تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     26-04-2014

لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں

جنرل مقبول کو سب سے پہلے میں نے 1992ء میں دیکھا۔ میں نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی میں کورس کر رہا تھا اور ہم سٹڈی ٹور پر مظفرآباد براستہ ایبٹ آباد جا رہے تھے۔ جنرل صاحب اس زمانے میں کاکول اکیڈمی کے کمانڈنٹ تھے۔ اکیڈمی میں ایک گھنٹہ کے لیے رُکے۔ ہمارے ساتھ کورس میں کئی بریگیڈیئر چند ایک فارنر فوجی اور سات آٹھ سویلین افسر تھے جو تمام گریڈ بیس سے تعلق رکھتے تھے۔ اگلے گریڈ میں جانے کے لیے ضروری تھا کہ لاہور میں سٹاف کالج اٹینڈ کریں یا راولپنڈی میں نیشنل ڈیفنس کورس۔ ہمارے کورس کے اکثر سویلینز نے ترقی کی منزلیں اس کورس کی بنا پر طے کیں اور ہم میں سے دو افسر جرنیل بھی بنے۔ 
پہلی اور مختصر سی ملاقات جنرل مقبول سے کاکول میں چائے پر ہوئی جس کا اہتمام انہوں نے ہی کیا تھا۔ اونچے لانبے رُعب دار فوجی افسر‘ کبھی کبھی پائپ کا کش لگاتے۔ چائے پر مدعو ہر افسر سے ملے۔ بات زیادہ تر انگریزی میں کی۔ کشمیری النسل ہونے کے ناتے گورے چٹے بھی تھے۔ فوج میں اکثر افسر انہیں جنرل میک کہتے تھے تو ان کا پہلا تاثر صاحب بہادر والا تھا لیکن بہت رکھ رکھائو اور تمیز والا صاحب بہادر۔ 1998ء میں ان کے بیٹے کی شادی میرے ایک دوست جنرل حسن عقیل کی بیٹی سے ہوئی۔ شادی کے فنکشن میں ایک اور مختصر سی ملاقات ہوئی مگر تاثر وہی پرانے والا ہی رہا۔ مجھے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ شخص ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی غریب بچوں کی تعلیم و تربیت میں صرف کرے گا اور یہ وہ بچے ہیں جو تنگ و تاریک گلیوں میں اپنے تمام اہل خانہ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتے ہیں۔ یہی ان کا بیڈروم ہوتا ہے اور یہی کچن۔ ڈرائنگ اور ڈائننگ روم کے تصور سے وہ کئی سال تک ناآشنا رہے ہیں تاآنکہ اپنے والد یا والدہ کے ساتھ کسی پوش علاقے کی کوٹھی میں ان کی رسائی نہیں ہو جاتی۔ 
2012ء میں مجھے ایک دوست سے پتہ چلا کہ جنرل صاحب ایسے ہی بچوں کے لیے ایک شاندار سکول لاہور میں چلا رہے ہیں۔ اس انگلش میڈیم سکول کا سلیبس نامی گرامی سکولوں جیسا ہے۔ بچوں کی انا اور عزت نفس کی حفاظت کی خاطر ہر ماہ ان سے مبلغ پانچ روپے فیس لی جاتی ہے۔ سکول کا بجٹ مخیر حضرات کے چندوں پر چلتا ہے۔ میرے دوست مقصود احمد کی بیٹی عائشہ اسی سکول میں رضاکارانہ پڑھاتی تھی۔ دل میں اشتیاق تھا کہ اس سکول کو دیکھا جائے؛ چنانچہ لاہور کی ایک وزٹ میں مقصود صاحب نے سکول دیکھنے کا بندوبست کردیا۔ 
جنرل صاحب وقتِ مقررہ پر سکول کی مین انٹرنس پر استقبال کے لیے خود موجود تھے۔ یہ سکول جوہر ٹائون میں واقع ہے۔ اب دوسرا کیمپس ڈی ایچ اے لاہور میں بن چکا ہے۔ جنرل صاحب نے جوہر ٹائون والے سکول کے تمام حصے خود ہمیں دکھائے۔ سکول تقریباً دس کنال کے رقبے پر محیط ہے کھیلوں کے لیے انتظام ہے۔ فوجی تربیت میں جسمانی فٹنس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی نشوونما پا سکتا ہے۔ سکول میں سائنس لیبارٹریز اور کمپیوٹر کا سیکشن ہے۔ ڈیبیٹنگ سوسائٹی ہے۔ بچے صاف ستھرے ماحول میں اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے چہروں سے خوداعتمادی جھلکتی ہے۔ 
جنرل صاحب نے یہ سکول 1998ء میں فیصل ٹائون کے دس مرلہ کے ایک گھر سے شروع کیا‘ جو کرایہ پر لیا گیا تھا۔ چند سالوں بعد سکول ماڈل ٹائون کے دو کنال کے گھر میں چلا گیا اور جب وہ عمارت بھی چھوٹی پڑ گئی تو حکومت پنجاب سے پلاٹ کی درخواست کی گئی اور اپنی عمارت تعمیر کی گئی۔ کئی مخیر حضرات نے دل کھول کر مدد کی اور ایک تین منزلہ شاندار اور صاف ستھری عمارت تعمیر ہو گئی۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ سکول کی ایک اور برانچ ڈی ایچ اے کے فیز فائیو میں کھل گئی ہے۔ میں نے جنرل صاحب سے پوچھا کہ ڈی ایچ اے تو صاحبِ ثروت لوگوں کی بستی ہے‘ آپ نے وہاں کیوں سکول کھولا۔ کہنے لگے یہ سکول ان بچوں کے لیے ہے جن کے والدین صاحب لوگوں کے سرونٹ کوارٹرز میں رہتے ہیں۔ ان سکولوں کو Help Care سوسائٹی چلاتی ہے اور سکولوں کا نام TAC ہے جو کہ ٹیچ اے چائلڈ کا مخفف ہے۔ 
سارا سکول دکھانے کے بعد جنرل صاحب نے بذریعہ کمپیوٹر سکول کے بارے میں بریفنگ دی۔ میرے سوالوں کے جواب دیے۔ جانے سے پہلے سکول کے سووینیر یعنی Key chain اور قلم وغیرہ دیے۔ سکول کے پمفلٹ یہ کہہ کر مجھے دیے کہ اور 
دوستوں کو بھی بتا سکوں۔ اس سوسائٹی کا باقاعدہ بورڈ آف ڈائریکٹرز ہے‘ جس میں جنرل صاحب جیسے ہی ان کے مخلص دوست شامل ہیں۔ سکول میں داخل ہونے کے لیے ایک ہی شرط ہے کہ بچے کے والدین کی ماہانہ آمدنی نو ہزار روپے سے زیادہ نہ ہو۔ ہر خاندان سے صرف ایک بچہ لیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ خاندان اس مفت سہولت سے مستفید ہو سکیں۔ سکول کے اکثر بچے والدین کے ساتھ صبح سائیکل پر بیٹھ کر آتے ہیں یا گدھا گاڑیوں پر۔ ان کے گھروں کے ماحول اور سکول کے ماحول میں اتنا فرق ہے کہ کئی بچے شروع میں کہتے ہیں کہ ہم چھٹی کے بعد بھی سکول میں رہنا چاہتے ہیں۔ 
جنرل صاحب بڑے فخر سے بتا رہے تھے کہ ہمارے سکول کے چند بچے میرٹ پر Lums میں داخل ہوئے اور انہیں سکالرشپ بھی ملا ہے۔ واپس جاتے ہوئے ہال میں آویزاں ایک دلچسپ تصویر دکھائی۔ یہ تصویر داخلے سے پہلے والدین کے ساتھ تھی۔ اس تصویر میں اور ہمارے ارد گرد آتے جاتے بچوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ آپ اس بات کا یقین کیسے کرتے ہیں کہ والدین واقعی بہت غریب ہیں۔ میں نے جنرل صاحب سے پوچھا اس بات کی کنفرمیشن کے لیے میں ٹیچرز کو درخواست داخلہ دینے والے بچوں کے گھر بھیجتا ہوں‘ جنرل صاحب نے جواب دیا۔ ہمارے اردگرد خوش و خرم ہونہار پھر رہے تھے۔ تمام بچوں نے صاف ستھری یونیفارم پہنی ہوئی تھی۔ کتابیں اور یونیفارم سکول مہیا کرتا ہے۔
جنرل صاحب ہمیں کار تک رخصت کرنے آئے اور سنا ہے کہ ہر مہمان کو ایسی ہی عزت و تکریم دیتے ہیں۔ جنرل حسن عقیل کراچی میں رہتے ہیں۔ میں نے فون کر کے بتایا کہ اس مرتبہ لاہور میں جنرل مقبول کا کارِخیر دیکھ کر آیا ہوں۔ کہنے لگے اس شخص نے اپنی زندگی غریبوں کے لیے وقف کر دی ہے اور ساتھ ہی ایک قصہ سنایا کہ ایک روز چند والدین اپنے بچوں کو داخلے کے لیے لائے۔ یاد رہے کہ داخلہ صرف نرسری کلاس میں ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے والدین سے بچوں کی تاریخ پیدائش پوچھی۔ والدین کو بچوں کی تاریخ پیدائش یاد نہ تھی۔ افتادگانِ خاک کے یہ بچے کبھی اپنی برتھ ڈے نہیں مناتے۔ جنرل صاحب نے والدین سے کہا‘ آپ یہیں رہیں میں بچوں کو تھوڑی دیر کے لیے ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔ چند منٹوں میں بچے کار میں سوار تھے اور ایک لیفٹیننٹ جنرل کار ڈرائیو کر رہا تھا۔ جنرل صاحب بچوں کے ہمراہ شوکت خانم ہسپتال گئے اور ڈاکٹروں سے درخواست کی کہ بچوں کی عمروں کا تعین کر دیں۔ 
عائشہ بیٹی کی پچھلے سال شادی ہو گئی اور وہ امریکہ چلی گئی۔ آج کل وہ لاہور آئی ہوئی ہے۔ پچھلے ہفتے بات ہوئی تو دلچسپ قصہ سننے کو ملا۔ کہنے لگی کہ جب میں پڑھاتی تھی تو ایک روز میں گھر سے کوکاکولا کی چند بوتلیں سکول لے گئی اور بچوں کو دیں۔ ایک بچے نے بوتل پی کر کہا کہ میڈم آج تو ہماری عید ہو گئی۔ 'وہ کیسے؟‘ عائشہ نے پوچھا۔ میڈم ہم ایسی بوتلیں صرف عید کے دن پیتے ہیں‘ بچے نے جواب دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ جنرل صاحب ستر سال کی عمر کو چند سال پہلے تجاوز کر چکے۔ لیکن آج بھی نوجوانوں سے زیادہ مستعد ہیں۔ اللہ انہیں اس نیک کام میں مزید برکت دے۔ آمین! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved