تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     30-04-2014

یہ شہیدوں کا دن ہے‘ شہیدوں کا

جنون و جبر کے جبڑوں سے 
جہاں جہاں زندگی آزاد ہے 
وہ شہیدوں کی سخاوت میں زندہ ہے 
اور ہمیشہ زندہ رہے گی
یہ 1981ء میں لکھی گئی ایک آزاد نظم ہے ۔ اس کے بعد کبھی فرصت ہی نصیب نہ ہو سکی۔ رفتہ رفتہ یہ ادراک بھی ہوا کہ موزونیٔ طبع محدود ہے اور نثر ہی کو کفایت کر سکتی ہے ۔ شہید کی تعریف متعین ہے۔ ''لمن یقتل فی سبیل اللہ‘‘ جو اللہ کی راہ میں مارا گیا۔ 
اب ایک سوال ہے : وہ جو وطن کے لیے مارے گئے؟ راسخون فی العلم پر ہے کہ حکم لگائیں ۔ اخبار نویس کا گمان یہ ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پہ ہوتا ہے ۔ پاکستان کا سپاہی اس فوج کا حصہ ہے ، جو 27رمضان المبارک کو اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی قوم کے لیے قتل کیا گیا۔ اس کے شہید ہونے میں کیا شبہ ہے ۔ہوتا ہے ، مگر ہوتاہے ۔ سیّد منوّر حسن نے قرار دیا کہ شہید بس حکیم اللہ محسود ہے ۔ 
غالباًدس لاکھ افراد امیرِ جماعتِ اسلامی کی رائے سے فوراً ہی متاثر ہوجاتے ہیں۔ممکن ہے ، اس سے زیادہ،کہیں زیادہ۔ان کی رائے کو مکمل طور پر اگروہ قبول نہ کریں تو کسی نہ کسی درجے میں لازماً۔ خیر ، یہ ان کا مسئلہ ہے ۔ اپنے موقف پر قائم رہنا چاہیں تو شوق سے رہیں ۔ تاویل کرنا چاہیں تو تاویل فرمائیں ۔ یہ بھی نہیں تو اللہ سے دعا کریں کہ یہ واقعہ بیس کروڑ انسانوں کے حافظوں سے محو ہو جائے ۔اگر وہ پسند کریںتو ایک اور دعا بھی ممکن ہے ؎ 
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب 
چھین لے مجھ سے حافظہ مرا
اس اندازِ فکر میں تنہا وہ بہرحال نہیں ۔ گروہ کے گروہ ہیں اور عہدِ اوّل کے بعد، ہمیشہ سے چلے جاتے ہیں ۔ آخری درجے کے انتہا پسند وہ خارجی تھے ، حضرت علی کرم اللہ وجہ کو جنہوں نے شہید کیا۔ اس پر ان کے قلوب نہ صرف مطمئن تھے بلکہ شاد۔ تاریخِ انسانی کے کامل ترین نمونۂ عمل اور سب سے معتبر معلّم ﷺ کو دنیا سے اٹھے ، ابھی تین عشرے ہی گزرے تھے ۔ پھر اس میں تعجب کیا ہے کہ آج بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں ۔ 
لگ بھگ چھ برس ہوتے ہیں ، خوازہ خیلہ میں پاک فوج کے ایک کرنل سے ملاقات ہوئی ۔سوات کا آپریشن شروع ہونے میں ابھی چند دن باقی تھے ۔ جواں سال باریش آدمی سے پوچھا کہ کن مسائل کا انہیں سامنا ہے ۔ کچھ زیادہ تو اس نے عنایت نہ کی۔ حیرت ہوئی کہ بظاہر وہ ایک یکسو آدمی ہے ۔ ایک بے پناہ اداسی یکایک اس کے پیکر میں پھوٹ پڑی ، جس طرح ایک فراموش کردہ محبت کی کامل وفور سے لوٹ آنے والی یاد ۔ تب اس نے یہ کہا : کشمیر سے جب میں سوات کے لیے روانہ ہوا تووالدِ محترم سے دعا کی درخواست کی ۔ انہوں نے جواب یہ دیا ''تمہارے لیے دعا کروں گا اور ان کے لیے بھی‘‘ 
یتیم شہید ۔کسی بھی قوم کی تاریخ میں شاید ہی ایسے شہید کبھی اٹھے ہوں گے ، آبادی کے ایک بڑے طبقے نے ، مذہبی طبقات نے جنہیں مسترد کر دیا ہو ۔ وہ ایک ا ور سیاق و سباق تھا۔ احساس کی ایک اور طرح کی لہر، عہدِ رواں کے شاعر نے جب یہ کہا تھا: 
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو 
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا، نہ دماغ 
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاکِ نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا 
جی نہیں ، جی نہیں ، ہرگز نہیں ، رزق خاک نہیں ہوتا۔ شہید کا لہو رزقِ خاک کبھی نہیں ہوتا ۔ کوئی چیز اللہ کی زمین پر اس سے زیادہ معتبر نہیں ۔ ہو سکتی ہی نہیں ۔ فرمان یہ ہے کہ شہید مرتے ہی نہیں ۔ ابد الآباد تک زندہ رہتے ہیں ۔ فرمایا اس قدر زندہ کہ انہیں رزق دیا جاتاہے ۔ 
شہید کا مرتبہ ایسا ، اس قدر بلند کیوں ہے ؟ اس لیے کہ زندہ رہنے کی تمنّا انسان کی سب سے بڑی تمنا ہے ۔ انسان ہی نہیں ، تمام جاندار بہرطریق، بہرحال اس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ کتاب میں لکھا ہے ''تمام زندگیوں کو ہم نے بخلِ جان پر جمع کیا ہے‘‘ کسی بھی چیز سے آدمی دستبرداری قبول کر سکتاہے مگر حیات سے نہیں ۔ موت کا آرزومند وہ کبھی نہیں ہوتا۔ہر چیز لٹا دے گامگر زندگی نہیں۔
اب وہ کیسا آدمی ہے ، زندگی کو ہتھیلی پر رکھے، جو رزم گاہ کا رخ کرتاہے ۔ سوچ سمجھ کر ، آمادگی اور سرخوشی کے ساتھ ،اللہ کی راہ میں قربان کر ڈالنے کے لیے ؟ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے ۔ ایثار کے باب میں قانون یہ ہے کہ جنّت حاصل کرو، خواہ آدھی کھجور ہی سے کیوں نہ ہو ۔تو اپنی کل متاع اس کی بارگاہ میں پیش کرنے والے کا اجر کیا ہوگا ، جس کی صفتِ رحم اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے؟ مالی ایثار کے عوض ستّر گنا اور تعداد نہیں ، یہ محاورہ ہے ، بے حساب ، بے حساب۔ پھر جیتے جاگتے لہو کا ثمر کیا؟ ملّا کو چھوڑ یے۔ بیسویں صدی کے علمی مجدّد اقبالؔ نے یہ کہا تھا ؎ 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی 
دہشت گرد شہید نہیں ہوتے ۔ خدا کی قسم ہرگز نہیں ہوتے ۔ اس لیے کہ مطلوب اقتدار ہے ، جاہ و حشم ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ بدترین انسانی کمزوری ہے ، فضیلت نہیں ، ہرگز نہیں اور قطعاً نہیں ۔ سیاست الگ ۔ غور کیجیے تو اس میں آرا کا اختلاف اصلاًکچھ زیادہ نہیں ۔ عساکر کو سیاست سے الگ رہنا چاہیے‘ وگرنہ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین افواج میں سے ایک ہے ۔ فقط تربیت ہی نہیں ؛اگرچہ وہ بھی اہم ہے۔ فقط روایات ہی نہیں ؛اگرچہ وہ بھی اہم ہیں ۔ فقط یہ نہیں کہ وہ ملک کا جدید ترین ادارہ ہے ، ٹیکنالوجی میں اور حسنِ انتظام میں سب سے بہتر۔ اس کی کار آفریں ، کار کشا ، کار ساز قوّت مگر شہادت کے فلسفے میں پوشیدہ ہے ۔ دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے ، عہدِ قدیم میں جینے والے ،قبائلی عہد کے اسلام کو ماننے والے ، بے لچک علماء اور ان کے متاثرین ، قاتلوں کا دفاع کرتے ہیں تو شہادت کے تصوّر ہی پر حملہ آور ہوتے ہیں ۔ مقصود غالباً یہ ہوتا ہے کہ قوم کو کنفیوژن کا شکار رکھا جائے ۔ کیا وہ اس میں کامیاب رہے ؟جی نہیں ، بالکل نہیں ۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اگرچہ کنفیوژن کا شکار ہے ۔ بلا استثنا ہر سروے مگر یہ بتاتا ہے کہ ملک کا سب سے مقبول ادارہ مسلّح افواج ہے۔ جنرل کیانی سے میں نے پوچھا: کتنے فیصد؟ بولے: سروے کرنے والوں نے یہ سوال پوچھنا اب چھوڑ دیا ہے ۔ 
جی ایچ کیو میں آج یومِ شہداء ہے ۔ چار برس ہوتے ہیں ، ایک بار یہ ناچیز شریک ہو اتھا۔ تمغے جب تقسیم کیے جا چکے ، نغمے جب گائے جا چکے تو شہدا کی مائوں نے حالِ دل کہا ۔ ان میں ایک پشتون خاتون بھی تھی ۔ پشتو میں اس نے بات کی ۔ دل تو پہلے ہی پگھل چکے تھے ۔ اس نے جب یہ کہا ''میرے اگر سات بیٹے بھی ہوتے توان سب کو قربان کردیتی اور اس پر فخر کیا کرتی‘‘ توسبھی کے آنسو پھوٹ بہے ۔ کہیں کہیں ، کسی کسی قطار سے سسکیوں کی آوازیں بھی ۔ایک اور طرح کے آنسو ۔ بچھڑنے والوں کا غم مگر امید اور آرزو بھی ۔ ایسی بلند آرزو کہ ستاروں کو چھو لے ۔ اس دن محسوس ہوا کہ شہید ہوتاکیا ہے : 
جنون و جبر کے جبڑوں سے 
جہاں جہاں زندگی آزاد ہے 
وہ شہیدوں کی سخاوت میں زندہ ہے 
اور ہمیشہ زندہ رہے گی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved