جب بھی عام آدمی کا ذکر ہوتا ہے، ذہن میں صرف پریشانیاں اُبھرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے عام آدمی کو پریشانیوں اور اُلجھنوں نے گود لے رکھا ہے! ہم رات دن عام آدمی کے حوالے سے خدا جانے کیا کیا کہتے اور سُنتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم اُس کے بارے میں کم ہی جانتے ہیں۔ اُس کی زندگی کے بہت سے گوشے بے نقاب ہونے سے رہ گئے ہیں۔ سبب اِس کا شاید یہ ہے کہ اِس کام کے لیے اب تک این جی اوز کو مناسب فنڈنگ نہیں ہوسکی!
ہم نے سوچا کسی عام آدمی سے بات کریں اور اُس سے جو تبادلۂ خیالات ہو وہ آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے تاکہ آپ بھی مطمئن ہوسکیں کہ عام آدمی کے جذبات آپ تک پہنچ گئے۔
کل سڑک پر ایک عام آدمی سے ملاقات ہوئی۔ عام آدمی سڑک ہی پر ملتا ہے۔ اُس کے مقدر میں سڑکیں ناپنا لکھا ہے یا شاید اُس نے خود ہی اپنی تقدیر میں یہ کام فرض کرلیا ہے۔ ہم نے کہا فرض کیجیے آپ اِس وقت ٹی وی اسٹوڈیو میں بیٹھے ہیں اور آپ کا انٹرویو لاکھوں، بلکہ کروڑوں افراد دیکھ رہے ہیں تو آپ سب سے پہلے کیا کہنا چاہیں گے۔ عام آدمی بولا۔ ''سب سے پہلے تو شکریہ ادا کروں گا کہ کچھ بولنے کا اور اسکرین پر بہتر طریقے سے نمودار ہونے کا موقع فراہم کیا۔ بڑوں کی طرح بڑبولا پن تو مجھ میں ہے نہیں جو بولنے پر آؤں تو سوچے سمجھے بغیر بولتا ہی چلا جاؤں۔ میری حیثیت کچھ بھی سہی، اللہ نے ہزار مسائل کے باوجود تھوڑی بہت شرم اور غیرت رہنے دی ہے جو سوچ سمجھ کر بولنے میں مدد دیتی ہے!‘‘
ہم حیران رہ گئے کہ عام آدمی اِتنی اچھی گفتگو بھی کرسکتا ہے۔ ہم نے کہا کہ اینکر کیوں نہیں بن جاتے تو عام آدمی تیوری پر بَل چڑھاتے ہوئے بولا۔ ''آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں بھی بولنے کے نام پر جانوروں کو شرمانے والی بولیاں بولنے لگوں؟ غریب ہوں تو کیا ہوا، میرے بھی کچھ اُصول ہیں جنہیں سینے سے لگائے زندہ ہوں۔ اور کچھ تو ہے نہیں اِس لیے اب اُصولوں ہی کو کُل اثاثہ گردانتا ہوں۔‘‘
عام آدمی کو تھوڑے سے اشتعال کے عالم میں دیکھ کر ہم نے یاد دلایا کہ آپ اپنے بارے میں کچھ بتا رہے تھے۔ وہ بولا۔ ''ہمارے بارے میں پتا نہیں کیا کیا بولا جاتا ہے مگر خود ہمیں بولنے نہیں دیا جاتا۔ لکھنے والے ہم پر ناول لکھ کر مال بھی کماتے ہیں اور ایوارڈ بھی لے اُڑتے ہیں مگر ہم سے ہماری کہانی کوئی نہیں سُنتا۔ سُنانے بیٹھو تو لوگ کہتے ہیں وہ دل کشی نہیں جو فکشن رائٹرز پیدا کرتے ہیں! لوگ مجھے ''ع‘‘ والا عام آدمی سمجھتے ہیں جبکہ میں خود کو ''الف‘‘ والا آم آدمی گردانتا ہوں۔ حالات نے مجھے چُوس کر گٹھلی کی طرح پھینک دیا ہے۔‘‘
آپ بھی عام آدمی کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے ہوں گے۔ مثلاً یہ کہ انتہائی مشکل حالات کے باوجود وہ کس بات پر شکر ادا کرتا ہوگا۔ کیا واقعی عام آدمی شکر ادا کرنے کی پوزیشن میں رہا ہے؟ وہ کہتا ہے۔ ''کیوں نہیں؟ ویسے تو ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے مگر اِس بات پر اللہ کا زیادہ شکر ادا کرتا ہوں کہ اب تک زندہ ہوں اور 'روشن مثال‘ کی طرح سب کے سامنے ہوں۔ میں اب تک زندہ ہوں تو یہ اللہ کا احسان، میرا کارنامہ اور حالات کی ناکامی ہے!‘‘
حکومت کی کوئی ایسی ''مہربانی‘‘ ہے جس پر عام آدمی اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہے؟ وہ کہتا ہے۔ ''کیوں نہیں؟ کون کہتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے سینے میں دِل نہیں؟ یہ کرم بھی کیا کم ہے کہ اب تک سانس لینے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا! سورج کی روشنی بھی اب تک بلا معاوضہ مل رہی ہے۔ اِن دونوں مَدوں میں حکومت کا ہم پر ٹیکس عائد نہ کرنا اِس بات کی بَیّن دلیل ہے کہ اللہ ہے اور ہم پر مہربان ہے!‘‘
عام آدمی کا بنیادی مسئلہ کیا ہے؟
عام آدمی ہی کی زبانی سُنیے۔ ''بہت سوں کی نظر میں تو ہم خود ایک بنیادی مسئلہ ہیں۔ ویسے ہمارے لیے بجلی اور پانی کا حصول سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ پانی کا معاملہ تو ہم نے بہت پہلے اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ جب چاہیے برسا دے۔ بجلی کا معاملہ بھی اب مجبوراً اللہ ہی پر چھوڑا ہے۔ ٹھیک ہے، اللہ جو بجلی دیتا ہے وہ بہت خطرناک ہے مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ اِنسان اپنی بنائی ہوئی بجلی کا جو بل بھیجتے ہیں وہ بھی کم تباہ کن نہیں ہوتا! سچ تو یہ ہے کہ تار میں دوڑتی بجلی میں کم اور اُس کے بل میں زیادہ کرنٹ پایا جاتا ہے!‘‘
ہم نے جب زندگی کے بارے میں نظریہ جاننا چاہا تو عام آدمی خاصا تُنک کر بولا۔ ''یہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خالص حیوانی سطح پر زندگی بسر ہو رہے ہیں۔ جو ہم گزار رہے ہیں وہ زندگی ہی نہیں تو اُس کا نظریہ کہاں سے لائیں؟ کسی نہ کسی طرح صبح کو شام کرلیتے ہیں، بس۔ ہم کیا اور ہماری وقعت کیا؟‘‘
حکومت عام آدمی کے حالات بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کرتی رہتی ہے۔ اِس حوالے سے عام آدمی کہتا ہے۔ ''ہمیں سستی چیزیں فراہم کرنے کے نام پر جو بچت بازار لگائے جاتے ہیں اُن میں چیزیں عام دکانوں سے زیادہ مہنگی ملتی ہیں۔ روز ایک بچت بازار لگ رہا ہے۔ اب یہ بازار خریداری سے زیادہ دل بہلانے کے مقامات ہیں۔ بہت سے مرد و زن صرف آنکھ مَٹکّے کے لیے بچت بازار کا رُخ کرتے ہیں!‘‘
عام آدمی مہنگائی کا مقابلہ کس طرح کرتا ہے۔ جواب دیکھیے۔ ''مہنگائی کا تو یہ حال ہے کہ ایک صاحب نے انڈوں پر مُرغی بٹھائی۔ مدت پوری ہوئی تو وہ بے تاب ہوئے کہ انڈوں سے چُوزے باہر آئیں۔ مگر تین دن اوپر ہوگئے، نہ انڈے ٹوٹے نہ چُوزے باہر آئے۔ وہ صاحب حیران ہوئے کہ کیا کائنات کا نظام تبدیل ہوگیا ہے! انہوں نے تنگ آکر چُوزوں کو آواز دی کہ باہر کیوں نہیں آ رہے۔ اندر سے آواز آئی کہ ہم کہاں خیریت سے ہیں، باہر بہت مہنگائی ہے! سپیرے بین بجا بجاکر تھک جاتے ہیں مگر ناگ ٹَس سے مَس نہیں ہوتے۔ سپیرے پوچھتے ہیں کہ ناراض ہوں، جُھومتے کیوں نہیں؟ جواب میں ناگ کہتے ہیں ہم کیا تمہارے باپ کے نوکر ہیں کہ مُفت میں جُھومتے رہیں؟ دو سال سے پیسے تو بڑھائے نہیں، صرف بین بجائے جارہے ہو!‘‘
اگر واقعی یہ عالم ہے تو پھر گزارا کیسے ہوتا ہے؟
عام آدمی نے اِس سوال کے جواب میں پتے کی بات بتائی۔ ''جو اِتنی بڑی کائنات چلا رہا ہے وہ ہماری زندگی کی گاڑی بھی چلا رہا ہے! اِس دورِ پُرفتن میں عام آدمی کا زندہ رہ پانا اللہ کے کرم کے بغیر ممکن نہیں۔‘‘
حکومتیں یقین دلانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ عام آدمی کا بھی مستقبل ہے اور تابناک ہے۔ ہم نے پوچھا کہ بچوں کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے تو عام آدمی نے کہا۔ ''ہم تو حال سے بے حال ہیں، مستقبل کا کیا سوچیں؟ گھر میں گوشت، سبزی اور پھلوں کے پوسٹرز لگا رکھے ہیں۔ ہمارے بچے اب پوسٹرز دیکھ کر ہی پیٹ بھر لیتے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو کچھ عرصے کے بعد ہم بھی پوسٹرز ہی میں ملا کریں گے کہ دیکھو، غریب آدمی ایسا ہوا کرتا تھا!‘‘
ہم نے کہا حکومت آپ لوگوں کو آباد کرنے کے لیے پلاٹس وغیرہ بھی تو دیتی رہتی ہے۔ اِس پر عام آدمی نے وضاحت کی۔ ''یہ پلاٹ صرف وعدوں کی نگری میں ہوتے ہیں۔ حکومت اور سیاست دانوں نے ہم سے جتنے وعدے کئے ہیں اُن کے حساب سے تو ہر آدمی کے پاس چار پانچ کروڑ روپے کی پراپرٹی ہونی چاہیے!‘‘
آپ کے پاس کوئی پلاٹ ہے؟
اِس سوال کا جواب عام آدمی نے یوں دیا۔ ''میں تو خود ایک پلاٹ ہوں جس پر وزیر، مشیر اور اپوزیشن لیڈر دعووں اور وعدوں کا اسکرپٹ لکھتے رہتے ہیں۔ ویسے یہ کہانی ہے بہت مختلف کیونکہ end سے شروع ہوتی ہے!‘‘
عام آدمی کس کام کا ہے؟ کیا وہ حکومت کے کام آسکتا ہے؟ اِس حوالے سے عام آدمی کہتا ہے۔ ''کیوں نہیں؟ ہم حکومت کے بہت کام آسکتے ہیں۔ اگر حکومت خلائی بستیاں بسانے کا پروگرام بنائے تو ہم ہراول دستے کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خلا میں پانی ہے نہ بجلی۔ ہم بھی اِن دونوں کے بغیر جی رہے ہیں۔‘‘
عام آدمی کے دِل کو کسی بات سے سُکون ملتا ہے؟ اگر ہاں، تو کس بات سے؟
چشم کُشا جواب ملاحظہ فرمائیے۔ ''ہم یہی سوچ کر دل بہلا لیا کرتے ہیں کہ ہم ایک دن مِٹّی میں مل جائیں گے اور جنہوں نے ہمیں جیتے جی مِٹّی میں ملا رکھا ہے اُن کا بھی یہی انجام ہونا ہے!‘‘