تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     28-04-2014

تیسرا تیتر

قوم رنگین غباروں سے بہل سکتی ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ خیانت کا باب بند کرے ، خون پسینہ ایک کرے ؟ کس لیے ،جنابِ والا ، کس لیے ؟ 
میاں محمد نواز شریف کا نیا نام کیا رکھا جائے ؟ شیر شاہ سوری؟ ''گر قبول افتدز ہے عزّو شرف‘‘ 
2012ء کے موسمِ گرما میں ، جب کپتان کا سورج نصف النہار پہ چمک رہا تھا ، مینارِ پاکستان کے خنک سائے تلے ، خادمِ پنجاب نے خیمے گاڑ دیے تھے ۔ اعلان آپ نے یہ فرمایا تھا : اگر چھ ماہ کے اندر ہم لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ کر دیں تو میرا نام بدل دیا جائے ، پھر کہا ایک سال میں ۔ماہِ جون میں ایک سال تمام ہو جائے گا۔ پھر ماہِ رمضان اور شاعر کی یاد ؎ 
روزہ میرا ایمان ہے لیکن غالبؔ
خس خانہ و برفاب کہاں سے لائوں 
بلند چھتیں اور بر آمدے ، بجلی تھی ہی نہیں۔ مکان ایسے تعمیر کیے جاتے کہ موسموں کی شدّت سہہ سکیں ۔ اب ڈیڑھ سو برس کے بعد دنیا ہی دوسری ہے ۔احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎ 
شہر ہیں یہ کہ تمدّن کے عقوبت خانے 
عمر بھر لوگ چنے رہتے ہیں دیواروں میں 
نواب کالا باغ کے فرزند کا انتقال ہوا تو برادرم محمد علی درّانی کے ہمراہ ، ان کے ہاں سابق صدر فاروق لغاری سے میں تعزیت کرنے گیا۔ جھاگ اڑاتا ہوا دریا ،ساٹھ ساٹھ فٹ اونچی چھتّیں ۔ رہے عامی تو وہ کچّے مکانوں میں بسر کیا کرتے۔ برآمدے سبھی گھروں کے ہوا کرتے ۔ کس کو خبر تھی کہ ایک دن واسطہ آصف علی زرداری اور شریف خاندان سے پڑے گا ؎ 
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا 
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا 
پیداوار کی کمی 5ہزار میگاواٹ سے کم نہیں ؛البتہ خواجہ آصف ، عابد شیر علی اور میاں شہباز شریف کے مطابق اس سے آدھی ہے ۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ مئی کے آخر تک تین ، چار سو میگاواٹ مزید۔ روس کے زمیندار نے اپنے فرزند سے پوچھا: کیا تم پڑھتے ہو ؟ کہا فلاں فلاں اور منطق۔ 
''یہ منطق کیا ہوتی ہے؟‘‘ لڑکے نے بتایا کہ پلیٹ میں تلے ہوئے جو دو تیتر رکھے ہیں، انہیں وہ تین ثابت کر سکتا ہے ۔ کسان نے ایک تیتر اپنی پلیٹ میں رکھا ، دوسراخاتونِ خانہ کو پیش کیا اور صاحبزادے سے یہ کہا : تیسرا تم کھالو۔ اب کی بار موسمِ گرما میں پاکستانی عوام کے حصے میں تیسرا تیتر آئے گا۔ 
استعداد کم نہیں ۔پندرہ ہزار میگاواٹ درکار ہیں ۔ سولہ ، سترہ ہزار پیدا کیے جا سکتے ہیں ۔ مشکل یہ ہے کہ گردشی قرضہ پھر سے تین سو ارب ہو چکا۔ مشکل یہ ہے کہ سرمایہ ان چیزوں پہ برباد ہے ، جن کی ضرورت صرف شاہی خاندان کو ہے ۔ اپنی سیاست کے لیے ، داد وصول کرنے کے لیے اور ان مقاصد کے لیے ، جن کا ذکر مناسب نہیں ۔ 
لاہور کی میٹرو پر، 70ارب ضائع کیے جا چکے اور ابھی تک یہ منصوبہ اولاد جن رہا ہے ۔ چونگی امر سدھو اور مینارِ پاکستان کے آزادی چوک پر دو عدد پل۔ اور بھی بنیں گے ۔ اس روٹ پر دوسری ٹرانسپورٹ بند۔ ایک ایک سو کی قطار لگتی ہے اور مجبور لوگ تنگ آکر رکشہ ڈھونڈتے ہیں ۔ دنیا کی بیہودہ ترین سواری۔ رات گیارہ بجے سروس ختم ۔مری روڈ ادھیڑ دی گئی ہے ۔ بیس برس تک راولپنڈی کی بسوں پہ میں نے سفر کیا ہے ۔ اس شہر کو میٹرو نام کی کوئی چیز درکار ہی نہ تھی ۔ زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں دوسری ویگن ۔ اس سے کہیں بہتر عظمیٰ گل کی واران بس سروس تھی ، پاکستان کی بہترین خاتون منتظم کا اعزاز جنہوں نے جیت لیا تھا۔ خواتین کا حصہ الگ ، وقت کی پابندی اور عملہ پوری طرح شائستہ ۔ ڈرائیور کو مونچھ رکھنے کی اجازت نہ تھی ۔ اوّل اسے پرویز مشرف کے ایک کور کمانڈر نے تباہ کیا۔ پھر چوہدری پرویز الٰہی کے افسروں اور آخری بار میاں شہباز شریف کی عنایات نے ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے : کاروبار حکومت کا کام نہیں ۔ شیر شاہ سوریوں کو مگر یہ بات کون سمجھائے ۔ جو عقلِ کل ہے ، وہ عقلِ کل ہے ۔ اعتراض کرو تو کارندے گالی دیتے ہیں ۔ وزیرِ اطلاعات نے فرمایا : آزادیٔ اظہار پہ قدغن نہیں لگ سکتی ۔ بخدا تختِ لاہور آزادیٔ صحافت کا قبرستان ہے ۔ کچھ بک گئے ، کچھ لبھا لیے گئے ، کچھ متذبذب اور مجبور ، خال خال کوئی آزاد ہے ، النّادر کالمعدوم۔ 
شہر لاہور تری گلیوں کے صدقے جائوں 
لوگ مردہ ہیں، در و بام سہانے تیرے 
خادمِ پنجاب نے کیا یہ فرمایا کہ راولپنڈی میٹرو پر 30ارب روپے لاگت آئے گی ؟ 70ارب سے کم کا سوال ہی نہیں ۔ سب جانتے ہیں ، سبھی جانتے ہیں کہ اس طرح کے منصوبوں میں کم از کم 30فیصد ہضم کر لیا جاتاہے ۔ برق رفتاری سے کام ہو تو اس سے بھی زیادہ ۔ سرکاری افسر، بعض سیاستدان اور ٹھیکیدار ، بہتی گنگا میں سبھی ہاتھ دھویا کرتے ہیں ۔ دو دو کروڑ روپے کی جو عالیشان گاڑیاں ہر کہیں دمک رہی ہیں، وہ مالِ حرام کا کرشمہ نہیں تو اور کیا ہے ؟ پٹرول نہیں ، ان میں عوام کا لہو جلتا ہے ۔ یہی وہ لوگ ہیں ، جن کی وجہ سے ٹیکس وصولی آٹھ فیصد رہ گئی ، جو جنرل محمد ضیاء الحق کے دور تک 16فیصد تھی ۔ اسی شرح پہ اگر وصولی ہوتو 20بلین ڈالر مزید۔ امریکہ ، سعودی عرب اور آئی ایم ایف سے بھیک مانگنے کی ضرورت رہے اور نہ بشار الاسد کے خلاف بیان داغنا پڑے ۔زرداری صاحب کو کیا پڑی ہے کہ مخالفت کریں ۔ رہے عمران خان تو انہیں ہمیشہ بعد میں پتہ چلتا ہے ۔ رہی ان کی پارٹی تو اچھی بہت ہے مگر بیچاری پرائمری کے کمرہ ٔامتحان میں بیٹھی ہے ۔ 
پندرہ فیصد صارفین بجلی کا بل ہی ادا نہیں کرتے۔ لائن لاسز 21فیصد ، زیادہ سے زیادہ جو دس فیصد ہونا چاہیے۔ پیدوار ؟ گیارہ ماہ کے دوران ایک یونٹ کا بھی اضافہ نہ ہوسکا۔ صرف حیدرآباد ڈویژن میں ہر سال 114 ارب کی بجلی چرا لی جاتی ہے۔ 
الیکشن کے ہنگام میاں محمد نواز شریف نے اعلان یہ کیا تھا کہ حکمتِ عملی مکمل ہے ۔ اوّل دن سے کام شروع ہوگا ۔ کون سا کام ؟ شفیق الرحمٰن کی کہانی کے ایک کردار نے اپنے خط میں لکھا : آسمان سے میں تارے توڑ کر لا سکتا ہوں ۔ جان دے سکتا ہوں ۔ اگر ٹھنڈ نہ ہوتی تو ملاقات کے لیے بھی آج ضرور آتا۔ 
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں زیادہ تر اپنے لوگ۔ دکانداروں کی قابلِ ذکر تعداد نون لیگ کی ووٹر ہے ۔ شب آٹھ بجے کاروبار سمیٹنے کا سوال ہی نہیں ۔ ایک ہزار میگاواٹ کی بچت وگرنہ ممکن ہوتی ۔ ہفتہ اور اتوار کی چھٹی کر دی جائے تو مزید ایک ہزار میگاواٹ ۔
لاہور کے لیے اب دو ارب ڈالر سے ٹرین بھی چلے گی۔ اللہ کے بندو، اوّ ل پاکستان ریلوے کو دلدل سے باہر نکالو۔سعد رفیق کی مدد کرو۔ سیاست کی بجائے، اسی کا ہو رہے تو زیادہ سے زیادہ ایک سال کے اندر مشن مکمل ۔ دانش بگھارنے کے لیے احسن اقبال اور خواجہ آصف کیا کافی نہیں ۔ صرف ٹھیکیداری نظام کی اصلاح سے کم از کم 200ارب روپے سالانہ بچائے جا سکتے ہیں ۔ صرف سٹیل مل ، واپڈا اور پی آئی اے کو بہتر بنا کر اقتصادی بحران سے چھٹکارا ممکن ہے ۔ 
کس کو فکر ہے ، مگر کس کو ؟ اولادیں ان کی ملک سے باہر، جائیدادیں ان کی سمندر پار۔ قوم رنگین غباروں سے بہل سکتی ہے تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ خیانت کا باب بند کرے ، خون پسینہ ایک کرے؟ کس لیے ،جنابِ والا ، کس لیے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved