تین صدیاں ہوتی ہیں، خون میں نہائے برصغیر میں میرؔ صاحب نے جب یہ کہا تھا :
کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُرغرور تھا
حسنِ ظن ہی سے کام لینا چاہیے ۔ جن صاحب نے یہ ارشادفرمایا ہے کہ مجروح اخبار نویس کو میں نے بھارتی شہریت اختیار کرنے کا مشورہ دیا ، ممکن ہے کہ وضاحت ان تک پہنچی نہ ہو۔ اسی شام عرض کر دیا تھا کہ یہ بات میں نے اس شخص کے بارے میں کہی ہے ، جسے بھارت کے ساتھ پاکستان سے زیادہ محبت ہے۔ اخبار نویس کے بارے میں ایسی کوئی بات میں نے لکھی ، نہ کہی۔ اس کا موقف کتنا ہی نا درست ہو مگر وہ زخمی ہے اور ایسے میں اس طرح کی گفتگو روا نہیں۔ اس کے بھائی کا ایک جملہ البتہ خطرناک تھا: ہمارے والد نے ہمیں سکھایا کہ قومی مفاد کچھ نہیں ہوتا ، اصل چیز سچائی ہے ۔ اس پر رائے دی اور کھل کر ۔ ایک ایک لفظ پر میں قائم ہوں اور انشاء اللہ ہمیشہ رہوں گا۔
آئے دن کلاسرہ سے میری بحث ہوتی۔ ایسی شدید جھڑپ کہ بیگم کلاسرا گھبرا اٹھتیں ۔اب وہ علیل ہیں ، اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا کرے ۔ بجا طور پر کلاسرہ کہتے : تم جذباتی بہت ہو۔ رہا اندازِ فکر تو اللہ کے فضل سے کم ہی ابہام کا شکار ہوئے ۔ تجزیہ کبھی بدلا تو ڈنکے کی چوٹ ، اعلان کیا۔ الحمد للہ بارہا اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اخبار ہی نہیں ، ٹیلی ویژن پر بھی ۔ دوسروں سے نہیں ، خود سے بھی ہمیشہ یہ کہا کہ غلطی سے نہیں ، انسان غلطی پر قائم رہنے اور اس کے لیے دلائل تراشنے سے برباد ہوتاہے ۔
تعجب ہوتا ہے، جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پہاڑ ایسی غلطی کرنے والے فلاں نے ہوشمندی سے کام لیا ہوتا۔ سیّد مشاہد حسین بولے: مجروح صحافی کی علالت کے ہنگام، وزیراعظم اگر ایک جملہ کہہ دیتے : وہ مظلوم ہے، ایک دوسرے پہ مگر الزام تراشی نہ کرنی چاہیے۔ کیسے وہ کہہ دیتے ؟ تجزیے پر نہیں ، انسان اپنی افتادِ طبع پہ زندگی گزارتا ہے ۔ اپنی ترجیحات اور اپنے مفادات پر۔ افتادِ طبع ہی آدمی کی تقدیر ہے اور عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی ۔ کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی جذبہ اس کے ساتھ جڑا ہوتاہے ۔ دولت یا شہرت کی خواہش ، اپنی انا کو گنّے کا رس پلانے کی تمنّا ، اس سے پست تر کوئی آرزو بھی ۔ عقل کا کہنا اگر آدمی مان سکتا تو بار بار ٹھوکر کیوں کھاتا؟ رسوا کیوں ہوتا؟
مولویوں اور فوجیوں کو ، افسر شاہی کو منطق بہت پڑھائی جاتی ہے۔ مولوی صاحبان کی اکثریت تو کبھی اس سے کام لیتی ہی نہیں ۔ اپنے اپنے مکاتبِ فکر اور اساتذہ کے وہ اسیر ہوتے ہیں ۔ ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے بانی سے جب حیات النبیؐ کے بارے میں بحث کی گئی تو دلائل انہوں نے تسلیم کر لیے مگر یہ کہا : چلوں گا اپنے اکابر کی رائے پر ہی۔
فوجی افسر بھی منطق (Logic)پہ اصرار بہت کرتے ہیں۔ تین برس ہوتے ہیں‘ جنرل اطہر عباس نے مجھ سے یہ کہا : تمہارے زندہ رہنے کا اب کوئی امکان نہیں ۔ ان کی خدمت میں عرض کیا: دلیل کا میں قائل ہوں ، بہت زیادہ قائل مگر اس سے بڑھ کر بھی ایک چیز ہوتی ہے ، وحیٔ الٰہی ۔ انہیں معلوم تھا کہ فلاں فلاں میری زندگی کے درپے ہیں ۔ یہ معلوم نہ تھا کہ ایک گروہ ان کے سوا بھی ہے ، ایسا کہ کیئوں کو ٹھکانے لگا چکا۔ یہ 2006ء کا موسمِ خزاں تھا۔ عارف کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ فرمایا : کیا فلاں دعا تم پڑھا کرتے ہو۔ عرض کیا : جی ہاں ۔ کہا : اس کے بعد فکر مندی کا کیا سوال؟ مراد یہ تھی کہ اللہ پہ یقین رکھو۔ زیادہ اصرار کیا تو ارشا د کیا: ایک دعا اور پڑھ لیا کرو۔ اللھمّ اکفنی کما شئت۔ اے اللہ، جس طرح تو پسند کرے ، انہیں نمٹا دے ۔الحمد للہ رفتہ رفتہ خوف جاتا ہی رہا۔ اب تو خود کو یاد دلایا کرتا ہوں کہ نرمی اختیار کرو۔ ایسی بھی کیا دلیری کہ دیدہ دلیری محسوس ہو ۔ ایک محبت کرنے والے نے اب ایک مسنون دعا لکھ بھیجی ہے کہ غضب سے چھٹکارا ملے ۔ بہت دنوں سے سرکار ؐ کا ایک فرمان یاد آیا کرتا۔ جو صبر کا آرزومند ہو ، صبر اسے عطا کیا جا تاہے ۔ بارہا ، آسمان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور یہ کہا : مالک! میرے حصے کا صبر کہا ں ہے ۔ دو نکات ہیں ، ایک اپنا تجزیہ ، اپنی خامیوں کا ادراک ، خود اپنی تحلیلِ نفسی اور ایک سعی ٔ ِپیہم۔ کردار کا ملبوس ایک ایک دھاگا پرو کر بنا جاتاہے ۔ جو لوگ میری عمر کو پہنچ جاتے ہیں، انہیں دشواری زیادہ ہوتی ہے ۔ یہ مگر ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ مہربان بہت ہے اور طیّب دعا وہ لازماً قبول کر تا ہے ۔
عقل؟ اکثر سے بڑھ کر میں اقبالؔ کاقائل ہوں ۔ بیسویں صدی کا علمی مجدّد، برّصغیر کو فکری اور سیاسی طور پر ، جس نے بدل کر رکھ دیا۔ اس کا احساسِ کمتری دھو ڈالا مگر ان کے فلسفۂ عقل و عشق کا ماننے والا یہ ناچیز ہرگز نہیں ۔ خدا کے ایک فرمان پہ اس کی نظر ہے ۔ مفہوم اس کا یہ ہے : اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اسے کہا کہ چل پھر کے دکھا، پھر اس پر ناز فرمایا اور یہ کہا : جو کچھ کسی کو دوں گا،تیرے طفیل دوں گا، جو کچھ کسی سے لوں گا، تیری وجہ سے لوں گا۔
حکمت! مگر وہ حکمت، جس کی بنا اخلاقی اصولوں پہ استوار ہو۔ جو لوگ عقلِ محض پہ کامیابیوں کے کوہسار تعمیر کرتے ہیں، ان کے مقدر میں ناکامی لکھی جاتی ہے ، گاہے بدترین رسوائی۔ روزِ ازل ابلیس نے جب یہ کہاکہ آدم زاد کو بھٹکا دے گا تو خالقِ کون و مکان نے ہرگز یہ ارشاد نہ فرمایا کہ تم ایسا نہ کر سکو گے بلکہ یہ کہ ''میرے مخلص بندے گمراہ نہ ہوں گے‘‘ اقبالؔ نے اسی لیے کہاتھا ع
عبدِ دیگر، عبدہ‘ چیزے دگر
ساری انسانی تاریخ یہی ہے کہ چالاکی کے بل پر حاصل کردہ طاقت و حشمت سے ، جوڑتوڑ سے ، انسانی ضمیروں کی خریداری اور جبر و تشدد سے ، سازش اور جتھے داری سے کامیابیاں حاصل کر لی جاتی ہیں ۔ کوئی سیزر، کوئی خاقان، کوئی سکندراور کوئی دارا ۔ آخر کو مگر کیا ہوتاہے ؟ سب کچھ دھڑام سے نیچے آگرتاہے۔ خیرہ کن فتوحات اور کامیابیوں کے ملبے میں پڑے ایک زخمی کو کراہتے ہوئے ہم پاتے ہیں ؎
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا
یقین تھا کہ بساط الٹ جائے گی۔ خلقِ خدا ایک دن بے تاب ہو کر میدان میں اترے گی۔ اخباری خدا بھی خاک چاٹیں گے۔ تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ ناچیز نے فقط یہ کہا کہ جب دوسرے تامل میں مبتلا تھے ، عقلِ محض کا شکار تو ان سے یہ کہا کہ فیصلہ آدمی نہیں کیا کرتے ، ستاروں اور زمینوں کا رب کیا کرتاہے ۔یہ بھی کہ 27رمضان المبارک کو وجود میں آنے والے اس ملک سے بے وفائی کرنے والے ہر شخص کا انجام خراب ہوا اور خراب ہی ہوگا۔ دیکھو ، اب نظر اٹھا کر دیکھو کہ حشر برپا ہے ۔
چوہدری نثار نے جان لیا ہے ۔ کشمیری برادری کے تر دماغ سمجھ نہ سکے ؛حالانکہ اقبالؔ سے انہیں زیادہ سیکھنا چاہیے تھا۔ کوئی دن جاتاہے ، جب ادراک نہ کرنے والے بھی ادراک کریں گے کہ دلیل ایک چیز ہوتی ہے اور تاویل دوسری ۔ سبھی کو آدمی فریب دے سکتا ہے مگر کیا اسے بھی ،حیات و کائنات کو جس نے پیدا کیا ہے ؟
لال مسجد پہ پرویز مشرف نے چڑھائی کی تو چوہدری شجاعت حسین نے ان سے یہ کہا تھا ''دشمن مرے تے خوشی نہ کریے ، سجناں وی مرجانا‘‘
تین صدیاں ہوتی ہیں، خون میں نہائے برصغیر میں میرؔ صاحب نے جب یہ کہا تھا :
کل پائوں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پرغرور تھا