عمران خان نے قریباً ایک سال بعد سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری پر الزام لگایا ہے کہ 2013ء کی انتخابی دھاندلی میں وہ بھی شریک تھے۔یہی بات میں نے انتخابات سے پہلے لکھی تھی۔ اس طرح کے سچ لکھنے کی پاداش میں‘ جج صاحب کی طرف سے مجھ پر بہت سی مہربانیاں کی گئیں۔ ان کے بیٹے ارسلان افتخار کے کیس میں جو کچھ کیا گیا‘ اسے عوام کے سامنے لانا آسان کام نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے اہلکار اور میڈیا میں‘ ان کے کارندے‘ ہر اس شخص کے درپے آزار ہو جاتے تھے‘ جس کی طرف افتخار چوہدری اشارہ کرتے۔ بطور چیف جسٹس انہیں جو لامحدود اختیارات حاصل تھے‘ ان میں سب سے موثر اور تباہ کن ہتھیار ‘ توہین عدالت تھا۔ اس کی وجہ سے عدلیہ کے بارے میں سچ لکھنا بھی جرم تھا۔ غصے میں آئے ہوئے جج صاحب‘ اگر مزہ چکھانے پر تل جاتے‘ تو کوئی قانون ان کے ہدف کی مدد نہیں کر سکتا تھا‘ خواہ وہ ملک کا وزیراعظم ہی کیوں نہ ہو؟ جب افتخار چوہدری نے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے نکالا اور بابر اعوان کو ان کے واحد ذریعہ‘ روزگار سے محروم کر کے گھر بٹھا دیا‘ تو اس وقت میرے ذہن میں آیا تھا کہ چوہدری صاحب کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے ''جگا جج‘‘ کا خطاب پیش کروں۔ مگر میرے سامنے یوسف رضا گیلانی اور بابر اعوان جیسی اہم شخصیات کے انجام تھے اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ جگا صاحب نے‘ اپنے کارندوں کو مجھے سبق سکھانے کی ہدایات کر رکھی تھیں اور انہیں‘میری کمزوریاں تلاش کرنے پر مامور کر دیا تھا۔چوہدری صاحب نے صحافت میں‘ بہت سے کارندے چھوڑ رکھے تھے۔ زیادہ توخود ہمت نہ کر سکے مگر ایک ''میں صحافی‘‘ اپنے چیلوں کے ساتھ مجھ پر اکثر حملہ آور ہوتا رہتا۔
میڈیا کے حوالے سے پہلے سے‘ زیرسماعت ایک کیس میں اچانک نیا مدعی داخل کیا گیا۔ جس نے مجھ پر آئی بی سے 30لاکھ روپے لینے کا الزام لگایا۔ اس کی خوب خبریں شائع کی گئیں۔ مجھے معلوم تھا کہ سب کچھ ''جگا جج‘‘ کے احکامات پر ہو رہا ہے۔ لیکن میں نے اللہ کا نام لے کر انہی کی عدالت میں پیروی کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ چوہدری صاحب بڑے بڑے شکاروں پر نشانے لگانے میں مصروف تھے۔ اس لئے میرا شکار‘ انہوں نے قدرے فرصت کے وقت پر چھوڑ دیا۔ میری قسمت ساتھ دے رہی تھی۔ چوہدری صاحب نے بے شمار پھڈوں میں ٹانگ اڑا رکھی تھی۔ ٹانگ اڑانے میں سب سے بڑی قباحت‘ یہ ہے کہ صرف ایک ہی اڑائی جا سکتی ہے۔ دوسری اڑانا ممکن نہیں ہوتا۔ کیونکہ دونوں ٹانگیں بیک وقت اڑا دی جائیں‘ تو دھڑام سے زمین پر گرنا پڑتا ہے ۔ اڑانے کے لئے ایک ہی ٹانگ رہ جاتی ہے۔ چوہدری صاحب ایک ٹانگ کہاں کہاں اڑاتے؟ میری باری ہی نہیں آئی۔ ورنہ مجھے یقین تھا کہ وہ میرے کیس میںٹانگ اڑا کر‘ مجھے ضرور ٹانگیں گے۔ وہ اتنے پھڈوں میں ٹانگ اڑا چکے تھے کہ میرے لئے انہیں وقت ہی نہ ملا اور خود چوہدری صاحب کا وقت آ گیا۔ اس عرصے میں مجھے ایک ایسا کالم لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی‘ جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس کالم کے بہت چرچے ہوئے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ کالم چوہدری افتخار کے خلاف ہے۔ جبکہ ایک باخبر صحافی کی حیثیت میں‘ میرے لئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ اتفاقاً کالم اس طرح کا لکھا گیا کہ ہر کسی نے یہی سمجھا‘ چوہدری افتخار کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ خود چوہدری صاحب کو بھی شایدیہی خیال آیا ۔ انہوں نے اپنے حامی ماہرین قانون کی ذمہ داری لگائی کہ اس کالم کی بنیاد پر توہین عدالت کا کیس تیار کریں۔ سب نے غوروفکر اور تحقیق کرنے کے بعد یہی بتایا کہ''اگر نذیرناجی پر توہین عدالت کا مقدمہ قائم کیا گیا‘ تومدعی کو پہلے تسلیم کرنا پڑے گا کہ کالم اس کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ توہین کا سو ال تو بعد میں اٹھے گا۔ پہلے لوگ یقین کر لیں گے کہ کالم میں جس فرضی کردار کا ذکر ہے‘ وہ خود چوہدری صاحب ہیں۔ جو بات نذیر ناجی نے نہیں لکھی‘ وہ آپ خود مان جائیں گے۔‘‘ اس طرح میری جان بخشی ہو گئی۔
گزشتہ روز عمران خان نے جب کھل کر یہ بات کہی کہ 2013ء کے انتخابات کی دھاندلی میں افتخار چوہدری بھی شریک تھے‘ تو مجھے یاد آیا کہ جب چوہدری صاحب نے اس دھاندلی کی ابتدا کی‘ تو میں نے اسی وقت ایک کالم لکھا تھا۔ جس میں صاف بتایا گیا تھا کہ چوہدری صاحب نے انتخابات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم پر سخت دبائو ڈالا کہ وہ انتخابات کو ''شفاف‘‘ بنانے کے لئے سپریم کورٹ سے مدد مانگیں۔ چنانچہ ایک اجلاس بلایا گیا‘ جس کی فرمائشی صدارت خود چوہدری صاحب نے کی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے استدعا ہوئی کہ چیف جسٹس ‘ انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے ان کی مدد کریں۔ جج صاحب نے مہربانی فرماتے ہوئے‘ یہ'' استدعا‘‘ قبول کر لی۔ اس کے بعد فخروبھائی گھر بیٹھ گئے اور انتخابات پر چیف جسٹس کا قبضہ ہو گیا۔ ان کے ماتحت ریٹرننگ افسروں نے کیسے کیسے کمال دکھائے؟ عمران خان تحقیق کریں‘ تو انہیں پتہ چلے گا کہ 35 پنکچر تو چڑی باز نے لگائے تھے۔ اس سے زیادہ پنکچر جگا جج نے بھی لگا رکھے ہیں۔ انتخابی نتائج آنے پر‘ اس وقت کے صدر آصف زرداری نے عمران خان کو فون کر کے بتایا تھا کہ ان کی جیت چرانے کے لئے کس کس نے پنکچر لگائے ہیں؟
میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ افتخار محمد چوہدری نے سٹیل مل کا سودا کیوں ناکام بنایا؟ اس معاملے پر تنازع پیدا ہوا اور چوہدری صاحب نے وکلا کا جو ایک دھڑا بنا رکھا تھا‘ اسے پرویزمشرف پر چڑھا دیا۔ دبائو بڑھا‘ تو پرویزمشرف کو اپنی صفائی میں میڈیا کی مدد لینا پڑی۔ اس وقت انہیں میں بھی یاد آ گیا۔ ورنہ اس سے پہلے وہ جتنے بھی صحافیوں کو ملتے رہے‘ مجھے ان میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ پرویزمشرف نے سٹیل مل کا جو کیس ہمارے سامنے پیش کیا‘ وہ کچھ یوں تھا کہ بیرونی خریدار ‘ حکومت کو 200ملین ڈالر فوری طور پر ادا کریں گے۔ مل کا انتظام ان کے پاس چلا جائے گا۔ نئی انتظامیہ‘ کسی ملازم کو برطرف نہیں کرے گی۔ اربوں روپے کی جو زمین سٹیل مل کی ملکیت ہے‘ وہ اسی کے پاس رہے گی۔ صرف سٹیل مل کا کنٹرول اس کے سپرد ہو گا۔ اس کے ساتھ ہی خریداروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان میں 500ملین ڈالر کی مزید سرمایہ کاری کریں گے۔ لیکن عدالتی فیصلے کے بعد‘ خریدار گروپ نے نہ صرف سٹیل مل کی خریداری کا ارادہ ترک کر دیا اور وہ رقم بھارت میں لگانے کا فیصلہ کیا اور مزید کئی سو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبے بنالئے۔ جس طرح پرویزمشرف نے یہ کیس ہمارے سامنے رکھا تھا‘ اس سے تو یہی اندازہ ہوا کہ جج صاحب نے مالی بحران کے شکار پاکستان کی لاغر کمر پر‘ ناقابل برداشت ضرب لگا دی ہے۔ عدالتی فیصلے کے بعد سٹیل مل کے حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ اب تک حکومت کم و بیش 200ملین ڈالر کے مساوی رقم‘ سٹیل مل کا خسارہ پورا کرنے اور بحالی کے لئے مختص کی گئی مزید رقم کی صورت میں 200ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھا چکی ہے۔ تحریک انصاف کو مہارت اوروسائل دستیاب ہیں۔ عمران خان توجہ دیں‘ تو سٹیل مل کے کیس پر مکمل تحقیق کر کے‘ ایک وہائٹ پیپر شائع کریں کہ چوہدری افتخار کے ایک فیصلے کے نتیجے میں‘ ملک کو کتنا بڑا نقصان اٹھاناپڑا؟ اور کتنے امکانی سرمایہ کار عدالتی مداخلت کے نتیجے میں ختم ہونے والے ایک بین الاقوامی معاہدہ منسوخ ہونے پر‘ پاکستان میں سرمایہ کاری کے کتنے منصوبے ختم کر کے‘ دوسرے ملکوں میں چلے گئے؟ عدالتی امور کو جاننے اور سمجھنے والے ماہرین قانون‘ چوہدری افتخار کے ''یادگار‘‘ فیصلوں کی وجوہ اور ملک و قوم پر ان کے اثرات کا جائزہ لے کرایک تحقیقی رپورٹ مرتب کر سکتے ہیں۔ اگر عمران خان ارادہ کر لیں‘ تو تحقیقی رپورٹ مرتب کرنے کے لئے ابتدائی طور پہ نعیم بخاری‘ بابر اعوان اور اعلیٰ عدالتوں کے ان بیسیوں ججوں کی مدد لے سکتے ہیں‘ جنہیں ''جگا جج‘‘ نے ایسے الزامات لگا کر وقت سے پہلے گھروں میں بھیج دیا‘ جن سے وہ خود بھی محفوظ نہیںتھے۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے پوری ملازمت‘ ایسے جج کی حیثیت میں مکمل کی‘ جو پی سی او کے تحت حلف اٹھا چکا تھا۔ قانون کے ماہرین غوروفکر کر کے معلوم کر سکتے ہیں کہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ایک جج نے اسی الزام میں دوسرے جج حضرات کا کیریئر کیسے تباہ کیا؟ ''جگا جج‘‘ کے دور میں عدلیہ کی جابجا مداخلتوں سے جمہوری نظام کو بارہا خطرہ پیدا ہوا اور منتخب حکومت کو اپنی ساری مدت اقتدار‘ عدم استحکام کی حالت میں پوری کرنا پڑی اور آخری ایام میں 2013ء کے عام انتخابات کو مشکوک بنا کرایک بحران کی بنیاد رکھ دی‘ جو نتائج آنے کے فوراً ہی بعد شروع ہو گیا تھا اور اب بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔