دُنیا اب تک اِس گمان کے سائے میں جی رہی ہے کہ سوچنا تو بہت دُور کی بات ہے، ہم پاکستانیوں کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ سوچنا ہوتا کیا ہے! یہ بھی دُنیا والوں کی خام خیالی ہے۔ کوئی کیا جانے کہ زندگی گزارنے کے کتنے ''پیرا ڈائمز‘‘ ہوتے ہیں اور ہم نے کیسے کیسے ''پیرا ڈائمز‘‘ متعارف کرائے ہیں۔
کتنے کم نظر ہیں وہ جو ہم پر تن آسانی کے الزامات عائد کرتے ہیں۔ تن آسانی کیا ہوتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ آسانی کی خواہش اور اُس کے حصول کی کوشش۔ اِس کسوٹی پر پرکھیے تو بیشتر اقوام ہم سے کہیں زیادہ تن آسان ثابت ہوں گی۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی پیش رفت کیوں یقینی بنائی جاتی ہے؟ صرف اِس لیے کہ جینا زیادہ سے زیادہ آسان ہوجائے۔ اب اگر ہم کسی ٹیکنالوجی یا نظریے کے بغیر اپنی زندگی میں آسانیاں پیدا کرتے جارہے ہیں تو اہلِ جہاں کو پریشانی لاحق ہے کہ یہ لوگ آگے کیسے نکل رہے ہیں! صرف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ دُنیا والے ہم سے کُڑھتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آسانیاں تلاش کرنے پر ہمیں تن آسانی کا طعنہ کیوں دیا جاتا ہے؟
ایک صاحب نے اپنے مکان مالک سے شکایت کی کہ ہر کمرے کی چھت کا بُرا حال ہے۔ بارش ہوتی ہے تو ہر چھت ٹپکتی ہے، گھر میں پانی بھر جاتا ہے۔ اور یہ کہ اِس حالت میں مُرغیاں بے چاری ڈوب جاتی ہیں۔ مکان مالک نے صائب مشورہ دیا کہ ایسا ہے تو بطخیں پال لو جو ڈوبتی نہیں!
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ ہم نے جب یہ دیکھا کہ حالات کے پانی میں ہمارے مفادات کی مُرغیاں ڈوبی جارہی ہیں تو اپنے آپ سے اور حالات سے زیادہ اُلجھنے کی بجائے بطخیں پالنا شروع کردیا۔ حالات کو شکست دینا ہمارے بس کی بات تھی نہ ہے۔ مگر خیر، مُرغیوں کو بخش کر بطخوں کو اپنانا تو ہمیشہ ہی ہمارے لیے قابل عمل آپشن ہوسکتا ہے۔
ہم پاکستانیوں نے اہلِ جہاں کو بتایا ہے کہ جب مشکلات بڑھ جائیں تو اُن سے نفرت نہیں، محبت کرنی چاہیے۔ یہی بہترین ''دستیاب آپشن‘‘ ہے۔ تجزیہ کار تو خدا جانے کیا کیا کہتے پھرتے ہیں۔ اُن کی سُنتا کون ہے؟ اور کوئی کیوں اُن کی باتوں پر دھیان دے؟ اگر اُن کی باتوں پر دھیان دیتے ہوئے زندگی گزاری جائے تو دو دن میں انسان کا تیا پانچا ہوجائے۔ بھاری بھرکم الفاظ کی مدد سے وہ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں کہ چند جُملے سُن کر عام آدمی کے حواس منتشر ہونے لگتے ہیں اور وہ مَرعُوبیت کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
ہم ہر مشکل کو گلے لگاتے ہیں۔ کیوں نہ لگائیں؟ کیا ضروری ہے کہ جن مشکلات کو سبھی لات مار کر دور کرتے ہیں ہم بھی اُن سے نفرت کا اظہار کریں؟ آخر کو مشکلات کی بھی تو عزتِ نفس ہوتی ہے! ایک زمانے سے ہمارا طور یہ ہے کہ جن مشکلات کو لوگ گلے لگانے سے کتراتے ہیں ہم اُنہیں بخوشی مَدعو کرکے گلے لگاتے ہیں۔ ہر نئی پریشانی کو ہم امکانات کی ایک نئی دُنیا تصور کرتے ہیں اور پھر اُس دُنیا میں بسنے کا ایسا اہتمام کرتے ہیں کہ دُنیا حیران ہو جاتی ہے۔ یوں ہمیں مکان بدلنے کا خیال نہیں آتا یعنی مُرغیوں کے ہاتھوں مجبور ہو رہنے کی بجائے بطخوں کو اپناتے جاتے ہیں۔ اصغرؔ گونڈوی نے خوب کہا ہے ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دُشوار ہو جائے!
دُنیا آسانیاں ڈھونڈتی رہتی ہے، ہم مشکلات کو تلاش کرتے ہیں۔ جب اچھی خاصی مشکلات جمع ہوجاتی ہیں تو ہم اُن میں سے اپنے لیے آسانیاں کشید کرتے ہیں۔ لوگ ہمیں عبث ہی تن آسان کہتے ہیں۔ ہمیں کب تن آسانی یا آسانی سے پیار ہے؟ اگر کچھ دن سُکون سے گزر جائیں تو طبیعت میں عجیب سی بے چینی انگڑائیاں لے کر بیدار ہوجاتی ہے۔ کوئی حادثہ نہ گزرے تو دِل اندیشوں میں گِھرا رہتا ہے۔
دُنیا بھر میں لوگ حالات کے مطابق تبدیل ہو رہنے کو زندگی کا ایک بنیاد مقصد گردانتے ہیں۔ ہم پر الزام ہے کہ ہم حالات کے مطابق خود کو تبدیل نہیں کرتے۔ اِس الزام سے بھی اہلِ جہاں کی کوتاہ بینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ حالات سے مطابقت رکھنے والے سانچے میں ڈھلنے کی بات ہو تو ہم سے بڑھ کر کون ہے؟ ہم خود کو حالات کے مطابق تبدیل ہی تو کرتے آئے ہیں۔ جب آسانیاں تھیں تب زندگی کو آسان بنا لیا تھا۔ مشکلات پیدا ہوئیں تو زندگی کو مشکل بنا ڈالا۔ حالات سے مطابقت رکھنا اور کیا ہوتا ہے؟ لوگ آسانیاں تلاش کرنے کا طعنہ تو دیتے ہیں مگر یہ نہیں دیکھتے کہ ہم عملاً مشکلات کی تلاش میں رہتے ہیں کیونکہ یہ آسانی سے مل جاتی ہیں۔ زندگی کے بازار میں آسانیوں کے اسٹالز پر تو بھیڑ چَھٹنے کا نام نہیں لیتی۔ جب سبھی آسانی کے دلدادہ ہوں تو اُس تک پہنچنا انتہائی دُشوار ہوتا ہے۔ ایسے میں بہترین آپشن یہ ہے کہ مُشکلات کے اسٹالز سے خریداری کی جائے۔ اور ہم ایسا ہی کر رہے ہیں کیونکہ مشکلات تک آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے!
دُنیا والے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ سوچنے اور لکھنے والے اگر ہمیں سمجھنے کی کوشش کریں تو حیران رہ جائیں۔ ہم نے سوچنے کا نیا ڈھنگ اپنایا ہے۔ یہ ڈھنگ ہے ہی اِتنا نرالا کہ لوگ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید ہمیں سوچنا نہیں آتا! کسی بھی ملک میں چلے جائیے، کسی بھی معاشرے پر نظر دوڑائیے، سوچنے کے حوالے سے ایک دوڑ سی دِکھائی دیتی ہے۔ خدا جانے لوگوں کو کون سے ایوارڈ جیتنے ہیں کہ ہر وقت سوچتے رہتے ہیں اور سوچے ہوئے پر عمل کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ ہم نے سوچنے کے عمل کو اِتنے پردوں میں لپیٹ دیا ہے کہ لوگ ایک نظر ڈال کر یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید ہم ''بے فِکری‘‘ سے جی رہے ہیں۔ دباؤ قبول کئے بغیر زندگی بسر کرنے کا یہ انداز ہمارا وضع کردہ ہے۔ اور اِس نئی وضع پر ہم جتنا بھی ''فخر‘‘ کریں کم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ دو ڈھائی سو سال بعد عمرانیات کے ماہرین غور کریں تو کچھ اندازہ لگا پائیں کہ پاکستانی قوم طرح طرح کی مشکلات میں گِھر کر کیسی آسان سی زندگی بسر کرتی تھی۔ یہ بات شاید سو سال بعد تسلیم کی جائے کہ جو خرابیاں پاکستان جیسے معاشروں میں پائی جاتی تھیں وہ ہر ترقی یافتہ معاشرے میں بھی تھیں مگر خاصی مختلف ہیئت کے ساتھ اور قدرے ڈھکے چُھپے انداز سے۔
اہلِ جہاں نے خوش ہونے کو کامیابی سے مشروط کر رکھا ہے۔ ہم ایسے سنگ دِل نہیں کہ کامیابی ملنے تک دِل کو ترسنے اور تڑپنے کے لیے چھوڑ دیں۔ ہم نے ناکامیوں سے بھی فتح کا جشن کشید کرنے کا ہُنر سیکھ لیا ہے۔ واضح رہے کہ خود سیکھا ہے، کسی نے سکھایا نہیں۔ کسی اور قوم کو یہ ہُنر آتا ہو تو کسی کو سِکھائے! اور ذرا اللہ کا کرم تو ملاحظہ فرمائیے کہ اپنے لیے یہ شاندار طرزِ زندگی وضع کرنے پر ہم نے کبھی غرور نہیں کیا!
حاصلِ کلام و کالم یہ ہے کہ پریشانیوں، الجھنوں اور مشکلات سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اِن سے محظوظ ہونے کے ہُنر میں کمال حاصل کیجیے۔ گھر میں پانی بھر جائے تو مُرغیوں کو بچانے کی فکر میں غلطاں رہنے سے بہتر یہ ہے کہ بطخیں پالی جائیں جو تیر کر ہمیں بحرِ افسوس میں غوطہ زن ہونے سے محفوظ رکھیں! پریشان کن حالات میں بہترین دستیاب آپشن اِسی نوعیت کے ہوا کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ خوش دِلی، مُسکراتے ہوئے کرنا ہے۔ قمر جمیلؔ کہہ گئے ہیں ؎
اپنی ناکامیوں پہ آخرِکار
مُسکرانا تو اختیار میں ہے!