گورنمنٹ کالج‘ جو اب یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے‘ محض ایک عمارت یا ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک احساس کا نام ہے اور جسے لکھتے ہی یہ احساس پوری شدت سے جاگ اٹھتا ہے۔ راوین ہونا بجائے خود فخر کی بات ہے۔ میرے لیے یہ افتخار دو چند اس لیے بھی ہے کہ میرے علاوہ میرے تینوں بیٹے‘ بیٹی اور بہو سب اسی ادارے کے فیض یافتہ ہیں بلکہ میری بہو نسرین آفتاب وہاں پڑھاتی بھی ہیں۔ یہ ایسا زبردست طلسم خانہ ہے جس میں داخل ہوتے ہی قاضی اسلم‘ ڈاکٹر اجمل‘ ڈاکٹر نذیر احمد‘ صوفی غلام مصطفی تبسم‘ قیوم نظر اور کے کے عزیز کی تصویریں آپ کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر لیتی ہیں۔ پھر آگے پیچھے وہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے مظفر علی سید‘ شہزاد احمد‘ حنیف رامے جیسے لوگ اس پر مستزاد اور اس کے بعد بھی کئی کئی دن اسی سرشاری میں گزر جاتے ہیں۔
اگلے روز بخاری آڈیٹوریم کی طرف مشاعرے میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے اوول کے قریب سے گزرتے یاد آیا کہ سردیوں کی دھوپ میں اس کی سیڑھیوں پر بیٹھے رہنا کتنا اچھا لگتا تھا۔ ہر ہفتے مجلس اقبال کی نشست ہوا کرتی جس میں باہر کے اور سینئر شعرا مثلاً انجم رومانی‘ شاد امرتسری اور ناصر کاظمی بھی شرکت کرتے۔ ناصر بیٹھے بیٹھے غنودگی میں چلے جایا کرتے تھے۔ ایک دن جب انہوں نے اپنی یہ غزل سنائی:
چلو کہ برف پگھلنے کی صبح آ پہنچی
خبر بہار کی لایا ہے کوئی گُل پارہ
تو اس سے پہلے انہیں باقاعدہ بیدار کرنا پڑا تھا!
ایک اور سینئر استاد خواجہ منظور حسین تھے جو تنقید نگار بھی تھے۔ مجلہ راوی نے اپنی رونق الگ لگائی ہوئی تھی۔ میری ابتدائی غزلیں اسی میں چھپا کرتیں۔ صوفی صاحب نیو ہاسٹل کے سپرنٹنڈنٹ بھی تھے جبکہ کواڈرینگل (جس کا نام اب کچھ اور ہے‘ شاید اقبال ہاسٹل) کے سپرنٹنڈنٹ میرے دوست اور کلاس فیلو اقبال جعفری کے والد گرامی سید کرامت حسین جعفری ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک بڑا واقعہ یہ ہوا کہ جعفری صاحب کی بیٹی شفقت جنس تبدیل کر کے لڑکا بن گئیں اور اس طرح اقبال جعفری کے بھائیوں میں ایک کا اضافہ ہو گیا!
صوفی صاحب اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کے باکمال شاعر تھے۔ انہی دنوں انہوں نے ہیر کی بحر میں ایک غزل لکھی جس کا مطلع تھا ؎
میری جان یہ شان سبحان اللہ تیرا حسن یوں زیر نقاب چمکے
جیسے شمع قندیل میں ہو روشن‘ جیسے بادلوں میں ماہتاب چمکے
اسی غزل کا ایک اور شعر بھی سن لیجیے ؎
میخوار ہیں سارے اداس بیٹھے سُونی پڑی ہے تیرے بغیر محفل
تو جو آئے تو ساغر و جام چھلکے‘ تو بلائے تو رنگِ شراب چمکے
وہاں فیضؔ صاحب بھی آیا کرتے۔ اب کہیں پڑھا تھا کہ وہ صوفی صاحب سے اپنے کلام میں اصلاح لینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ اس میں عیب کی بھی کوئی بات نہیں کہ صوفی صاحب کم و بیش سبھی کے استاد تھے۔ اس بات کو مزید تقویت اس سے پہنچتی ہے کہ فیضؔ صاحب کے بعد کے کلام میں‘ جب صوفی صاحب انتقال کر چکے تھے‘ فنی اسقام بھی پائے گئے جن میں بعض جگہ وزن کی غلطیاں بھی ملتی ہیں۔
صوفی صاحب اردو اور فارسی دونوں اور قیوم نظر اردو پڑھایا کرتے تھے اور نئے نئے نکتے نکالا کرتے تھے۔ مثلاً غالبؔ پڑھاتے ہوئے جب اس شعر پر پہنچے کہ ؎
پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اس میں سے دوسرا معنی یہ نکالا کہ پہلے تو کسی بات پر ہنسی آیا کرتی تھی لیکن اب دیوانگی کا یہ عالم ہے کہ بے بات بھی شاعر ہنسنے لگ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مصرعے کہ ع
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
کا جو انتہائی دلچسپ مطلب بیان کیا وہ یہاں درج نہیں کیا جا سکتا۔
میں اپنی غزلیں کسی کو نہیں دکھاتا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ شاعر کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے نقائص بھی اپنے ہونے چاہئیں اور شاعری شروع ہی اس وقت کرنی چاہیے جب اس کی سمجھ بوجھ خود بھی کسی حد تک آ جائے کہ راستے میں ٹھوکریں کھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔
مشاعرے کا احوال تو آپ کو عزیزی ڈاکٹر اختر شمار اپنے کالم میں سنا ہی چکے ہیں‘ میرا مقصد تو یہی یاد گیری تھا جو میں نے کسی حد تک کرلی ہے۔ وہیں ناصرؔ بشیر سے ملاقات ہوئی تو ان سے تازہ غزل کی فرمائش کی جس پر ان کی یہ غزل دستیاب ہوئی:
اپنے نقشِ قدم پہ چلنے دے
یا مجھے راستہ بدلنے دے
تو مرا ہاتھ چھوڑ دے اے دوست
عالمِ خواب سے نکلنے دے
کھیلنے دے مجھے کھلونوں سے
دلِ بے تاب کو بہلنے دے
دوستوں سے نہ احتیاط برت
آستینوں میں سانپ پلنے دے
اے مرے آفتاب! دیکھ اِدھر
میری دنیا میں دن نکلنے دے
بند مت کر یہ روزنِ دیوار
زندگی کی کرن نکلنے دے
روشنی بانٹ جگنوئوں کی طرح
ناصرؔ اپنے بدن کو جلنے دے
ابھی ابھی ایک ایس ایم ایس سے معلوم ہوا ہے کہ موصوف کو روزنامہ ''پاکستان‘‘ کے‘ جس میں وہ کالم لکھا کرتے ہیں‘ ادبی ایڈیشن کا انچارج مقرر کیا گیا ہے۔ سو‘ ہمارے بھائی اور دوست مجیب الرحمن شامی نے زندگی میں جو چند اچھے کام کیے ہیں‘ ان میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا!
آج کا مطلع
فقط الفاظ ہیں‘ الفاظ کی تاثیر غائب ہے
کہ سب پتّے ہی پتّے ہیں یہاں‘ انجیر غائب ہے