چشم بددور!عمر عزیز کی 18بہاریں دیکھ کر‘ تحریک انصاف جوان ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کے قومی ہیرو‘ عمران خان کی سیاست بھی الہڑ جوانی کے دور میں داخل ہو گئی۔ سیاست اور جماعت دونوںکی دوشیزگی دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ''ریشماں جوان ہو گئی۔‘‘ ہمارے معاشرے کے اندر عہد شباب میں قدم رکھنے پر‘ کسی تقریب یا رسم کا رواج نہیں۔ سالگرہ پر پھول اور تحائف دینے کا رواج ضرور ہے۔عمران خان کی سیاست اور تحریک انصاف کے ایک ساتھ عہد شباب میں قدم رکھنے کے مبارک موقع پر‘ ایک کالم کا عاجزانہ تحفہ‘ ریشماں کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں نے سیاست اور جماعت کی جڑواں جوانی کا نام ''ریشماں‘‘ رکھا ہے۔
مجھے یاد ہے ‘میں نے عمران کی سیاست کو پہلی بار تب دیکھا تھا‘جب اس نے نئی نئی آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ پالنے ہی سے الیکشن میں کودنے کو مچل رہی تھی۔ اس کی معصوم مسکراہٹ اور آنکھوں میں چھلکتی امیدوں کو دیکھ کر‘ خود عمران ‘جس نے بڑے بڑے بلے بازوں کی وکٹیں گرائی تھیں‘ اپنے ہوش و حواس کی وکٹیں گرا بیٹھا اور طریقے سوچنے لگا کہ اپنی لاڈلی جماعت کی ضد کیسے پوری کرے؟ اسی جستجو میں وہ بہت سے لوگوں سے ملا۔ میرے غریب خانے پر بھی تشریف آوری ہوئی۔
مجھے عمران کی مسحور کن شخصیت میں ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ اس کی کرکٹ‘ اس کے معاشقے‘ اس کی شادی‘ اس کے پیارے پیارے بچے‘ جنہیں میں نے ایک عید کی نماز پر دیکھا تھا۔ اس کے والد‘ جو عموماً وہیل چیئر پر بیٹھ کر جمخانہ کلب کے احباب سے ملنے آتے تھے۔ اس کی تھانیداری جیسی کپتانی۔ غرض میں اس کے ہر پہلوکا دلچسپی سے مشاہدہ کرتا رہا ہوں۔ اس نے مجھ سے سیاسی امکانات پر رائے مانگی۔ میں نے اپنی نیم پختہ رائے کو ''ماہرانہ‘‘ ظاہر کرتے ہوئے کہا ''بطور ہیرو آپ کی حیثیت غیرمتنازعہ ہے۔ آپ عوام میں جائیں گے تو پذیرائی بھی آپ کی خواہشوں کو بلندیوں پر تیرتے بادلوں کے گداز آغوش میں پہنچا دے گی۔ آپ کے پرستار ہر طرف آپ کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کریں گے۔بطور ہیرو آپ کو یہ سب کچھ حاصل رہے گا۔ یہاں تک کہ آپ کی کرکٹ دیکھنے والی نسل بالغ ہو جائے گی اور آپ کی پرستاری کا رشتہ‘ اس کی جاتی ہوئی جوانی کے ساتھ پیچھے ہوتا جائے گا۔ بطور ہیرواپنا مقام برقرار رکھنے کے لئے آپ نے بہت اچھا راستہ چنا ہے۔اس راستے پر چل کر آپ ہیرو کی موجودہ حیثیت سے بہت اوپر جا سکتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ کھیل کی مہارت اور کپتانی کا تجربہ ‘ سیاست میں آپ کے کسی کام نہیں آئے گا۔‘‘ عمران خان نے بڑے غور سے یہ باتیں سنیں اور پوچھا ''مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘
میں نے جواب دیا ''میں اس کھیل کا محض
تماشائی ہوں۔ یہ کھیل طویل عرصہ دیکھتے ہوئے‘ تھوڑے بہت دائو پیچ کی جو سمجھ آئی ہے‘ اس کی روشنی میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ہیرو کی حیثیت میں آپ بڑے جلسے جلوس تو کر سکتے ہیں‘ لیکن اقتدار میں آنے کی چابی بیلٹ باکس کے اندر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے ووٹروں کا بیلٹ ‘ اپنے نشان پر مہر کے ساتھ‘ باکس میں ڈلوا سکیں‘ تو سیاست میں کوئی آپ کا راستہ نہیں روک سکے گا اور اگر عوامی مقبولیت کی لہروں پر تیرتے ہوئے یہ سمجھیںکہ آپ ایوان اقتدار تک چلے جائیں گے‘ تو ایسا نہیں ہوا کرتا۔ ‘‘میں نے اصغر خان کی مثال بھی پیش کی۔‘‘ یہاں پر عمران خان نے اپنے لئے سوچے ہوئے لائحہ عمل کے تحت بتایا کہ وہ روایتی سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ وہ نئی راہیں نکالیں گے اور عوامی طاقت کے بل پر طاقت حاصل کریں گے۔ میں نے کہا ''اگر آپ اقتدار کے کھیل میں شامل ہوئے بغیر‘ عوامی مسائل کے حل اور ان کے مفادات کے تحفظ کے لئے لڑنے کی راہ اپنا لیں‘ تو آپ کے لئے بہتر ہو گا۔ہیرو کے لئے لازم ہوتا ہے کہ وہ غیر متنازعہ رہے۔ متنازعہ بن کے رہنا‘ آپ کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ آپ کو ہر طرف سے محبت اور ستائش لینے کی عادت ہے۔ آپ عوامی خدمت کے لئے سماجی سرگرمیوں کا میدان منتخب کر سکتے ہیں۔‘‘ شوکت خانم ہسپتال کے منصوبے کو عوام میں بے پناہ پذیرائی ملی تھی۔ میں نے عبدالستار ایدھی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ'' اس شخص نے عوامی خدمت کا غیر سیاسی راستہ چن کر‘ عالمی سطح پر جو عزت اور مقام حاصل کیا ہے‘ وہ کسی بھی بڑے سیاستدان سے زیادہ قابل احترام ہے۔ آپ ابھی جوان ہیں۔ بھرپور توانائی کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی قدم پر آپ کو اسی طرح کامیابی عطا فرمائی ہے ‘ جیسے کرکٹ میں کپتان بنتے ہی کامیابیوں نے آپ پر پھول برسانا شروع کر دیئے تھے۔ میری رائے ہے کہ پاکستان جیسے ملک کی سیاست میں‘ آ کر بڑی سے بڑی کامیابی بھی مل جائے‘ تو انسان غیرمتنازعہ نہیں رہتا۔آپ خدمت کے راستے پر توجہ دیں‘ تو لامحدود اور لازوال شہرت حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے عمران خان سیاست کا راستہ اختیار کر چکے تھے۔ وہ میری غیر سیاسی باتوں پر خوش نہیں ہوئے اور بڑے عزم سے اپنا منصوبہ بتانا شروع کیا کہ ''میں بہت جلد نوجوانوں اور خدمت کا جذبہ رکھنے والے مختلف لوگوں کے ساتھ ایک انقلاب برپا کر دوں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میں کس طرح کامیاب ہوتا ہوں؟‘‘
ان کی یہ بات درست ہوئی۔ میں نے انہیں کامیاب ہوتے دیکھ لیا۔ سیاست میں انہیں حیرت انگیز مقبولیت حاصل کرتے بھی دیکھا۔ انتخابی طاقت کا مشاہدہ بھی کر لیا اور ایک مخلوط صوبائی حکومت کو کام کرتے بھی دیکھ رہا ہوں۔ عمران خان نے سیاست میں اپنے لئے جو مقام سوچا تھا اور انتخابی طاقت کا جو خواب دیکھا تھا‘ وہ سب کچھ حاصل کر لیا۔ مگر ایک بات جو میں نے اس وقت ان کی خدمت میں عرض کی تھی ‘ مجھے گمان ہے کہ انہیں آج بھی یاد ہو گی۔ وہ یہ تھی کہ ''کامیابی کی کنجی بیلٹ باکس میں آپ کے انتخابی نشان پر لگی مہر میں ہوتی ہے‘‘۔ عمران خان نے سب کچھ اپنے منصوبے کے مطابق حاصل کیا ۔ بیلٹ باکس کو تسخیر کرنے کے ہنر میں پیچھے رہ گئے اور یہ عین اس وقت ہوا‘ جب عمران خان اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔ یعنی وہ ایک مقبول اور محبوب سیاسی لیڈر کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ میرے اندازے کے مطابق وہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ بننے میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ کل 18ویں سالگرہ کے موقع پر ان کی تقریر سن کر اندازہ ہوا کہ وہ خطابت کے میدان میں بھی قدم جمانے لگے ہیں۔ لیکن ان کی جیت چھین لی گئی۔ اگر وہ اپنے تمام ووٹوں کو بیلٹ باکس کے اندر پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے‘ تو ان کی جماعت ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتی۔ تمام تر کوتاہیوں اور مخالف فریق کی طرف سے جا بجا لگائے گئے پنکچروں کے باوجود‘ وہ زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹیوں میںدوسرے نمبر پر آ گئے۔ یعنی کئی انتخابات میںکئی بار بھاری اکثریت سے کامیاب ہونے والی‘ پیپلزپارٹی سے بھی آگے نکل گئے اور اگر پنکچر نہ لگتے‘ تو وہ پورے ملک میں فیصلہ کن اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں تھے۔کم از کم مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کے قریب آ کر رہ گئے۔ وجہ کیا تھی؟ بیلٹ باکس کی سائنس۔ ان کے ساتھ ایک حادثہ یہ ہوا کہ وہ انتخابی مہم کے کلائمیکس پر آ کر حادثے کا شکار ہوئے اور انہیں انتخابی منظر سے اوجھل ہونا پڑا۔ ان کے امیدواروں کی اکثریت ‘ انتخابی ٹیکنالوجی میں اناڑی تھی۔ عوام کی تائید حاصل کرنا۔ انہیں اپنے حق میں ووٹ دینے پر تیار کر لینا‘ ایک علیحدہ ہنر ہے اور اپنے ووٹوں کو ڈاکوئوں سے بچانا ‘ایک دوسرا فن۔ میرا خیال ہے کہ 2013ء کے انتخابات سے عمران خان نے بہت کچھ سیکھ لیا ہو گا۔ حالات ان پر ایک مرتبہ پھر مہربان ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ تبدیلی کی لہرزور پکڑ رہی ہے۔ عمران خان چاہیں‘ تو اس پر سوار ہو کر شارٹ کٹ کے ذریعے ‘دوبارہ بیلٹ باکس تک پہنچ سکتے ہیں۔آنے والے چند مہینے بتائیں گے کہ انہوں نے کتنی سیاست سیکھ لی ہے؟ اپنی کامیابی کے امکانات میں‘ وہ کس تیزی سے اضافہ کرتے ہیں؟ اور کامیابی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں‘ انہوں نے کہاں تک مہارت حاصل کی ہے؟ ان سوالوں کے جواب میں ان کے مستقبل کا حال دیکھا جا سکتا ہے۔