حکومت کے سٹریٹجسٹس اور میڈیا ماہرین‘ خدا جانے سمجھ بھی رہے ہیں یا نہیں؟ کہ طالبان کی مذاکراتی ٹیم‘ درحقیقت ان کے سفارتی مشن کا کام کر رہی ہے۔ مگر سفارتکاروں جیسی پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ اسے پاکستانیوں کی طرح ہر جگہ آنے جانے‘ ملاقاتیں کرنے‘ تقریریں جھاڑنے‘ بیانات جاری کرنے اور ٹیلیویژن چینلز پر بے لگام اور بے محابہ گفتگو اور پراپیگنڈہ کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ وہ ہر حیلے اور بہانے سے‘ طالبان کے موقف کا پرچار کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو ہر خرابی کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں اور جو کوئی غلطی سے مذاکرات کی سست رفتاری پر تنقید کرتا ہے‘ اس کا گلا دبانے کو دوڑتے ہیں۔ امن دشمن قرار دیتے ہیں اور کئی بار تو پرامن شہری کی تذلیل کے لئے اشتعال دلاتے ہیں کہ ''جس کو مذاکرات پسند نہیں‘ وہ خود پہاڑوں پر جا کر طالبان کا مقابلہ کر لے۔‘‘یہ سب کچھ پاکستان کے اندر ہو رہا ہے۔ بے شک یہ پاکستان کے شہری بھی ہیں۔ لیکن مذاکراتی ٹیم کے اراکین کی حیثیت سے‘ وہ پاکستانی ریاست کے باغیوں کے نمائندے ہیں۔ اس حیثیت میں انہیں کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کے طور پریہاں آزادانہ اظہار خیال کی آزادی نہیں ہونا چاہیے۔ میری بات یاد کریں۔ مذاکرات کے فیصلے پر میں نے برجستہ کہا تھا کہ ''ہم طالبان کے ٹریپ میں آ گئے ہیں۔‘‘ اب تک کے نتائج دیکھ لیجئے۔ پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ اور طالبان نے کیا حاصل نہیں کیا؟
سب سے پہلے انہوں نے اپنی غیرقانونی پوزیشن کے خلاف ‘ حکومتی پوزیشن کی دھجیاں اڑا دیں۔ قید میں پڑے دہشت گردوں کو آزاد کرا لیا۔ جنگ بندی کا جھانسہ دے کر‘ 8ہزار کے قریب دہشت گردوں کو شمالی وزیرستان سے نکال کرمحفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔ افغانستان میں محفوظ کمیں گاہیں بنا کر‘ مستقبل میں کارروائیوں کی تیاری کر لی۔ دہشت گردوں کے خلاف پاکستان کی سیاسی پارٹیوں میں جو اتفاق رائے موجود تھا‘ اس کے پرخچے اڑا دیئے۔ رائے عامہ کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ میڈیا میں اپنے ترجمانوں کو تقویت دی۔ مولوی عبدالعزیز کو پاکستان کے آئین اور سماجی ڈھانچے کی توڑپھوڑ کے لئے آزاد کر دیا ۔و ہ اپنے دقیانوسی خیالات کو‘ ٹیلیویژن کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے لئے آزاد ہیں اور فرماتے ہیں کہ ''خواتین کو برقع پہن کر ٹی وی پر آنا چاہیے۔ اینکر بھی برقع پوش ہو اور مہمان بھی۔ عورتوں کے پروگرام صرف عورتیں دیکھ سکیں۔ مردوں کے پروگرام مرد دیکھا کریں۔‘‘جب ان سے کہا گیا کہ خانہ کعبہ میں طواف کرتے وقت تو عورتیں نقاب بھی نہیں پہنتیں اور مردوں کی معیت میں طواف اور سعی کرتی ہیں‘ تو موصوف نے کہا ''لیکن وہ کھلے چہرے لے کر اور کہیں نہیں جا سکتیں۔ یہ اجازت صرف خانہ کعبہ میں ہے۔ باقی ہر جگہ وہ چہرہ چھپانے کی پابند ہیں۔‘‘ وہ پردے کے لئے اپنی ایجاد شدہ‘ ایک نئی طرز پر اصرار کرتے ہیں۔ یعنی پردہ‘ ماتھے پر چہرے سے ذرا دور ہٹا کر گرا دیا جائے۔ پردے کا کپڑا چہرے سے دور رہے۔ لیکن عورت کا چہرہ دکھائی نہ دے۔ یہ سب کچھ وہ اسلام کے نام پر پیش کر رہے ہیں ۔ اس کی انہیں مکمل آزادی ہے۔ طالبان کے ترجمان ‘ پاکستانی سیاست میں بھی منہ مارنے سے باز نہیں آتے۔ کمیٹی کے ایک رکن نے ہمارے وزیراعظم کو دھمکی دی ہے ''پرویزمشرف ملک سے باہر گئے‘ تو ہم وزیراعظم کا گریبان پکڑیں گے۔‘‘ اس دھمکی میںان کا کونسا ''ہم‘‘ بول رہا ہے؟پاکستانی ہونے کا ''ہم‘‘ یا طالبان کے نمائندے کا ''ہم‘‘؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ طالبان کے ترجمانوں نے حکم دے دیا ہے کہ آرمی چیف ‘ مذاکراتی کمیٹیوں سے ملاقات کریں۔ آرمی چیف کو یہ حکم بھی دیا گیاہے کہ فوج مذاکراتی عمل کا حصہ بنے
یا پھر حکومت پر اعتماد کرے۔ خفیہ اداروں کو آئین اور قانون پر عمل کرنا ہو گا۔ یہ بات ان باغی گروہوں کا ترجمان کہہ رہا ہے‘ جوپاکستانی قوانین کو پامال کرتے ہوئے‘ آئین و قانون دونوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ جوبنیادی طور پر بے گناہ پاکستانی شہریوں کے قاتل ہیں۔ ہماری مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں کے قاتل ہیں۔ اب وہ یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ مذاکرات کا مقام فراہم کرنے کی آڑ میں حکومت پاکستان‘ ایک علاقے سے دستبردار ہو گی۔ یعنی اتنے حصے پر پاکستان کی حاکمیت ختم کر دی جائے گی۔جب ایسا ہو جائے گا‘ تو عملاً یہ طالبان کا مقبوضہ علاقہ بن جائے گا۔ کیونکہ وہ کسی بھی جگہ اپنی کمین گاہ بنانے میں آزاد ہیں۔ لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد میں انہوں نے اپنی کمین گاہیں کسی سے پوچھ کر نہیں بنائیں۔ البتہ اب جو علاقہ‘ ہم ان کے سپرد کریں گے‘ وہاں پاکستانیوں کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ یہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ کل بھارت نے کشمیر پر مذاکرات کے لئے ہم سے کوئی علاقہ مانگ لیا‘ تو ہمارا جواب کیا ہو گا؟ بلوچ جنگجوئوں نے مذاکرات کے لئے اپنے لئے کوئی علاقہ مانگ لیا‘ تو ہم کیسے انکار کریں گے؟ ایم کیو ایم اگر اسی مطالبے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے‘ کراچی شہر کے ایک حصے سے‘ پاکستان کی سکیورٹی فورسز کونکالنے کا مطالبہ کردے ‘ تو ہمارے پاس انکار کا کیا جواز ہو گا؟جو کچھ ہم باغیوں کو دے سکتے ہیں‘ وہ پاکستان کے آئین اور قانون کا احترام کرنے والوں کو کیوں نہیں دے سکتے؟ کیا اب یہ درست نہیں کہ طالبان نے ہمیں اپنے ٹریپ میں لے لیا ہے؟
گردوپیش کے حالات کو دیکھئے‘ تو بھارتی اور عالمی میڈیا‘ نریندر مودی کو قریب قریب وزیراعظم مان چکا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جس نے بطور وزیراعلیٰ گجرات‘ پولیس کو حکم دے کر مسلمانوں کا قتل عام کرایا۔ ان کے گھر اور دکانیں جلوائیں۔عورتوں کی سرعام بے آبروئی کرائی گئی۔ حاملہ خواتین کے پیٹ چیر کے بچوں کو نکال کرمروایا گیا۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2ہزار مسلمان قتل کئے گئے جبکہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ جب اس سے معذرت کے لئے کہا گیا‘ تو یہ نہیں مانا۔ حتیٰ کہ الیکشن میںمسلمانوں کے ووٹ لینے کی خاطر بھی‘ اس نے اظہار ندامت نہیں کیا۔ ایک تقریب میں مجبور مسلمانوں کے وفد کی طرف سے ‘ جب اسے مسلمانوں کے لئے مخصوص ٹوپی پیش کی گئی‘ تو اس نے پہننے سے انکار کرتے ہوئے واپس کر دی اور جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا اسے ہزاروں مسلمانوں کی ہلاکتوں پر ندامت نہیں؟ تو اس کا جواب تھا ''اگر سڑک پر‘کتے کا بچہ آپ کی گاڑی کے نیچے آ کر مر جائے‘ تو دل ضرور برا ہوتا ہے۔ لیکن ندامت کس بات کی؟‘‘ اسی شخص کی انگلی‘ اب بھارت کے ایٹمی سوئچ پر ہو گی اور اقتدار سنبھالتے ہی‘ پاکستان میں اس کا پہلا اقدام کیا ہو گا؟ اسی کے الفاظ میں پڑھئے۔ ''وزیراعظم منتخب ہوا تو دائود ابراہیم کو پاکستان سے لائوں گا۔‘‘ سوال کیا گیا‘ کیسے؟ تو مودی نے جواب دیا۔ ''کیا اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن سے قبل پریس کانفرنس کی گئی تھی؟ جو ہو گا خاموشی سے ہو گا۔‘‘ امریکہ اور اس کے حواریوں سے اربوں ڈالر لے کر‘ پاک بھارت دوستی کا پرچار کرنے والے اس پر کیا کہیں گے؟ افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی کامیابی اب یقینی ہے۔تمام ڈالے گئے ووٹوں میں سے اسے 44 فیصد مل چکے ہیں۔ دوسرے رائونڈ میں یقینی طور پر اس کے ووٹ 50فیصد سے بہت زیادہ ہو جائیں گے۔ اس نے ابھی سے پاکستان دشمن دہشت گردوں کے ساتھ رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ اس کی پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی‘ ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کے اندر کچھ دہشت گرد گروہ‘ شیعہ آبادی کے خلاف پہلے ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ ہم ایران مخالف گروہ کے اتحادی بننے والے ہیں اور اگر جنگ ہوئی تو فریق کی حیثیت سے ایران کے خلاف لڑیں گے۔ جب تک پاکستان سے دہشت گردی کے مراکز ختم نہیں ہوتے‘ چین کسی جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دے گا۔ یوں بھی چین کی مستقل پالیسی ہے کہ وہ دوسروں کی جنگ میں نہیں کودے گا۔ میں نے آپ کی خدمت میں ٹھوس حقائق پیش کئے ہیں ۔ نتیجہ آپ اور پالیسی سازوں پر چھوڑ رہا ہوں۔سوچنے والوں کے لئے مندرجہ بالا چند سطریں ہی کافی ہیں۔آخر میں ایک دکھتا ہوا سوال کہ ہم اپنے خلاف ہر قسم کے جارحانہ عزائم رکھنے اور 50ہزار سے زیادہ شہریوں اور فوجیوں کو شہید کرنے والوں کے ساتھ مونچھ نیچی کر کے مذاکرات کر سکتے ہیں‘ تو 2ہزار مسلمانوں کے قاتل سے بات کرنے میں کیا امر مانع ہو گا؟