حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بعد ملک بھر میں طوفان برپا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے اس سپوت کی جان تو بچا لی، لیکن کئی عناصر کی کوشش ہے کہ ہماری جمہوریت کی جان نہ بچنے پائے۔ وہ اس واقعے میں بہت کچھ ملا کر غم و غصے کا اظہار کرنے میں لگے ہیں اور سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ عسکری اداروں اور منتخب حکومت کے درمیان مبینہ غلط فہمیوں کو اس حد تک بڑھا دیا جائے کہ ایک بار پھر وہ ہو جائے، جو ہماری تاریخ میں کئی بار ہو چکا ہے اور جس نے اسے داغدار تو بنایا ہے، اس کا چہرہ اجالنے میں نتیجہ خیز کردار ادا نہیں کیا۔
48سالہ حامد میر کو وادیٔ صحافت میں قدم رکھے کم و بیش ربع صدی ہو چکی ہے۔ اس دوران ایک رپورٹر، ایک کالم نگار اور ایک اینکر پرسن کے طور پر انہوں نے خوب نام کمایا، بلکہ یہ کہیے کہ لوہا منوایا ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، ان کے خیالات پر تنقید کی جا سکتی ہے اور ان کی ترجیحات کو بھی موضوعِ بحث بنایا جا سکتا ہے، لیکن ان کے جوش و ولولے اور پیشہ ورانہ کمٹ منٹ کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مہم جوئی ان کی فطرت میں ہے اور کچھ کر دکھانے اور چونکا دینے کا جذبہ ان کی ''گھٹی‘‘ میں پڑا ہوا ہے۔ اسامہ بن لادن کے انٹرویو کے علاوہ بھی ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں بہت کچھ ایسا ہے، جس پر رشک کیا جا سکتا ہے اور جس پر حسد کرنے والے بھی فوج در فوج موجود ہیں۔ ان کے والد پروفیسر وارث میر جامعہ پنجاب کے شعبۂ ابلاغیات کے سینئر استاد تھے اور ایک کالم نگار اور مقرر کے طور پر امتیازی شان کے مالک بھی۔ بے دھڑک اور بے جھجک دل کو زبان پر لاتے اور ماحول کو گرما جاتے۔ وہ ناپ تول کے آدمی نہیں تھے، سود و زیاں کے پیمانے ان کے اپنے تھے۔ حامد میر اور ان کے بھائی عامر میر نے بھی ان کی یہ ادا وراثت میں پائی ہے۔ایک خاص طرح کی مجذوبیت ان کو کئی بار لپیٹ میں لے لیتی ہے۔
حامد میر ''سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں، لیکن یہ کھٹکا مستقل نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں جمود نہیں تحرک ہے، اس لیے ان کے ناقد اور معترف بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت کے مخالف دوسرے وقت میں مداح اور ایک وقت کے مداح دوسرے وقت کے ''قداح‘‘ بن جاتے ہیں۔ حامد میر کے اندر ایک شرارتی بچہ بہرحال چھپا ہوا ہے، اس کی چلبلاہٹ بہت سوں کی بلبلاہٹ کا سامان کر دیتی ہے۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہیں، خوفزدہ نہیں ہو پاتے۔ ایسے مراحل ان کی زندگی میں کئی بار آئے ہیں جن میں انہیں نادیدہ طاقتوں سے خطرہ محسوس ہوا ہے۔ وطن ِ عزیز میں چونکہ یہ طاقتیں ایک، دو نہیں کئی ایک ہیں، اس لیے کسی ایک کے کئے کا گمان کسی دوسرے پر ہو سکتا ہے اور کسی ایک کی حرکت دوسرے سے منسوب کی جا سکتی ہے... مخالفوں کی نشاندہی میں دھوکہ کھایا جا سکتا ہے، بلکہ یہ کہئے کہ مخالف دھوکہ دے سکتے ہیں کہ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔
حامد میر لاہور سے کراچی پہنچے، تو وہاں حملہ آور ان کی گھات میں تھے۔ وہ تو ان کی جان لے گزرے تھے، اگر بچانے والا، مارنے والوں سے طاقتور نہ ہوتا۔ موت و حیات کی کشمکش سے گزر رہے تھے کہ ان کے بھائی عامر میر کی رگِ مجذوبیت پھڑک اُٹھی اور انہوں نے اپنے ملزم کے طور پر ڈی جی آئی ایس آئی کا نام لے دیا۔ ان کے چینل نے یہ بات پکڑ لی اور ڈی جی کی تصویر دکھا دکھا کر اس طرح خبر چلاتا چلا گیا کہ مخالفانہ جذبات بھڑک اُٹھے۔ حامد میر پر حملے کی واردات کو پس منظر میں دھکیل کر ایک دوسرے طوفان نے سر اٹھا لیا۔
اگر پیمرا فوراً حرکت میں آ جاتا تو معاملے کو سنبھالا جا سکتا تھا، لیکن وہ بے حس و حرکت بیٹھا رہا کہ اس کے چیئرمین سے تو چند روز پہلے استعفیٰ لیا جا چکا تھا اور قائم مقام کو مقام کی سمجھ بآسانی نہ آ سکتی تھی۔ کوئی اور حکومتی ادارہ بھی حساسیت کا ادراک نہ کر سکا۔ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو میدان میں اتر کر دفاعی حملہ کرناپڑا، لیکن بات آگے نکل چکی تھی۔ قانونی کارروائی کا اعلان کیا گیا اور آئی ایس آئی کی طرف سے وزارت دفاع کو شکایت بھجوا دی گئی، وہاں سے اسے پیمرا کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ پیمرا نے اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کر دیا۔ پہلی بار عسکری ادارے نے طاقت کو قانون بنانے کے بجائے قانون کی طاقت کو آزمانے کا فیصلہ کر کے داد وصول کی۔ اس فیصلے کو ہر حلقے میں سراہا گیا۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ جیو ٹیلی ویژن کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ غیر قانونی طور پر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی بڑھوتری میں ملوث رہا ہے۔ یہ ایک انتہائی ذمہ دار سمجھے جانے والے ادارے کی طرف سے ایک انتہائی سنگین الزام ہے، جس کی صفائی جیو ٹیلی ویژن کو پیش کرنا ہو گی اور جس کو ثابت کرنے کے لئے (آئی ایس آئی کو) ٹھوس شواہد بھی پیش کرنا ہوں گے۔ اس حوالے سے یہ معاملہ پاکستان کی صحافتی اور سیاسی تاریخ کے ایک انتہائی اہم مقدمے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
صاف اور سیدھا راستہ تو یہی ہے کہ قضیہ قانون کے تحت قائم اداروں میں طے ہو، پیمرا سے ہو کر اسے عدالت عالیہ تک پہنچنا ہے کہ ابتداً جو بھی فیصلہ ہو گا اس کی اپیل وہیں پہنچے گی۔ اب اس موضوع پر اخباری کالموں، ٹی وی سکرینوں اور جلسہ گاہوں میں طبع آزمائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ فریقین پر لازم ہے کہ وہ جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے سے گریز کریں اور اپنا اپنا موقف قانون کی عدالت میں ثابت کرنے کی تیاری کریں۔
ایسے بے چین عناصر کی کمی نہیں، جنہیں پاکستانی عوام سے خواہ چند فیصد ووٹ بھی نہ ملے ہوں، لیکن وہ دھما چوکڑی مچانے کی صلاحیت کو آزمانے پر بضد رہتے ہیں۔ وہ سارا الزام حکومت کے سر ڈال کر اسے دفاعی اداروں کے خلاف سازش میں ملوث قرار دے رہے ہیں اور اس کا سر کچلنے کے لئے برسر پیکار ہونے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ انہیں حامد میر یاد نہیں رہے کہ جو ابھی تک ہسپتال میں پڑے اپنے زخموں کا حساب مانگ رہے ہیں، ان کو یہ بھی یاد نہیں آ رہا کہ سپریم کورٹ کے تین ججوں پر مشتمل ایک کمیشن ( اس مقصد کے لئے) قائم کیا جا چکا ہے جو اپنی کارروائی کا آغاز کرنے کو ہے۔ بہت کچھ بھول جانے والوں کو بس یہی یاد ہے کہ ان کا ساتھ نہ دینے والے، ان سے اپنے ووٹ کو بچا لینے والے پاکستانی عوام کو سزا ملنی چاہیے، ان سے ان کا حق ِ حکومت چھین لینا چاہیے۔ ان ''پیشہور قاتلوں‘‘ سے ہوشیار رہنا ہو گا۔ ان پر واضح کرنا ہو گا کہ زمین ان پر تنگ ہو چکی ہے، وہ جو کبھی ان کے جھانسے میں آ جاتے تھے، اب ان کی نقابیں نوچنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)