانی مجاہدین کے ذریعے وہاں پہنچا ہے۔ یہ راز اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سعودی عرب اور بحرین کے ساتھ تیز رفتار اعلیٰ سطحی رابطوں میں یہ طے ہو رہا ہے کہ شام کے باغیوں کو اسلحہ کس طرح کا بھیجا جائے؟ اگر ایسا کوئی فیصلہ ہو رہا ہے‘ تو ہمیں نہیں معلوم کہ یہ اسلحہ شام تک کیسے پہنچایا جائے گا؟ یوکرائن کے بعد روس اور امریکہ کے مابین‘ سردجنگ شروع ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے یہ دونوں طاقتیں‘ اپنی سرزمین کو جنگ سے محفوظ رکھتے ہوئے‘ پراکسیز کے ذریعے زور آزمائی کریں گی۔ شام جانے والے دہشت گردوں نے‘ اپنے جہاد کی جو آخری منزل بتائی ہے‘ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک ہی نتیجہ سامنے آتا ہے۔ وہ ہے شیعہ سنی جنگ۔ ایک تباہ کن امکان۔ مسلمانوں کے لیے ایک بھیانک مستقبل۔ کیا تہذیبوں کے تصادم کی جنگ‘ مسلمانوں کے درمیان تاریخی اور فقہی اختلافات کو ابھار کے لڑی جائے گی؟ کیا مغرب اور اس کے اتحادی اور جنوبی ایشیا کی دوسری طاقتیں‘ اپنی تہذیب کو جنگ سے محفوظ رکھتے ہوئے یہ جنگ مسلمانوں کے ذریعے ان کے اندر لڑیں گے؟ کیا مسلمان خود ہی‘ فرقہ ورانہ خونریزی کے ذریعے‘ اپنی تہذیب کی شکست کا راستہ ہموار کریں گے؟ فوکویاما نے تہذیبوں کے تصادم کا جو نقشہ کھینچا ہے‘ کیا یہاں ہم اسی کے خطوط کو ابھرتے ہوئے نہیں دیکھ رہے؟
دوسری جنگ عظیم کے بعد‘ مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف جنگیں لڑتے ہوئے‘ شدید نقصانات اٹھائے ہیں۔ ایران عراق کے مابین جنگ ہوئی۔ عراق نے کویت پر قبضہ کیا۔ یمن میں برسوں سے خانہ جنگی چل رہی ہے۔ صومالیہ اور سوڈان میں مسلمانوں کے مابین ہی جنگیں ہوئیں۔ افریقہ میں اسلامی دہشت گردوں کی طاقت اور ان کے آپریشنز میں روز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اور افغانستان گزشتہ 30 برس سے حالت جنگ میں ہیں۔ پہلے ہم نے یہ جنگ سوویت یونین کی پٹھو افغان حکومت کے ساتھ لڑی۔ پھر ہم نے یہی جنگ افغان طالع آزمائوں کی خانہ جنگی میں حصہ لیتے ہوئے لڑی۔ آخر میں طالبان کے ذریعے کابل میں اپنے حامیوں کی حکومت قائم کر کے‘ شمالی اتحاد کے ساتھ لڑی اور امریکیوں کی آمد کے بعد‘ انہی کے مسلط کردہ حکمران‘ حامد کرزئی سے لڑی اور اب یہ جنگ ایک نئی شکل میں ہمارے دامن کو حریفانہ کھینچنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہی ہے۔ یہ مختصر سا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کی صفوں میں تہذیبوں کی جنگ کے بیج تو 4 دہائیوں سے بوئے جا رہے ہیں۔ اس جنگ کا نقشہ تیار کرنے والوں نے جو بیج بوئے ہیں‘ غالباً اب وہ فصل کاٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان نے جہاد کی آخری منزل کی جو نشاندہی کی ہے‘ اس سے تو میں ڈر گیا ہوں۔ پاکستان میں شیعہ سنی تقسیم تو ضیاالحق کے دور میں شروع ہو گئی تھی۔ شہریوں کے مسلک کی خفیہ چھان بین بڑے پیمانے پر کی جاتی رہی۔ شیعہ دشمن تنظیمیں سرکاری سرپرستی میں بنائی گئیں اور انہیں شرق اوسط سے فرقہ ورانہ بنیادوں پر سرمایہ اور تربیت مہیا کی جاتی رہی۔ افغانستان کی طویل خانہ جنگی میں‘ جن انتہا پسند سنی مسلک رکھنے والوں نے حصہ لیا‘ وہ شیعہ دشمن اعتقادات رکھنے والے غیرملکیوں کے ساتھ رہ کر‘ ان سے متاثر ہوئے۔ گزشتہ 30 برس کے دوران شیعہ اور سنی مسالک رکھنے والوں میں دہشت گرد گروپ بھی قائم کئے گئے اور ان گروپوں نے ایک دوسرے کے حامیوں کو ہلاک کر کے‘ فرقہ ورانہ نفرت اور کشیدگی پھیلانے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ آج شیعہ فرقے کے لوگوں میں‘ اجتماعی ردعمل کے رحجانات ابھر رہے ہیں اور اس مسلک کے تعلیم یافتہ اور ممتاز شہریوں کو دہشت گرد حملوں میں ہلاک کیا جاتا ہے۔ خدانخواستہ اس جنگ کے شعلے مشرق وسطیٰ میں بھڑک اٹھے اور پھیلتے ہوئے ہماری طرف بڑھے‘ تو پاکستان کے دشمن‘ شیعہ اور سنیوں کے درمیان موجود کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ پاکستان میں خونریزی شروع نہ کرا دیں۔ یہ ایک ایسی انارکی ہو گی‘ جو ایران اور پاکستان‘ دونوں کو بیک وقت لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ دنیا میں صرف دو ہی مسلمان ملک ہیں جو ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت تو تسلیم شدہ اور ظاہر ہے جبکہ ایران ابھی منزل سے کچھ دور ہے۔ بعض اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت ایران تیز رفتاری سے ایٹمی اسلحہ تیار کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی ایٹمی صلاحیتوں کے خلاف‘ پورا ایٹمی بلاک متحد ہو چکا ہے۔ مجھے چین کی دوستی پر شک نہیں‘ لیکن بڑی طاقتوں کی ہر دوستی اور دشمنی ان کے مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ دیگر ایٹمی قوتوں کی طرح‘ چین بھی پاکستان کے اندر بڑھتی ہوئی جارحانہ انتہاپسندی پر فکرمند ہے۔ وہ گزشتہ 25 برسوں سے پاکستان میں تربیت حاصل کرنے والے دہشت گردوں کی کارروائیوں کو تشویش سے دیکھ رہا ہے۔ ان دونوں ایٹمی ملکوں میں خدانخواستہ فرقہ ورانہ جنگیں پھیل گئیں‘ تو چین ایٹمی کلب کے دیگر ممبروں کی طرح یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ پاکستان میں ایٹمی اثاثے انتہاپسندوں کے ہاتھ لگ گئے تو صورتحال کیا ہو گی؟ میں پاکستان کے سیاسی اور عسکری دانشوروں اور مفکروں سے درخواست کروں گا کہ وہ اس ابھرتے ہوئے بھیانک علاقائی نقشے کے امکانی مضمرات سے‘ عوام اور حکمرانوں کو پوری طرح آگاہ کریں اور آنے والے حالات میں پاکستان کو محفوظ رکھنے کے لئے فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی بنیادوں کو اتنا مضبوط کر دیں کہ ہم فرقہ ورانہ محاذ آرائی سے محفوظ رہیں۔ یکجہتی میں ہی ہماری بقا ہے۔