'' تبدیلی کی بات کرنے والوں نے کیا کیا ہے؟خیبر پختونخوا میں عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے کون سا تیر مارلیا ہے؟ تبدیلی کے نعرے پر ووٹ لینے والوں نے اس صوبے میں اپنی ایک سال سے حکومت کے دوران کیا بدلا ہے ؟ ‘‘ اس قسم کے سوالات کی بھر مار ان لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہے جو تیس برس سے حکومتیں کر تے چلے آ رہے ہیں ۔کیا عمران خان اور ان کی جماعت پر سوالات کے تیر برسانے والے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتائیں گے کہ انہوں نے تین عشروں کی حکومت میں کون ساکارنامہ انجام دیا ؟ جہاں تک لوٹ مارکرنے کاسوال ہے تو اس میں ان کا کوئی ثانی ہی نہیں ہے۔ تیس سال حکومت کرنے کی بات سن کرشاید آپ پی پی پی اور نوازلیگ کی طرح یہ کہیںکہ اس ملک پرزیادہ عرصہ حکومت تو فوج نے کی ہے؟ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ تبدیلی کے نعروں اور تیس برس کی حکومت کے بارے میں سوالات بھی اسی فورم پر زیر بحث لائے جائیں جس میں مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی، آفتاب شیر پائواور مولانا فضل الرحمن سمیت ٹی وی اینکرزکے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں؟ اب عمران خان کی جانب سے اختیارکیے گئے تازہ ترین موقف کے بعد اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعینات افراد کی جانب سے عمران خان پر الزامات کی بارش ہوگی۔ عمران خان کو یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ آئندہ انتخابات میں انہیں دس سے زائد سیا سی جماعتوں اور امریکہ ، یورپ ، بنگلہ دیش اوربھارت کی طرف سے ایوارڈوں سے نو ازے گئے تجربہ کار لوگوں کا مقابلہ کرنا پڑے گا ۔ عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے پاس کھوٹے سکوں کے سواکچھ نہیں ، اگرسوشل میڈیا اور رضا کارانہ طور پر ان کا دفاع کرنے والے نہ ہوتے تو دولت کا طوفان تحریک انصاف کو بہا لے جاتا۔
اس ملک پرکس کس کی حکومت رہی؟ اس ملک کی قسمت کے فیصلے کون کرتے رہے؟ یہی آج کا اہم سوال ہے ۔14 اگست1947ء کو وطن عزیز معرض وجود میں آیاتو حضرت قائد اعظم ؒ بطور گورنر جنرل 15اگست1947ء سے11 ستمبر 1948ء تک اس نوزائیدہ ملک کے حکمران رہے ۔لیاقت علی خان 15 اگست 1947ء سے 16 اکتوبر1951ء تک وزیر اعظم رہے۔ ان کے بعد وقفے وقفے سے گورنر جنرل اور وزیراعظم بنتے بگڑتے رہے اور پھر جنرل ایوب خان کا بھر پور پہلا مارشل لاء نافذ ہوگیا۔28 اکتوبر1958ء کو ان کی فوجی حکومت کی پہلی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو تجارت، اطلاعات ، سیاحت، صنعت، پانی اور بجلی کے وزیر رہے اور پھر وزیر خارجہ کے علاوہ مسلم لیگ کنونشن کے سیکرٹری جنرل کے طور پراقتدارکے رموز سے آشنا ہوتے رہے۔ ایوب خان کے بعد جنرل یحییٰ خان 25 مارچ1969ء سے20 دسمبر1971ء تک ملک کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اورصدر رہے۔انہی کے دور میں ذوالفقارعلی بھٹونائب وزیراعظم اوروزیر خارجہ رہے ، وہ پاکستان کے پہلے نائب وزیر اعظم مقرر ہوئے تھے۔پھر بھٹو صاحب 21 دسمبر1971ء کو پاکستان کے با اختیار صدر مقررہوئے، 13 اگست1973ء تک وہ صدر رہے اورآئین کی منظوری کے بعد پارلیمانی طرز حکومت کے تحت پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ ان کے اقتدارکا یہ عرصہ 5 جولائی1977ء کو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء سے ختم ہوااور جب جنرل ضیاء نے 5جولائی1978ء کو اپنی22 رکنی کابینہ سے حلف لیاتو اس میں خواجہ محمد آصف کے والد خواجہ صفدر نے بطور وزیرخوراک و زراعت اور امداد باہمی حلف اٹھایا۔اس دوران جناب نواز شریف پنجاب میں بطور وزیر خزانہ کام کرتے رہے۔
اب آتے ہیں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی طرف جس کی طاقت سے وہ 16ستمبر 1978ء سے23 مارچ1985ء تک پاکستان کے انتہائی با اختیار صدر رہے۔ اس دوران ان کے شریک اقتدار میاں نواز شریف تھے جو سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ رہے۔محمد خان جونیجو23 مارچ1985ء سے29 مئی1988ء تک تین سال ملک کے اس قدر با اختیار وزیر اعظم بنے کہ انہوں نے جرنیلوں سے بڑی گاڑیاں لے کر ان کو سوزوکی گاڑیوں پر بٹھا دیا۔ انہی کے دور حکومت میں یکم جنوری1986ء کو بھارتی فوج سیاچن گلیشیئر پر 14 میل پاکستانی حدود میں گھس گئی۔ جونیجو کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو 2 دسمبر1988ء سے6 اگست1990ء اور پھر19 اکتوبر1993ء سے پانچ نومبر1996ء تک اس ملک کی وزیر اعظم رہیں۔ اگر منظور وٹو کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا عرصہ شامل کرنے اور ان کی سندھ حکومت بھی شمارکی جائے جو2008ء سے آج تک جاری ہے توان کا عہد اقتدار خاصا طویل بنتا ہے۔ اس پس منظر میں تحریک انصاف کا ایک سال پی پی پی کو بھاری کیوں محسوس ہورہا ہے؟خود پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنی پندرہ سال سے زائد وزارت اعلیٰ کے دورمیں کس قابل فخر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟
میاں نواز شریف ، جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں پہلے پنجاب کے وزیر خزانہ اور پھر9 اپریل 1985ء سے 16 اگست1990ء تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہے ، اس کے بعد6 نومبر1990ء سے18 اپریل1993ء تک اور اس کے بعد19 فروری1997ء سے12 اکتوبر1999ء تک اور اب پانچ جون2013ء سے تا حال پاکستان کے وزیر اعظم ہیں،اگر تاریخی حقائق دیکھے جائیں تو شریف برادران 1979ء سے1993ء ( غلام حیدر وائین مرحوم کی وزارت اعلیٰ کا عرصہ ملا کر 9 سال پنجاب میں برسر اقتدار رہے ) اوراگر 2008ء سے آج 2014ء تک چھ سال کا عرصہ شامل کیا جائے تو کل مدت پندرہ سال بن جاتے ہیں۔ انہوں نے اس صوبے کے عوام کی تعلیم، صحت، امن و امان کی صورت میں کون سا کارنامہ انجام دے دیا ہے کہ انہیں عمران کی خیبر پختونخوا کی ایک سالہ حکومت ہضم نہیں ہورہی ؟ آج پنجاب سمیت ملک بھر میں90 فیصد سے زائد لوگ مفلوک الحال ہیں، بیروزگاری کی انتہا ہے ، خود کشیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں ، بے گھروں کی تعداد لاکھوں سے کروڑوں تک ہو چکی ہے ، عدالتوں اور تمام سرکاری دفاتر میں عوام ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، قبضہ گروپوں اور معاشرے کے ظالموں کے سامنے عوام لا چارہیں ، لوگ شام کے بعد سڑکوں پرلوٹے جا رہے ہیں۔ جناب، تبدیلی کا تازیانہ صرف تحریک انصاف کے لیے ہی کیوں ؟جسے حکومت کرتے ایک سال بھی پورا نہیں ہوا اور جس کی حکومت کو ڈانواں ڈول کرنے کے لیے فارورڈ بلاک کا گھسا پٹا طریقہ اختیارکیا جارہا ہے؟