تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-04-2014

بے وقوف بنانے کا دھندا

ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں ہر معاملہ اپنے عروج پر ہے۔ بلندی صرف عقل کے حصے میں نہیں آئی بلکہ جہل بھی رفعتوں کو چُھو رہا ہے۔ پورا ماحول بازار میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ہر معاملہ گھوم پھر کر صرف مفاد کے چوراہے پر آجاتا ہے۔ طرح طرح کی دُکانیں کھلی ہوئی ہیں۔ ہر چیز قابلِ فروخت اور فروخت پذیر ہے۔ جو چاہیے، وہ اِن دکانوں میں حاضر ہے۔ عقل چاہیے تو عقل اور جہل چاہیے تو جہل۔ یہ سارا کا سارا عقل کا کاروبار ہے۔ جو چیز جس قدر بے وقعت ہے اور غیر متعلق ہے اُس کی قیمت اُسی قدر زیادہ ہے۔ بے وقوفی کی انتہا یہ ہے کہ جس چیز کی یکسر ضرورت نہ ہو اُسے زیادہ قابلِ فروخت بنایا جاتا ہے اور اُس کے حصول کے لیے زیادہ بے تابی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ عقل کے کاروبار کی کامیابی در حقیقت بے وقوفی اور بے وقوفوں کے دم سے ہے۔ اِسی لیے تو کہتے ہیں کہ جب تک بے وقوف زندہ ہیں، عقل مند بھوکے نہیں مرسکتے۔ 
ٹیکنالوجی نے یہ بات بہت حد تک ممکن بنادی ہے کہ بے وقوف بنانا ہے تو ذرا ہائی فائی انداز سے بنائیے۔ زورِ بیان ایسا ہو کہ سفید جھوٹ سنہرے سچ سے بھی خوبصورت لگے۔ اِس دھندے میں ہم نے فلکیات کے ماہرین سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔ ہم یہ سوچ کر شرمندہ ہوتے رہتے تھے کہ ہمارے ہاں فٹ پاتھ پر بیٹھے ستارہ شناس انٹ شنٹ پیش گوئیاں کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اب معلوم ہوا کہ مغربی دنیا میں فلکیات کے ماہرین بھی کچھ کچھ ایسی ہی باتیں کرکے اپنی روزی روٹی کا اہتمام کرتے ہیں۔ 
انتہائی طاقتور دور بینوں کی مدد سے ماہرینِ فلکیات کائنات کے گوشوں کی خبریں ہم تک پہنچاتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ پندرہ بیس ارب سال قبل یعنی بگ بینگ کے وقت جو کچھ ہوا تھا وہ اب تک ختم نہیں ہوا بلکہ انتہائی مدھم روشنی کی شکل میں ہم تک پہنچ رہا ہے۔ زندگی کی تلاش کے نام پر ماہرین نے جو جھک ماری ہے اس کا احوال پڑھ پڑھ کر لوگ اَدھ مُوئے ہوگئے ہیں۔ نظام شمسی سے بہت دور، کہکشاں کے سِرے پر موجود ستاروں کی باقیات وغیرہ میں زندگی کے آثار کی نوید سُناکر ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ اگر آپ چاہیں تو فکاہیہ ادب کے ذیل میں رکھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں! 
اور بہت سے شعبوں کی طرح فلکیات کے ماہرین کی بھی نمایاں خاصیت یہ ہے کہ یہ کبھی کسی منزل پر زیادہ دیر نہیں ٹھہرتے یعنی رائے بدلتے رہتے ہیں۔ جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ نئی تحقیق پچھلی تحقیق کو obsolete کردیتی ہے! اب اُن سے یہ کون پوچھے کہ ایسی تحقیق کرتے ہی کیوں ہو جو آن کی آن میں از کار رفتہ قرار پائے! کبھی کہتے ہیں کہ کائنات میں صرف ہماری دُنیا ہی زندگی کا مرکز ہے۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے کہ زندگی کی معاونت کرنے والے عوامل کائنات میں کئی مقامات پر پائے جاتے ہیں۔ 
امریکی ریاست میسا چوسیٹس کے شہر کیمبرج میں ہارورڈ اسمتھسونین انسٹی ٹیوٹ فار ایسٹرو فزکس کے ماہر ڈیوڈ چربونو کہتے ہیں کہ کائنات کے دور افتادہ گوشوں میں ستاروں کے مدار میں ایسے سیاروں کا وجود ممکن ہے جو ہماری زمین کی طرح زندگی پرور ماحول رکھتے ہوں۔ 
ماہرین نے حال ہی میں ایک ایسا سیارہ (Kepler-185f) دریافت کیا ہے جس کے بارے میں انہیں پورا یقین ہے کہ وہ زمین جیسا ہے کیونکہ یہ سیارہ اپنے ستارے یعنی اپنے سورج سے جو توانائی کشید کرتا ہے وہ ہماری زمین کے مقابلے میں ایک تہائی ہے۔ زمین کے قطر سے اِس نو دریافت شدہ سیارے کا قطر خاصا مماثل یعنی محض 10 فیصد زیادہ ہے۔ Kepler-186f کے بارے میں ماہرین نے بہت کچھ ایسی وضاحت سے بیان کیا ہے جیسے یہ وہاں سے ہو آئے ہوں اور اب ہمیں وہاں بسانے کی تیاری کر رہے ہوں۔ پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا کی مشہور اصطلاح کے تحت کہیے تو فلکیات کے ماہرین خاصے انہماک کے ساتھ ''منجن‘‘ بیچ رہے ہیں! 
مرزا تنقید بیگ کو ویسے تو تقریباً تمام ہی محققین سے شدید نفرت ہے کیونکہ اُن کے خیال میں محققین اور ماہرین صرف ورغلانے کے منصب پر فائز ہیں مگر فلکیات کے ماہرین اُن کے ''فیورٹ‘‘ ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ایسی بات کرتے ہیں جس کا بظاہر کوئی سَر ہوتا ہے نہ پیر۔ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ ہم اب تک زمین ہی کو پوری طرح کھنگال نہیں پائے ہیں تو کائنات کی وُسعتوں کے بارے میں ٹھوس اور مستند انداز سے کوئی بات کیسے کہی جاسکتی ہے۔ جب ہم نے اُنہیں بتایا کہ زمین کے سے حالات والا ایک سیارہ دریافت ہوا جس کا سُورج بھی ہمارے سورج سے چھوٹا ہے اور اُس سے توانائی بھی کم شدت کے ساتھ خارج ہو رہی ہے تو وہ تُنک کر بولے: ''اب یہ بھی بتا دو کہ یہ سیارہ کتنے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔‘‘ ہم نے ماہرین کے بیان کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ یہ سیارہ تقریباً 500 نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ بس، اِتنا سُننا تھا کہ مرزا نے ہمیں یوں گھور کر دیکھا جیسے ہم فلکیات کے ماہر ہوں! تُنک کر بولے: ''ایک نوری سال کا مطلب ہے کہ تقریباً 9 ٹریلین، 46 بلین کلومیٹر۔ ایک ٹریلین میں ہزار ارب ہوتے ہیں۔ اب ذرا سوچو کہ 500 نوری سال کا فاصلہ کتنا ہوا۔ کائنات میں حجم کے اعتبار سے ہماری زمین کی کوئی اوقات نہیں۔ 500 نوری سال کے فاصلے پر گھومتا ہوا سیارہ فلکیات کے ماہرین نے دیکھ بھی لیا اور وہاں زندگی پرور حالات کی نوید بھی سُنادی۔ کیا کہنے! کوئی اگر دیکھنا چاہے گا تو روشنی کا کوئی بھی نقطہ نکال کر اُسے نئی دُنیا کے طور پر پیش کردیں گے۔ اور کس میں ہمت ہے کہ تسلیم کرنے سے انکار کرے؟ جواب میں یہ کوئی بھی انٹ شنٹ دلیل پیش کردیں گے۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ فلکیات کے ماہرین کے دماغوں کی طرح اُن کی دور بینوں کی نزدیک کی نظر کمزور ہے۔ کوئی اِن ماہرین سے پوچھے کہ میاں! کائنات کے کونوں کی خبر تو لاتے ہو، ذرا ہمارے سیکڑوں لاپتا افراد تو تلاش کرکے دکھاؤ!‘‘ 
ہم لاجواب ہوگئے۔ کائنات کے گوشوں کی خبریں لانے والے روئے زمین پر پائی جانے والی خرابیوں کا سُراغ لگانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ جدید ترین آلات سے مُزیّن دور بینوں کی مدد سے کائنات کی وسعتوں کو کھنگالنے والوں کو دوسرے ستاروں، سیاروں اور کہکشاؤں کا مشورہ ہو کہ ع 
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!
مرزا سچ ہی تو کہتے ہیں۔ اپنے سیارے کو ہم اب تک درست نہیں کر پائے اور کھربوں کلو میٹر کے فاصلے پر ایسی دُنیائیں تلاش کر رہے ہیں جن پر بود و باش ممکن ہو۔ چاند ہم سے کتنا دور ہے؟ 3 لاکھ 84 ہزار کلو میٹر۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ اب تک اُسے آباد کرنے کے قابل نہیں ہوسکے۔ اور زندگی تلاش کی جارہی ہے مِرّیخ پر! ہمارے ہاں میڈیا کا مقصد ہے بنیادی مسائل سے اہلِ وطن کی توجہ ہٹانا۔ ایسا لگتا ہے کہ فلکیات کے ماہرین کو بھی کچھ اِسی طرح کی ڈیوٹی سونپی گئی ہے۔ یعنی اِتنی دور دور کی کوڑیاں لاؤ کہ لوگ اُن کی دل کشی میں گم ہوکر اپنے ماحول کی ساری خرابیاں کچھ دیر کے لیے بُھول جائیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved