تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     01-05-2014

بندۂ مزدور کے تلخ اوقات

پنج تارا ہوٹل کے خوبصورت اور آرام دہ ماحول میں جنوبی ایشیا لیبر کانفرنس جاری تھی تو دوسری جانب لاہور پریس کلب کے باہر‘سینکڑوں بھٹہ مزدور اپنا احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے تھے۔دونوں منظر ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں مگر پھر بھی ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔کانفرنس میں شریک سارک ملکوں کے وزرائے محنت اور عالمی ادارۂ محنت کے نمائندگان‘پاکستان میں لیبر ڈیپارٹمنٹ کے اعلیٰ افسران‘ وزراء‘ وزیر اعلیٰ اور میڈیا کے نمائندے‘ سبھی محفل کی رونق بڑھا رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا اور مزدوروں کے حق میں بولے جانے والے وہی روایتی جملے دہرائے‘ جو ایسے موقعوں پر حکمران دہراتے ہیں۔مثلاً ‘مزدوروں کو ان کے حقوق دیئے بغیر حقیقی معاشی ترقی ممکن نہیں۔مزدوروں کے لیے مقام کار پر حالات بہتر بنائیں گے‘مزدوروں کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔وزیر اعلیٰ نے افتتاحی اجلاس میں میٹرو بس سے لے کر دانش سکول تک اپنے ہر کارنامے کا تذکرہ کیا اور کہا کہ یہ سب منصوبے مزدوروں کی بہتری کے لیے شروع کیے گئے ہیں۔
پھر بات ملک سے نکل کر جنوبی ایشیا کے مزدور کے حالات بہتر بنانے کی طرف چلی گئی۔بڑے بڑے دعوے اور بڑے بڑے بیان دیے گئے۔مزدور کے نام پر ہونے والی اس سرگرمی میں اس مزدور کا کہیں ذکر نہیں تھا جو‘پریس کلب کے سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھا حکمرانوں کی نظر کرم کا منتظر تھا۔پنجاب کے ہر شہر سے آئے بھٹہ مزدور اجرت بڑھانے اور حقوق کی آوازاٹھانے کے لیے احتجاجی کیمپ لگا کر بیٹھے تھے۔بھٹہ مزدور بدترین حالات میں کام کرنے والا طبقہ ہے۔جہاں صرف گھر کا ایک فرد ہی نہیں بلکہ اس کا پورا خاندان بھٹہ مالکان کو اپنی غربت کا تاوان دیتا ہے۔ مزدور کی زندگی ختم ہو جاتی ہے مگر یہ تاوان ختم نہیں ہوتا۔ ان کی عورتیں‘ہر طرح کی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں‘مگر ظلم پر آواز نہیں اٹھا سکتیں۔سینکڑوں خاندان ایسے ہیں‘جو بھٹہ مالکان سے چند ہزار قرض لے کر تمام عمر اسے سود کے ساتھ ادا کرتے رہتے ہیں۔ پھر بھی اصل زر جوں کا توں موجود رہتا ہے۔ جس جبر کے ماحول میں بھٹہ مزدور کام کرتے ہیں اس کا اندازہ لگائیے کہ چند برس پیشتر‘غالباً‘2010ء میں بھٹہ مزدوروں کا ایک خاندان شیخوپورہ سے مالکان کی قید سے بھاگ کر یہاں آیا۔ مزید ظلم سے بچنے کے لیے‘انہوں نے حکام سے مدد کی اپیل کی۔پریس کلب کے سامنے آ کر اپنا ڈیرہ لگا لیا۔جس رات وہ بھٹہ مالک کی قید سے فرار ہو کر یہاں پہنچے‘اسی رات‘اس خاندان کی ایک خاتون نے فٹ پاتھ پر بچے کو جنم دیا۔بعدازاں اس کو سروسز ہسپتال لے جایاگیا۔لیکن ان حالات میں بھی وہ خاتون خوش تھی کہ انہیں دن رات ظلم اور تشدد کے ماحول سے نجات ملی۔
پاکستان میں صرف بھٹہ مزدور ہی کیا‘ کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور کے حالات بھی بہت تلخ ہیں۔ایک طرف کام کے اوقات کار طویل ہیں تو دوسری جانب کام کے معاوضے بہت کم۔ اس کے ساتھ کارخانہ میں کام کرنے والے کارکن خطرناک حالات میں کام کرتے ہیں۔آگ لگ جائے تو باہر نکلنے کے راستے بند ملتے ہیں۔ خطرناک کیمیکلز کے ساتھ کام کرتے ہوئے‘انہوں نے کوئی حفاظتی لباس نہیں پہنا ہوتا۔
بلدیہ ٹائون کراچی کی ایک گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ کس کو بھولی ہو گی۔اس آگ میں تین سو کے قریب ورکرز زندہ جل گئے‘ کچھ آگ میں جلے اور کچھ‘دھواں بھرنے سے دم گھٹ کر مر گئے۔بعد کی تحقیقات نے بتایا کہ کم و بیش 15سو‘ کارکنوں پر مشتمل اس گارمنٹس فیکٹری میں‘حادثے کی صورت میں باہر نکلنے والے تمام بیرونی دروازے بند تھے۔ اور تو اور‘کھڑکیوں پر لوہے کی سلاخوں کے پردے پڑے تھے۔اس کی وجہ سے جب دھواں پھیلا تو ورکر نہ تو ایگزٹ ڈور سے باہر نکل سکے اور نہ ہی کھڑکی کھول کر باہر کود سکے۔یہ سانحہ‘11ستمبر 2012ء کو پیش آیا۔ اس دن گارمنٹس فیکٹری میں مزدور بڑی خوشی خوشی آئے تھے کیونکہ مہینے کی گیارہ تاریخ کو تنخواہ تقسیم ہوتی تھی۔ مزدور کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا دن اور کیا ہو گا۔!!
جنوب ایشیائی لیبر کانفرنس میں بنگلہ دیش بھی شریک ہے۔ بنگلہ دیش دنیا بھر میں گارمنٹس کی برآمدات کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔مگر اب اس کی وجہ شہرت 2012ء اور 2013ء میں ڈھاکہ کی دو بڑی گارمنٹس فیکٹریوں میں آگ لگنے کے واقعات 
ہیں‘ ان حادثوں میں سینکڑوں مزدور جل کر مر گئے۔ ان فیکٹریوں میں عالمی برانڈ کے ملبوسات تیار ہوتے تھے۔ امریکہ اور یورپ کی منڈیوں نے کچھ عرصہ بنگلہ دیشی گارمنٹس کا بائیکاٹ کرتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور کو تحفظ بھرا ماحول فراہم کیا جانا چاہیے۔ 2012ء میں گارمنٹس فیکٹری میں لگنے والی آگ سے بچ جانے والے ایک بنگلہ دیشی مزدور نے بتایا کہ جب فیکٹری میں فائر الارم بجا تب بھی فیکٹری مالک نے مزدوروں کو مشینوں سے ہٹنے کی اجازت نہ دی؛ چنانچہ آگ پھیل گئی اور مزدور کام کرتے کرتے جل کر مر گئے۔
مزدور کے ساتھ جبر اور بے حسی کا یہ سلوک جنوبی ایشیا کے سبھی ترقی پذیر ملکوں میں ہوتا ہے؛ کیونکہ یہاں قوانین صرف سرمایہ دار کا تحفظ کرتے ہیں۔ مزدور کی کوئی نہیں سنتا۔مزدور کے نام پر یہاں سیمینارز ہوتے ہیں‘کانفرنسیں ہوتی ہیں ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی‘تقریریں ہوتی ہیں‘ دعوے کیے جاتے ہیں مگر نہیں بدلتے تو مزدور کے حالات‘جس کے بارے میں اقبال نے شکوہ کیا تھا ؎ 
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved