آخر کار میجر عامر مذاکراتی عمل سے باہر نکل گئے۔ وہ روزاول ہی سے اس بات کے حامی تھے کہ مذاکرات نہ میڈیا پر ہوتے ہیں‘ نہ ان کی تفصیل منظرعام پر لائی جاتی ہے اور نہ ہی مذاکراتی ٹیموں کے اراکین ‘ انتخابی مہم چلانے والے سیاستدانوں کی طرح‘ ہر وقت حالت تقریر میں رہتے ہیں۔سرکاری ٹیم کے اراکین تو فوراً ہی اپنی آبرو بچا کر خود نمائی کے اس کھیل سے باہر نکل گئے تھے۔ پہلے یہ کام خاموشی سے عرفان صدیقی نے کیا۔وہ خود میڈیا کے آدمی ہیں۔ کمیٹی کی رکنیت سے پہلے اکثر ٹاک شوز میں نظر آتے تھے۔ لیکن جب طالبانی کمیٹی کے اراکین نے میڈیا پر جلوہ نمائی کی انتہا کر دی اور ہر ٹی وی ٹاک میں ‘اتنے اہتمام سے شریک ہونے لگے کہ ایک ٹاک شو سے نکل کر دوسرے میں گھس جاتے اور اکثر یوں ہوتا کہ جو چینل بھی لگائو‘ اس پر طالبان کی مذاکراتی ٹیم کا ایک نہ ایک چہرہ بیٹھا نظر آتا۔ یوں بھی ہوا کہ چار شو بیک وقت چل رہے ہیں‘ تو ایک ہی مذاکراتیا‘ان سب پر بیٹھا‘ سامعین کی آنکھوں میں ٹھنڈک اور کانوں میں رس گھول رہا ہوتا۔ جب میں نے اس پر ایک کالم لکھا‘ تو معلوم ہوا کہ ان پر کچھ دبائو آیا ہے۔ لوگوں نے انہیں احتیاط اور شرم سے کام لینے کے مشورے دیئے۔میجر عامر کا ٹیلیفون آیا کہ میں روزاول ہی سے‘ اس خودنمائی کے حق میں نہیں تھا۔ ان بزرگوں سے بہت بار کہا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ رو زانہ بیان بازی کے نتیجے میں آپ بہت سی باتیں ایسی کہہ جاتے ہیں‘ جن کا مذاکرات پر اثر پڑتا ہے۔ میجر عامر نے اسی دن کہہ دیا تھا کہ میں ایسی پبلسٹی سے ہمیشہ دور رہا ہوں۔ روز میڈیا پر بیانات جاری کرنے والے مذاکرات کاروں سے کسی ٹھوس نتیجے کی امید نہیں کی جا سکتی۔
سکرین سینما کی ہو یا ٹیلیویژن کی‘ اس پر نظر آنے کا شوق بڑے بڑوں کے ہوش اڑا دیتا ہے۔ یہ آئینہ دیکھنے جیسی علت ہے‘ جو بڑے بڑوں کو جوکر بنا دیتی ہے۔ آپ کسی بھی سنجیدہ اور معزز آدمی کو مضحکہ خیز حرکتیں کرتے دیکھنا چاہیں‘ تو چھپ کراس وقت دیکھئے‘ جب وہ اکیلا آئینے کے سامنے کھڑا ہو۔ ہر کوئی اپنے اپنے پسندیدہ اداکار کی نقلیں اتار کردیکھتا اور یہ سمجھتا ہے کہ موقع ملتا‘ تووہ اداکار سے کہیں بہتر کام دکھا سکتا تھا۔ سرکاری ٹیم میں سے توجس کو اپنی عزت پیاری تھی‘ وہ خاموشی سے الگ ہٹ گیا۔ میجر عامربہت پہلے غیرفعال ہو گئے تھے۔ کل انہیں قوم کو بتانا پڑ گیا کہ ''مجھے ان لوگوں کی طرح مت سمجھئے۔ میں ان میں سے نہیں ہوں اور نہ ہی ان جیسا ہوں۔‘‘ میجر صاحب نے بڑے رکھ رکھائو والی‘ محتاط اور باوقار زندگی گزاری ہے۔ مجھے اس کا ذاتی علم ہے کہ جب ٹاک شوز کی یلغار شروع ہوئی‘ تو میجر عامران لوگوں میں سے تھے‘ جنہیں روزانہ دعوتیں موصول ہوتی تھیں۔ وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے رازدان ہی نہیں‘ اہم کردار بھی ہیں اور قومی معاملات پر رائے دینے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ نمودونمائش سے دور رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے پاکستان کی پرائم انٹیلی جنس ایجنسی کے آفیسر کی حیثیت میں‘ ایسے بڑے بڑے کارنامے انجام دے رکھے ہیں ‘ جن کی وجہ سے ملک و قوم بہت بڑے نقصان اور خطرے سے محفوظ رہے۔ کسی قریبی دوست کی محبت میں آ کر ‘ کبھی کبھار کچھ کہنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن اسے ایک مرحوم ادیب کی طرح ہمہ وقت مشغلہ نہیں بنایا۔ میرے یہ مرحوم دوست ‘ہر رسالے میں مضمون نگاری کا شوق ضرور فرماتے۔ اگر مضامین لکھتے لکھتے ہمت جواب دے جاتی‘ تو مراسلہ لکھ ڈالتے۔ انہوں نے کسی بھی ہفت روزہ اور ماہانہ جریدے کے قارئین کو اپنی تحریروں سے محروم نہیں رکھا۔ یوں لگتا ہے کہ ایک موبائل فون کے اشتہار کے ساتھ‘ کرینہ کپور اور مذاکراتی ٹیموں کے اراکین‘ ایک ساتھ ٹی وی چینلز پر نمودار ہوئے ۔ اس دن سے لے کر آج تک‘ کرینہ کپور اور ان بزرگوں کے درمیان مقابلہ جاری ہے۔ایک چینل لگائو‘ تو کوئی نہ کوئی مذاکراتیا ‘حسن خطابت کا مظاہرہ کرتا نظر آتا ہے اور چینل بدلو‘ تو کرینہ کپور‘ اپنے عشوہ و ادا کے ساتھ موبائل فون بیچتی نظر آتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کرینہ کے پاس‘ حسن و جمال اور بیچنے کو موبائل ٹیلیفون ہے۔ مذاکراتیوں کے پاس‘ دونوں میں سے ایک بھی نہیں۔ لیکن ناظرین کو زیادہ سے زیادہ اپنی طرف متوجہ رکھنے کے معاملے میں مذاکراتیے ‘کرینہ کپور سے آگے بڑھنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے‘ جب لائوڈ سپیکر ایجاد ہوا تو ہمارے مولوی حضرات نے اسے حرام قرار دے دیا۔ جب خود اس کا استعمال شروع کیا‘ تو اتنا مزہ آیا کہ مائیک سے دوری برداشت نہیں ہوتی۔ کرشن نگر کے ایک مولوی صاحب تو ایسے تھے کہ سونے سے پہلے‘ مائیک بھی بستر کے تکیے کے نیچے رکھ لیتے۔ کئی بار ایسا ہوتا کہ مائیک کا سوئچ بند کرنا بھول جاتے۔ وہ شب‘ اہل محلہ کے لئے کبھی تفریح اور کبھی بیزاری کا ذریعہ بن جاتی۔ ان کے خراٹے بیزارکن ہوتے۔ لیکن جب وہ نیند میں خودکلامی کرتے‘ تو ایسے ایسے جملے بولتے ‘ جو فلمیں سنسر کرنے والے کاٹ کر‘ اپنے لئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ البتہ چند لفظ ‘ میں سنسر کا خوف کئے بغیر لکھ سکتا ہوں۔ ''اوئے! تینوں صبر نئیں آندا؟ اج فیر بوہتا کھا گیاایں۔‘‘ ظاہر ہے ‘ حد سے زیادہ خوش خوراکی سے تکلیف ہونے پر‘ وہ اپنی ڈانٹ ڈپٹ کر رہے ہوتے۔ آج بھی پاکستان میں لائوڈ سپیکر کا سب سے زیادہ فی کس‘ استعمال مولوی حضرات کرتے ہیں۔ اگر قانون کی خلاف ورزیوں کا سروے کیا جائے‘توسرفہرست لائوڈ سپیکر کے استعمال کے قوانین کی ‘خلاف ورزیاں آئیں گی۔
جب کیمرہ ایجاد ہوا‘ تو سب سے پہلے مولوی حضرات نے اسے حرام قرار دیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد‘ فٹ پاتھوں پر‘ برقع پوش کیمروں کے سامنے‘ مولوی حضرات ہی پوز بناتے دکھائی دینے لگے۔ ٹیلی ویژن آیا‘ تو اس کی شدومد سے مخالفت کی گئی۔ اسے حرام قرار دیا گیا۔ یہاں تک کہ شرک کا فتویٰ بھی دے ڈالا۔ آج بھی بہت سے علمائے کرام‘ کیمرے کے سامنے آنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن ایسے عالمان دین کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ جن مولوی صاحب کوٹیلیویژن والے خود نہیں بلاتے‘ وہ ان کے جاننے والوں کی سفارشیں تلاش کرتے ہیں۔ ٹاک شو میں بیٹھنے کا دعوت نامہ حاصل کرنے کے لئے ‘کیا کیا جتن کئے جاتے ہیں؟ کسی شو کے اینکر سے پوچھ کر دیکھ لیجئے گا۔ بعض تو کیمرہ مین کو ہدایات دے رہے ہوتے ہیں کہ مجھے اس زاویئے سے ایکسپوز مت کیجئے گا۔ طالبان کٹڑ عقیدے کے لوگ ہیں۔ لیکن ویڈیو بنانے سے وہ بھی نہیں چوکتے۔ ان کی ویڈیوز‘ انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ جس روز کوئی اچھا ٹی وی پروگرام نہ ہو‘ نیٹ لگا کر بیٹھ جایئے۔
طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں مولانا سمیع الحق‘ پروفیسر ابراہیم اور مولانا یوسف شاہ‘ مذاکرات کار بنتے ہی ‘ ٹیلیویژن چینلز پر ایسے حملہ آور ہوئے کہ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ سارے روشن چہرے غائب ہو گئے اور سکرینوں پر‘ ان معزز حضرات نے قبضہ کر لیا۔ اگر کسی میں ہمت ہے‘ تو جائزہ لے کر موازنہ کریں کہ جس دن سے مذاکراتی ٹیمیں بنی ہیں‘ اس دن سے اب تک‘ ٹیلیویژن پر زیادہ وقت وزیراعظم کو ملا ہے یا پروفیسر ابراہیم کو؟ مولانا سمیع الحق زیادہ وقت جلوہ افروز رہے ہیں یا صدر پاکستان؟ ٹی وی پر زیادہ سے زیادہ وقت لینے کے معاملے میں اگر کوئی ان دونوں کو ناک آئوٹ کر سکتا ہے‘تو وہ ہمارے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف ہیں۔ معذرت خواہ ہوں‘ کرینہ کپور کا موازنہ‘ مذاکراتیوں سے کر دیا۔ جانتا میں بھی ہوں کہ اصل حقدار کون ہے؟
میجر عامر‘ کچھ دن مزید دل پہ جبر کر کے خاموش رہ سکتے تھے۔ لیکن ان کے صبر پر آخری ضرب اس وقت لگی‘جب پروفیسر ابراہیم نے ہمارے وزیراعظم کو دھمکی دی کہ ''مشرف ملک سے باہر گئے‘ تو وزیراعظم کا گریبان پکڑیں گے۔‘‘ حد ہو گئی۔ ایک صحافی نے محض ایک شک کی بنیاد پر‘ آئی ایس آئی کے سربراہ سے استعفے کا مطالبہ کر دیا‘ تو طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک معمولی رکن نے‘ ہمارے وزیراعظم کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی دھمکی دے دی۔کہاں باغیوں کے چند گروپوں کی مذاکراتی ٹیم کا نامزد رکن؟ اور کہاں 18کروڑ پاکستانی عوام کا منتخب وزیراعظم؟ اور وہ بھی نوازشریف۔ جو میجر عامر کی دکھتی رگ ہے۔ وہ نوازشریف سے دیوانگی کی حد تک پیار کرتے ہیں۔ ان کی خاطر میجر عامر‘ بڑے بڑے چیلنج قبول کر کے‘ سرخرو ہوئے ہیں۔ نوازشریف کی محبت میں اکثر اوقات وہ‘ پیپلزپارٹی کے لئے کافی سخت زبان استعمال کر جاتے تھے‘ جو ظاہر ہے مجھے بری لگتی۔ لیکن ان کی ایک اپنی سوچ ہے۔ اپنا ڈھب ہے۔ اپنا مزاج ہے۔ انہوں نے جب سنا کہ پروفیسر ابراہیم جیسا آدمی 18کروڑ عوام کے منتخب لیڈر کے گریبان پر‘ ہاتھ ڈالنے کی دھمکی دے رہا ہے‘ تو برداشت نہ کر پائے اور اس مذاکراتی کمیٹی سے علیحدگی اختیار کر لی‘ جس کا ادنیٰ رکن‘ 18 کروڑ عوام کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی دھمکی دیتا ہے۔یاد رہے ‘ طالبانی کمیٹی کے سربراہ ‘مولانا سمیع الحق ہیں۔ اس نسبت سے‘ میں نے عام رکن کو‘ ادنیٰ رکن لکھ دیا۔ جس سے خاص فرق نہیں پڑتا۔