میرا ٹی وی پروگرام ''رات گئے‘‘ مختلف سرویز کے مطابق ایک مقبول پروگرام ہے جسے عرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ ''کافی ریٹنگ اٹھاتا ہے‘‘ اس کے باوجود میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریٹنگ کا لفظ دانشور اور صحافی کے لیے گالی کی طرح ہونا چاہیے کہ صحافی و دانشور اور کھلاڑی و ایکٹر میں کچھ تو فرق ہو۔ مقبولیت، پاپولیریٹی چلتے ہوئے سڑکوں پر پہچانے جانا، اپنے فینز کو آٹو گراف دینا کسی کھلاڑی یا اداکار کا مسئلہ تو ہو سکتا ہے اور شاید ہونا بھی چاہیے مگر کسی صحافی اور دانشور کا نہیں کہ صحافی کو مقبولیت اور غیر مقبولیت سے مُبّرا ہو کر خبر دینی ہے، تجزیہ کرنا ہے اور دانشور کو معاشرے کو وہی بات بتانی ہے جو چاہے اسے غیر مقبول اور قابلِ نفرت ہی کیوں نہ بنا دے مگر وہ وہی کہے، عرفِ عام میں وہی لائن لے جسے وہ دیانتداری سے، دل سے درست اور صحیح اور معاشرے کے مستقبل کے حق میں بہتر سمجھتا ہو، ایک ایسے بزرگ یا ماں باپ کی طرح جو بچے کی لاکھ ضد اور پسندیدگی کے باوجود اسے وہی بتاتے اور سمجھاتے ہیں جو اس بچے کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں جو کچھ پچھلے دنوں میں ہوا (یہاں 2012ء کے ابتدائی چند مہینوں کے واقعات کی طرف اشارہ تھا) اور آپسی مسابقت میں جس طرح میڈیا نے خود، عوام میں قائم اپنے اعتماد، اعتبار اور وقار کا گلا گھونٹا وہ اس سارے منظرنامے پہ نظر رکھنے والوں کے لیے کوئی اچنبھے کی بات نہ تھی کہ نیوز اور انٹرٹینمنٹ میڈیا جس سپیڈ سے اور جس سمت میں گامزن تھا اور ابھی تک ہے اس کا انجام یہی کچھ ہوا کرتا ہے اور اب بھی یہ انجام نہیں انجام کے آغاز کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز کے اسی کردار اور رویے پر مارچ میں Institute of Social and Policy Sciences اور Higher Education Commission کے اشتراک سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا‘ جس میں طاہرہ عبداللہ سمیت کئی بڑے نام شامل تھے۔ اس سیمینار میں نیوز اور انٹرٹینمنٹ میڈیا کے کردار پر خاکسار نے بھی ایک پیپر پڑھا تھا اور پھر اپنے قارئین کے لیے اسے کالم کی شکل بھی دی تھی۔ میمو گیٹ سیکنڈل کے سامنے آنے سے پہلے سے ہی ہم سے لکھنے والے اس سارے منظرنامے کو کیسے دیکھ رہے تھے اور اس کے بارے میں تواتر سے کیا لکھ رہے تھے‘ قارئین کی دلچسپی کے لیے 21 مارچ 2012ء والے کالم کا اقتباس دوبارہ پیشِ خدمت ہے... میں نے لکھا تھا: ''پاکستان میں میڈیا نے سیاسی ہیجان اور بے چینی میں تو شدید اضافہ کیا ہے‘ جس کی وجہ سے وقتی ابال کے بعد ایک خاص طرح کی خاموشی اور بے حسی جنم لیا کرتی ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال یہ ہے کہ جب میمو گیٹ کے issue پر میڈیا شور مچاتا ہے‘ لوگوں کی توجہ دلاتا ہے تو لوگ اسے زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ کر اس سازش کے تانے بانے سلجھانے میں الجھ جاتے ہیں مگر جب ہائیر ایجوکیشن کمیشن مسائل کا شکار ہوتا ہے تو تعلیم اور تعلیم بانٹنے والے اس ادارے‘ جو معاشرے میں حقیقی تبدیلی لا سکتا ہے‘ جو صحیح معنوں میں انسانی Anger اور apathy کو کوئی شکل کوئی رستہ کوئی گائیڈ لائن فراہم کر سکتا ہے‘ کے مسائل میڈیا کے لیے غیر اہم قرار پاتے ہیں اور میڈیا اسے درخورِ اعتنا نہیں سمجھتا...
ہم جسے درخورِ مرہم ہی نہ سمجھے تھے وصیؔ
سچ تو یہ ہے کہ وہی زخم بہت گہرا تھا
بریکنگ نیوز کی دوڑ میں تعلیم اور اس سے جُڑے مسائل خاطر خواہ جگہ نہیں حاصل کر پاتے کہ میڈیا کے نزدیک یہ کترینہ کیف کی کمر کے لوچ، شاہ رخ خان کی چھینک یا سلمان خان کے جبڑے کے آپریشن سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
المیہ یہ رہا کہ سیاست کی بھی نچلی سطح جو صرف جوڑ توڑ اور نمبر گیم تک محدود ہوتی ہے‘ وہ تو نیوز چینل کا موضوع رہی اور ہے مگر حقیقی سیاست جو سماجی، معاشرتی اور پھر معاشی تبدیلی اور بہتری لایا کرتی ہے‘ لوگوں کی بے حسی کو کم کر کے شور اور غصے کے اُس حصے کو اُجاگر کرتی ہے جو معاشرے میں صحیح معنوں میں تبدیلی لایا کرتا ہے... حکومت کی تبدیلی نہیں... معاشرے کی تبدیلی، وہ سیاست ہمارے نیوز چینلز کا کبھی موضوع نہ تھی‘ نہ ہے اور شاید نہ ہو گی کیونکہ مقصد صرف پیسہ بنانا ہوا کرتا ہے جو بڑی natural سی بات ہے، ان سے اس کا گلہ بھی کیا...
مجبور ہیں سب اپنی افتادِ طبیعت سے
ہو شمع سے کیا شکوہ، پروانے کو کیا کہیے
پاکستانی ڈرامہ‘ جس سے میڈیا کے وسیع ہونے کے بعد یہ امید ہو چلی تھی کہ معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل کو موضوع بنا کر غصے‘ بے حسی اور معاشرے کے Indifferent رویے میں کمی کا باعث بنے گا‘ نے نیوز چینلز سے بھی زیادہ مایوس کیا کہ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ڈرامہ صرف عورتیں دیکھتی ہیں اور عورتیں بھی وہ، جن کو ساس بہو کے جھگڑوں اور ''کن سوئیاں‘‘ لے کر سازشیں کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں... حالانکہ ایسا ڈرامہ سچ پوچھیں تو پاکستانی عورت اور پاکستانی عورت کی ذہانت کی توہین ہے... پاکستانی ڈرامے میں عورتوں کے اصل مسائل پر 10 فیصد بھی روشنی نہیں ڈالی جاتی...اور اگر اصل issues کو کوئی لکھاری اجاگر کرنا چاہے تو یہ کہہ کر رد کر دیا جاتا ہے کہ اس قسم کے ڈراموں کی rating نہیں آتی...
اس بے حسی اور بے سمتی کے باعث ہی معاشرے کے 52 فیصد سے زیادہ طبقے‘ جو خواتین پر مشتمل ہے‘ میں ایک خاص قسم کی بے حسی نے جنم لیا ہے اور ان کے غصے کو جس سے بہت بڑی تبدیلی لائی جا سکتی تھی صرف پڑوسن، ساس، بہو، نند یا بھاوج کی نفرت تک محدود کر دیا گیا ہے‘ حالانکہ انٹرٹینمنٹ چینلز اگر تھوڑا حوصلہ کر کے، ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ڈرامہ بنانے والے پروڈیوسرز کی حوصلہ افزائی کریں اور خواتین کے سطحی ڈراموں سے ہٹ کر معاشرے میں بکھرے ہوئے اصل issues پر ڈرامے بنوائیں تو کچھ عرصے بعد یقیناً ان کی viewership میں اضافہ ہو سکتا ہے اور نئے دیکھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ بن سکتا ہے۔ ایک ٹی وی چینل نے جب نسبتاً سنجیدہ موضوعات پہ میرے کچھ ڈرامے on air کیے‘ جن میں بہت ہی سنجیدہ issues لیے ہوئے ڈرامہ سیریز ''تعلق‘‘ ''لباس‘‘ اور سیریل ''تھوڑی سی وفا‘‘ قابلِ ذکر ہیں (''تھوڑی سی وفا‘‘ ایک ایسے کرپٹ سرکاری افسر کی کہانی تھی جو نیب کے شکنجے میں آ جاتا ہے) تو دلچسپ بات یہ ہے کہ سنجیدہ موضوعات ہونے کے باوجود ان سب کی ratings بہت شاندار آئیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ساس بہو کےissues سے ہٹ کر اگر سنجیدہ موضوعات پر بھی ڈرامے لکھوائے جائیں تو ان کے رزلٹس شاندار ہو سکتے ہیں اور عرفِ عام میں یہ ڈرامے ''ہٹ‘‘ قرار پا سکتے ہیں۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تبدیلی کسی بھی معاشرے کا مقدر ہوا کرتی ہے۔ قدرت ہر قوم کو ایک موقع ضرور دیا کرتی ہے‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موقع کوئی قوم دس سال میں حاصل کر لیتی ہے اور کسی کو دس ہزار سال لگ جاتے ہیں...
اگر پاکستانی میڈیا نیوز اور انٹرٹینمنٹ دونوں rating کی دوڑ سے نکل کر صحیح معنوں میں لوگوں کی بے حسی میں کمی کر کے غصے کی طاقت یعنی Anger کے سیلاب کو کوئی سمت اور کوئی رُخ دے سکیں تو اس معاشرے میں بھی تبدیلی سینکڑوں سال بعد نہیں صرف سالوں میں آ سکتی ہے۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ُدور دور تک ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔‘‘
آخر میں مجھے بس یہی کہنا ہے کہ جب تک میڈیا ریٹنگ کی دوڑ سے نکل کر ذمہ داری کی دوڑ میں نہیں شامل ہو گا چاہے کوئی بھی معاملہ یا سکینڈل ہو‘ میڈیا اسی طرح عوام الناس میں اپنی جگ ہنسائی اور رسوائی کا باعث بنتا رہے گا، اپنی قدر کھوتا رہے گا کہ چاہے فرد ہو یا ادارے، ریٹنگ کی دوڑ ہی بالآخر رسوائی و بربادی کو جنم دیتی ہے... حرفِ آخر! یہ سال 2012ء کے وسط کی تحریر ہے اور افسوس صد افسوس کہ تازہ لگتی ہے۔