تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     27-04-2014

انسان کے مراتب

وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے درست کہا ہے کہ وہ لوگ جن کے اپنے بچے بیرونی ممالک میں پڑھتے ہوں‘ وہ سرکاری سکولوں کی حالت زار پر کیسے پریشان ہو سکتے ہیں۔ لاہور سارک مزدور کانفرنس سے خطاب کے دوران انہوں نے فرمایا ہے کہ بڑے بڑے عالی شان محلات بنانے والوں اور ان محلات کی شان و شوکت میں گم ہو جانے والوں کی وجہ سے ہی یہ ملک آج اس حالت کو پہنچا ہے‘ اس لیے غریب عوام کی زندگیاں بدلنے کے لیے ہم سب کو مل کر قربانیاں دینی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ بڑے محلات والے گردنیں اس قدر اونچی کیے پھرتے ہیں کہ انہیں زمین پر کیڑوں کی طرح رینگنے والے انسانوں کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ روش بدلی نہ گئی تو پھر خونی انقلاب کے لیے سب کو تیار رہنا ہو گا۔ یہ تقریر سننے کے بعد ایسے لگا کہ یہ دکھ بھرا اظہار خیال وزیر اعلیٰ پنجاب کا نہیں بلکہ کسی ایسے مزدور لیڈر کا ہے جو اپنے جیسے لاچار لوگوں کی حالتِ زار سے آگاہ کرتے ہوئے قوم کو سامنے نظر آنے والے ممکنہ خونی انقلاب سے خبردار کر رہا ہے۔ حکمرانوں کی زبان سے محلاّت اور بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو جھنجھوڑنا کچھ عجیب سا لگا‘ لیکن شکر ہے کہ احساس تو ہوا‘ ورنہ پنجاب جیسے صوبے کے مطلق العنان حاکم کی زبان سے عالمی یوم مزدور کی تقریب میں غرور و تکبر سے پر ہیز کرنے کا سبق سننے والوں کی شک میں ڈال دیتا ہے۔ 
انسان کے مراتب بھی کیا خوب ہیں‘ کبھی خدا بن جاتا ہے تو
کبھی بندۂ خدا‘ کبھی خدا پرست بن جاتا ہے تو کبھی منکر خدا بن‘لیکن اس کا پہلا اور اہم منصب تو انسان ہونا ہی ہے اور یہ منصب دنیا میں بہت کم نظر آتا ہے۔ اگر آج کا کوئی حاکم انسان کے مرتبے پر پہنچ جائے تو انسانیت سکھ کا سانس لینے لگے۔۔۔۔۔ قرآن پاک کی سورۃ النساء میں ارشاد خداوندی ہے''یقین جانو اﷲ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو غرور سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور بڑے فخر سے شیخی کی باتیں بگھارتا ہے‘‘۔ زندگی میں قدم قدم پر پیش آنے والے حالات اور واقعات سے انسان کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ آج کے دور میں دوستیاں اور رشتے بھی مفادات کے سنہرے جالوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جیسے سانپ سپیرے کی بین پر پھن پھیلاتے اور جھومتے ہیں‘ ایسے ہی انسانوں کی دوستی اور مسکراہٹوں میں سانپ جیسا زہر ہوتا ہے اور انہی کو آستین کے سانپ کہا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے مفاد کے علا وہ اور کچھ نظر نہیں آتا اور یہ لوگ اپنے ذرا سے مفاد کے لیے چاہے وہ وقتی ہی کیوں نہ ہو اندھے ہو جاتے ہیں ۔سانپ کبھی انسان نہیں بن سکتا لیکن مفاد پرست انسان موقع ملتے ہی اپنی فطرت میں سانپ بن جاتا ہے۔ سانپ کی فطرت کے ان انسانوں کے نزدیک دوستی اور روح کی ناپاکی کوئی اہمیت نہیں رکھتی اور غرور وتکبر کے مارے ہوئے یہ لوگ
سمجھتے ہیں کہ ہم جیسا با اختیار اور طاقتور کوئی اور ہے ہی نہیں۔ اس طرح کے لوگ حاصل کردہ دنیاوی مراعات اور جاہ و حشمت سے یہ بھول جاتے ہیں کہ ان جیسے لوگوں پر مشتمل کوئی شخص، قبیلے اور قومیں اور بھی تھیں جن کا آج کہیں نام و نشان نہیں ہے۔ اگر ان کی کچھ نشانیاں باقی ہیں تو وہ فقط نشان عبرت کیلئے ہیں۔
ایسی ہی ایک قوم مصر اور شام پر حکمران تھی جسے قوم عاد کہا جاتا ہے۔ اس قوم میں بھی دنیاوی مفادات حاصل کرنے والوں جیسا تکبر اور غرور بھرا ہوا تھا ۔
اٹلی کے آثار قدیمہ کے ماہرین نے برسوں کی کھدائی کے بعد1968ء میں اڑھائی ہزار سال قبل مسیح کی ان بستیوں کی کھدائی کی جو دمشق سے250 میل شمال اور حلب کے چالیس میل جنوب میں ایبلا نام کے شہر سے آباد تھیں اور ایبلا قوم ثمود کے حکمرانوں کا دارالحکومت تھا۔ اس طرح اس جگہ سے عاد اور ثمود کی قوموں کی بستیاں بر آمد ہوئیں اور وہاں سے کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا ایک انبار بر آمد ہوا اور یہ انبار کھدائی کرتے ہوئے ان محلاّت میں سے بر آمد ہوئے جن میں عیش و عشرت میں بد مست رہنے والے یہ لوگ رہا کرتے تھے۔ یہ خدا کا فرمان ہے کہ وہ انسانوں کو عبرت دکھاتا رہے گا، تاکہ انسان کو یاد آتا رہے کہ سدا حکمرانی اﷲ کی ہے اور اس کی زندہ مثال1920ء میں فرعونِ مصر کی ایک لاش کا ملنا تھا جو حنوط کی ہوئی تھی۔ اسے قاہرہ کے عجائب گھر میں رکھ دیا گیا۔ 1977ء میں اس کی لاش کو کیڑا لگ گیا‘ اسے فرانس بھیجا گیا‘ جہاں اسے (ریمسس دوم) دوبارہ صحیح کیا گیا۔ ''قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ''میں انہیں زمین سے نکال نکال کر دنیا کے سامنے رکھتا ہوں تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں‘‘ آج بھی لوگ قرآن پاک کی یہ آیت اکثر پڑھتے ہیں تو فرعون مصر اور قومِ عاد اور ثمود کی نافرمانی اور بربادی کا نتیجہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘ سب نے اپنی آنکھیں کان اور دل بند کئے ہوئے ہیں۔ 
زندگی کے ہر شعبے میں ایک انسان دوسرے انسان کو بھنبھوڑ رہا ہے۔ دفتروں کے ملازم، مارکیٹوں اور بازاروں کے دکاندار‘ بینکوں کے سربراہ ،آپس میں رشتے دار، پولیس، ہسپتال اور سڑکوں پر کسی بھی قسم کی سواری کے سوار حتیٰ کہ پیدل چلنے والے سب ایک دوسرے سے دشمن کی طرح کا سلوک کر رہے ہوتے ہیں۔ سڑکوں سے گذرنے والے بوڑھے اور بچے ہمیں انسان نہیں کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں جنہیں ہر کوئی کچل کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر نظر آنے والے ٹریفک وارڈن اور جگہ جگہ ناکے لگائے ہوئے موٹر سائیکل سوار پولیس والوں کا سلوک پاکستانیوں کے ساتھ ایسے ہے جیسے یہ ہم پر کسی قابض قوم کے ظالم اہلکار ہوں۔۔۔۔ اگر ایک انسان کو کسی دوسرے انسان سے ہمدردی نہیں ہے تو یہ حیوانی زندگی ہے‘ جیسے گدھے‘ گائے‘ بھینس اور گھوڑے کو گھاس مل رہی ہو اور دوسرے ہزاروں جانور اس کے سامنے بھوک سے مر رہے ہوں‘ تو گھاس چرنے والے ٹس سے مس نہیں ہوں گے کیونکہ ان کا پیٹ تو بھرا ہوا ہے اور انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ساتھ والا جانور کب سے بھوکا ہے ۔
حیوانیت کا ایک درجہ ہے دوسروںکی زندگیاں تباہ کر کے اپنا پیٹ بھرنا۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ اپنا فائدہ بے شک نہ ہو لیکن دوسرے کو نقصان پہنچانا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں جیسے سانپ اور بچھو۔ سانپ جب کسی کو ڈستا ہے تو اس سے اس کا پیٹ تو نہیں بھرتا! اسی طرح بچھو کے ڈنک مارنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ سوائے اس کے کہ دوسرا درد سے چیختا چلاتا رہے۔۔۔۔ ہمارا خیال ہے کہ جس کا جیسے جی چاہے‘ عالی شان محلات تعمیر کرے لیکن ان محلات کے سائے میں رہنے والوں سے عزت سے جینے کا حق تو مت چھینے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved