تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     29-04-2014

معذرت

آج معلوم ہوا ۔ جیسے آج ہی معلوم ہوا کہ ''زندگی، بے بندگی ، شرمندگی‘‘ کے معنی دراصل کیا ہیں ۔ایک عاصی کے دل پہ خیالِ خیر برق کی طرح اترا ہے ۔ کوشش ہے کہ اسے تھام لے اور تھامے رکھے۔ 
محترمہ عظمیٰ گل نے ایک پیغام بھیجا ہے کہ اپنی ستائش پر وہ احسان مند ہیں ۔ اذیت پہنچی۔ کس چیز کا شکریہ؟ ان سے ایک گہرا ذاتی تعلق رہا ۔دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام ہے۔ اگر ان کے باب میں مجھ سے کوتاہی نہ ہوئی ہوتی تو آج اس شرمندگی سے دوچار نہ ہوتا۔ 
ذاتی مراسم الگ، اسی وقت،جب راولپنڈی کے لیے میٹرو بس کا اعلان ہوا ، واران بس سروس کے بارے میں لکھنا چا ہیے تھا۔ یہ ایک شاندار کوشش تھی ۔ اس ملک میں ، جہاں ٹرانسپورٹ کا نظام الّا ماشاء اللہ گنواروں کے ہاتھ میں ہے، یہ ترقی یافتہ ممالک کے پائے کا پروگرام تھا۔ حکمرانوں کی سفّاکی کے علاوہ ، جو میڈیا کی بے رحمی کا شکار ہوا۔ اوّل دن سے میں اس کا گواہ ہوں ۔ اعتراض صرف ایک تھا کہ بینک کا قرض شرفا کو ہضم نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا ، کاروبار ہی سہی، ایک لحاظ سے یہ کارِ ثوا ب بھی ہے ۔ خواتین ، بچّے اور بوڑھے ان ویگنوں میں خراب و خوار ہوتے ہیں ، دنیا بھر میں ایمبو لینس کے طور پہ جو برتی جاتی ہیں ۔ ان کا سٹاف نا خواندہ اور ترش رو ہو تاہے ۔ اس کام میں ان کے سوا دوسری کوئی ایسی کمپنی شاید ہاتھ نہ ڈالے ، جس کی ترجیحات اخلاقی بھی ہوں ۔ 
جیسے ہی آغازِ کار ہوا، راولپنڈی کے کور کمانڈر ان کی جان کو اٹک گئے ۔ اس لیے کہ جنرل پرویز مشرف اپنے استاد اور مربّی جنرل حمید گل سے ناراض تھے ۔ بعض پالیسیوں پر انہوں نے اختلاف کی جسارت کی تھی ۔ ذاتی مراسم تو ایسے تھے کہ صدر بننے کے بعد بھی خاموشی سے ان کے گھر آئے اور دیر تک بیٹھے رہے ۔ اپنی صاحبزادی کے ہاتھ کی بنی ہوئی ایک پینٹنگ ان کی نذر کی ، جو سرگودہا میں جنرل صاحب کے خستہ حال سے فارم ہائوس کی دیوار پہ آویزاں تھی ۔ 
واران بس کا معاہدہ میاں محمد شہباز شریف کے دور میں ہوا تھا۔جنرل مشرف کا اقتدار مستحکم ہو چکا تو فوجی حکام نے پر پرزے نکالنے شروع کیے ۔ ہوتا یہ ہے کہ فوجی افسر رفتہ رفتہ نمک کی کان میں نمک ہو نے لگتے ہیں ۔ فوج اور سول کی کشمکش میں ، عساکر خواہ سو فیصد حق پر ہوں ، مارشل لا پر اکسانے والے اس نکتے کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ طاقت گمراہ کرتی ہے اور زیادہ قوت مکمل طور پر گمراہ۔ آج فوج حق پر ہے ۔ جن کی خواہش مگر یہ ہے کہ منتخب حکومت کا تخت اچھال دیا جائے ، اگر وہ نفرت میں اندھے نہیں تو کم از کم سیاسی حرکیات سے مکمل طور پر بے بہرہ ضرور ہیں ۔ بجا کہ فوری طور پرا من و امان بہتر ہو جاتاہے ، بجا کہ معیشت فروغ پاتی ہے ، کرپشن کم ہو جاتی اور غریب سکھ کا سانس لیتے ہیں ۔ آخری نتیجہ مگر کیا نکلتا ہے ؟ ایک عشرے میں جو کچھ تعمیر ہوتاہے ،عوامی احتجاج کے آخری برس میں مکمل طور پر برباد ہو جایا کرتاہے...سیاستدان کرپٹ ہیں مگر کیا سب کے سب کرپٹ ہیں ؟ عمران خان اور سراج الحق پہ اور کتنے ہی اعتراض ہوں مگر بد عنوان وہ بالکل نہیں ۔ کہاں وہ غلطی کے مرتکب ہیں ، اس پر بحث برپا رہنی چاہیے ۔ مارشل لا بہرحال کوئی علاج نہیں۔ جس طرح کہ دوا کی جگہ Steroid کا زہر نہیں ۔
اگر یہ ایک مربوط تحریر نہیں تو میں معافی کا خواستگار ہوں ۔ کالم کی چھٹی کے دن بس ایک وضاحت ہی مقصود ہے ۔ کچھ زیادہ با ذوق قارئین نے شکایت کی ہے کہ پہلی سی ترتیب اور یکسوئی باقی نہیں ۔ بجا، بالکل بجا۔کچھ ذاتی مسائل، کچھ چاروں طرف پھیلتی طوائف الملوکی پہ دکھا ہوا دل ع
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
سفردرسفر، مکان کی تبدیلی، صحت کی خرابی۔ ہفتے میں چار دن اگر سات کی بجائے چار گھنٹے نیندمیسر آئے تو نتیجہ معلوم۔ اللہ کا شکر ہے کہ کشتی کنارے پر آ لگی ہے ۔ پھر سے میرؔ صاحب کو یاد کیا ہے ؎ 
مصرعہ کبھو کبھو کوئی موزوں کروں ہوں میں 
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں 
کہاں وہ نادرِ روزگار اور کہاں یہ معمولی اخبار نویس ۔ اس پر بھی مگر غور فرمائیے کہ ایسے عالی دماغ کے ہاں بھی رطب و یابس بہت ہے ۔ میر ؔ صاحب یاد آئے تو مولانا سمیع الحق بھی ؎
جامہء احرامِ زاہد پہ نہ جا 
تھا حرم میں لیک نامحرم رہا
تو محترمہ عظمیٰ گل کی واران بس سروس کے ساتھ فوجی حکومت کے سول ساتھیوں اور بعد میں آنے والی جمہوریت کے شمع برداروں کا سلوک یکساں رہا، احمقانہ اور بے رحمانہ ۔ اقساط بروقت جمع ہوتی رہیں لیکن ایک دن بینک نے پورے کا پورا قرض واپس مانگ لیااور فوراً۔ ظاہر ہے، اس لیے کہ حکومت نا خوش تھی ۔ پولیس کے ذریعے ہراساں نہ کیا جا سکا تو یہ نسخہ آزما یا گیا۔ مرتا کیا نہ کرتا، خاندان کی بہت سی جائیداد اونے پونے بک گئی ؛حتیٰ کہ یوسف گل اور عظمیٰ کے بھائیوں کی بھی۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ اگر کوئی ٹرانسپورٹر بس خریدنے آتا تو فوجی حکام اسے منع کرتے ۔ ایک مرحلے پر شیخ رشید نے کہ وفاقی وزیرتھے اور من مانی کے عادی ، ایسی حرکت کی کہ اوّل اوّل یقین ہی نہ آتا تھا۔ تفصیل پھر کبھی۔ واران بس سروس کے ملبے پر میٹرو کی تعمیر کے بارے میں بھی ۔ 
آج شرمندگی اور وضاحت کا دن ہے ۔ کل کے تجزیے میں جنرل کیانی کا ذکر اس انداز میں ہوا ، گویا جنرل راحیل شریف کے مقابلے میں وہ ایک کمتر سپہ سالار تھے ۔ نصف شب کو برق رفتاری سے لکھی جانے والی تحریروں میں یہی ہوتاہے ۔ ایسا عالی ظرف آدمی ہے کہ باربار میری ہر خطا اس نے معاف کی۔ قصور میرا ہے ۔ عظمیٰ گل کی طرح ان سے بھی میں شرمندہ ہوں ۔ اگر جملہ میں نے احتیاط سے لکھا ہوتا تو وہ سرخی بھی نہ جمتی ، جس سے بالکل ہی ایک غلط اور بے بنیاد تاثر پیداہوا۔جس سے یوں لگاکہ صبر گویا ایک کمزوری ہے؛ حالانکہ اللہ کی کتاب ضبط کرنے والوں کو بشارت دیتی ہے ۔اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتاہے اور ان میں غصہ پی جانے والے شامل ہیں اوریہ لکھا گیا ہے ''ان اللہ مع الصابرین‘‘اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ گویا ان کے حق میں ایک فریق۔جنرل کیانی فرشتہ نہیں لیکن اس میں رتّی برابر مجھے شبہ نہیں کہ تاریخ ان کا تذکرہ تکریم سے کرے گی ۔ چھ طوفانی برسوںمیں اُن ایسا جی دار، صابر اور فیّاض ہی درکار تھا۔ وہی تھے کہ خون کے گھونٹ پی کر خاموش رہے ۔ ایسے ایسے طعنے سنے کہ خدا کی پناہ لیکن ع
صبر کیا اور وہ بھی قیامت کا
تبھی عرض کیا تھا کہ ایسا آدمی پھر کبھی نہ آئے گا ۔ آج بھی میں اس رائے پر قائم ہوں ۔اس لیے کہ ہیجان کے مارے معاشروںمیں ایسے لوگ استثنا کے طور پر پیدا کیے جاتے ہیں ۔ جنرل ر احیل شریف بھی مہذب آدمی ہیں مگر تعلق کا ٹریفک یک طرفہ کبھی نہیں ہوتا۔ 
ایک آخری معذرت ، اس میڈیا گروپ کے بارے میں ، پورا ملک آج جس سے نالاں ہے ۔ اب میں یہ سوچتا ہوںکہ اظہارِ خیال میں شائستگی کا خیال رکھا ہوتا ۔ دوسروں کو آئے دن میں یاد دلاتا ہوں کہ غلطی سے نہیں ، انسان غلطی پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں ۔ آج خود کو یاد دلاتا ہوں ۔ اپنے موقف پہ ضمیر البتہ پوری طرح مطمئن ہے ۔
آج معلوم ہوا ۔ جیسے آج ہی معلوم ہوا کہ ''زندگی، بے بندگی ، شرمندگی‘‘ کے معنی دراصل کیا ہیں ۔ایک عاصی کے دل پہ خیالِ خیر برق کی طرح اترا ہے ۔ کوشش ہے کہ اسے تھام لے اور تھامے رکھے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved