تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-05-2014

سچ کی تلاش

چند ہفتے قبل میدانِ صحافت کے ایک عقبری نے ایک تحریر پہ کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ کہا تھا: کاغذ اور قلم ہر کسی کی دسترس میں ہیں ۔ سو جس کا دل چاہے ، ان معصوموں کے ساتھ کھلواڑ کرتا رہے۔ سب سے پہلے اس کا اطلاق میں خود پہ کرتا ہوں۔ گردوپیش پہ نظر دوڑائوں توہر طرف اپنے ہی جیسوںکو شمشیر زن دیکھ کر کچھ اطمینان نصیب ہوتا ہے ۔
سچ کی تلاش آسان نہیں اور نہ ہی ایک دن میں آدمی امام ابوحنیفہؒ کے مرتبے پر فائز ہو سکتاہے ۔ غالباً یہ شیخ عبد القادر جیلانی ؒ تھے جنہوں نے یہ ہدایت کی تھی : ہر علم میں سے اتنا ضرور حاصل کرو جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہو۔ یہ بہت بڑا قول ہے ۔ ہم لکھنے والوں کاتو کام ہی یہی ہے کہ ہمیں ہر موضوع پر اظہارِ خیال کرنا ہوتا ہے ۔ ایسے میں یہ یاد رہنا چاہیے کہ کارِ رہنمائی ایک مقدّس لیکن بڑا ہی دشوار فریضہ ہے ۔ ہم غیر محتاط ہونے کے متحمل نہیں ۔ کسی بھی علم کی چند بنیادی باتیں سیکھنے کے لیے بھی کچھ وقت درکار ہوتا ہے، اس کے بعد ہی آدمی قوم کو اپنے قیمتی افکار سے محظوظ کر نے کے قابل ہو تاہے ۔ اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے، ہم ان حقائق کو بنیاد بناتے ہیں، جنہیں کوئی جھٹلا نہ سکے ۔ مثلاً میں اگر یہ کہوں کہ بلوچستان میں بھارت مداخلت کر رہا ہے تو ممکن ہے کہ کچھ لوگ اس سے اتفاق نہ کریں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ امریکہ نے 2001ء میں افغانستان پر حملہ کیا تو کوئی اس سے منکر نہیں ہو سکتا۔ پاکستانی طالبان اور افغان حکومت کے تعلقات کو شاید ایک مفروضہ سمجھا جائے لیکن جب امریکی فوج کی کارروائی میں لطیف اللہ محسود کی افغان انٹیلی جنس کی موجودگی میں گرفتاری کا ذکر کیا جائے تو انکار ممکن نہیں ۔ 
13.8ارب سال پہلے وہ حادثہ پیش آیا تھا، جسے بگ بینگ (Big Bang)یعنی ایک عظیم دھماکہ کہتے ہیں ۔ اس واقعے کے نشانات کائنات کے رگ و پے پر نقش ہیں۔ ہمارے ستارے (جسے ہم سورج کہتے ہیں ) کی عمر لگ بھگ ساڑھے چار ارب سال ہے اور وہ اپنی نصف عمر پوری کر چکا ہے ۔ ستاروں کی عمر کا اندازہ ان کے اندر موجود ایندھن سے لگایا جاتا ہے ۔ جس عمل سے سورج روشنی اور توانائی پیدا کرتاہے، اس میں کائنات کا ہلکا ترین عنصریعنی ہائیڈروجن گیس جلتی اور ہیلیم میں بدلتی ہے ۔ جب تمام ہائیڈروجن جل چکے گی تو اس کی موت کا آغاز ہوگا۔ وہ آخری حد تک پھیلے گا اور پہلے دو تین سیارے اپنے اندر سمو لے گا۔ قرآن اس پھیلائو کی انتہائی درست مقدار بتاتا ہے ۔ وہ کہتاہے کہ ''جمع الشمس و القمر‘‘ سورج ہمارے چاند کو نگل لے گا۔ ا س ساری تفصیل سے مراد یہ ہے کہ ستاروں کی عمر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ جوں جوں ان کے اندر کا ایندھن جلتا جائے گا، ان کی روشنی اور حرارت میں اضافہ ہو گا۔ سورج کی حدّت اور روشنی بڑھ رہی ہے ۔ اب ایک صاحب تمسخر کے انداز میں اس مفہوم کے فقرے لکھ ڈالتے ہیں کہ ''پندرہ بیس ارب سال پہلے‘‘ جو بگ بینگ ہوا تھا، ماہرینِ فلکیات یہ کہتے ہیں کہ اس کے نشانات اب تک کائنات میں موجود ہیں ( یعنی یہ سب جھوٹ ہے)۔ 
قارئین ! کائنات ہی نہیں ، آج کے دور میں ہم کرّۂ ارض پہ گزرے ہوئے حادثات کے نشان بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ برف کی تہوں اور پتھروں کے اندرے دبے ہوئے جانداروں کی باقیات اپنی عمر بتا تی ہیں ۔ ہم برفانی ادوار (Ice Ages) کا درست اندازہ لگاتے ہیں ۔ ہر اس عہد کو ڈھونڈ نکالتے ہیں جس میں بڑے پیمانے پر جاندار ہلاک (Mass Extinction)ہوئے۔ حد تو یہ ہے کہ نسبتاً محفوظ اجسام سے ایک خلیہ لے کر ،کلوننگ کے عمل سے، ناپید ہو چکے جانداروں کو دوبارہ اس سیارے پر بسانے کا آغاز ہے۔ یہ سب کرنے والا کون ہے ؟ مغرب ۔ 
جہاں تک افغانستان ، عراق اور لیبیا سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں قتل و غارت کا تعلق ہے، ہم مغرب کی مذمّت ہی کریں گے ۔ دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ تحقیق تو ہم مسلمانوں پہ حرام ہے اور اس معاملے میں ہم پہ کوئی ذمہ داری جیسے عائد ہی نہیں ہوتی۔ ماضی کی خوفناک اور عظیم سچائیاں ڈھونڈ نکالنے کا سارا کام مغرب ( اور چند ایشیائی ممالک جیسے جاپان ) ہی نے تو کیا ہے ۔ وہ اس پر کھرب ہا کھرب ڈالر خرچ کرتے ہیں اور ایک چھوٹے سے نکتے کو سمجھنے کے لیے کئی دہائیوں تک عرق ریزی کرتے ہیں۔ خدائی ذرّہ کس نے تلاش کیا؟ اگر ہمیں مذاق ہی اڑانا ہے تو سب سے پہلے مسلمان ممالک کا اڑانا ہوگا۔ 
کائنات میں زندگی کی تلاش بہت مشکل ہے ۔ ہم ایک چھوٹے سے سیارے کے محدود وسائل کے مالک ہیں ۔ قریب ترین سورجوں کی جوڑی الفاسینٹوری اے اور الفا سینٹوری بی اور ان کے ممکنہ سیارے موجودہ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ہم سے 75ہزار سال کی مسافت پر ہیں ۔ ایک ستارے یا سورج کی روشنی اس قدر خوفناک ہوتی ہے کہ اس کے گرد گھومتے ہوئے کسی سیارے کا سراغ لگانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتاہے ۔ ہاں جب وہ گردش کرتا ہوا اس کے سامنے سے گزرتا ہے تو اس کی روشنی میں ایک بہت ہی معمولی سا جو فرق پیدا ہوتاہے، اس سے اس کی موجودگی پہ مہرِ تصدیق ثبت ہوتی ہے ۔ پھر اس کی فضا (Atmosphere)کا اندازہ لگانے کا آغاز ہوتا ہے ۔ کیا وہاں آکسیجن موجود ہے اور ایسا کوئی سسٹم جو اس کی کمی پوری (Reimburse)کرتا رہے ؟ کیا وہ سورج سے محفوظ فاصلے یعنی گولڈی لاک زون (Goldilock zone)میں ہے؟ اندازہ اس سے لگائیے کہ زمین کے علاوہ زہرہ اور مریخ بھی محفوظ فاصلے پر ہیں لیکن وہاں زندگی کا نام و نشان تک نہیں ۔ کیا نو دریافت شدہ سیارے پر بھاری ماحول(Heavy Atmosphere) موجود ہے ؟ کیا وہاں ستارے کے خطرناک شمسی طوفانوں سے بچانے کے لیے مقناطیسی میدان موجود ہیں ؟ کیا وہاں کوئی پانی ایسا مائع موجود ہے جو زندگی کی بنیاد بننے والے آرگینک مالیکیولز مثلاً میتھین کو حل ہونے اور مزید پیچیدہ ہوکر خلیات تشکیل دینے میںمدد کر سکے؟ کیا کسی مرتے ہوئے عظیم الجثہ ستارے سے پیدا ہونے والے توانائی کے خطرناک دھارے (Gamma-Ray Burst) نے آکسیجن سمیت اس کی فضا کا خاتمہ تو نہیں کر ڈالا؟ کیا آسمان سے گرنے والی کسی بہت بڑی چٹان نے ساری زندگی تہس نہس تو نہیںکر دی؟ 
وہ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ میں ان کا مذاق اڑانے کی کوشش میں اپنا تمسخر اڑا رہا ہوں۔ میں انہیں منجن فروش قرا ر دیتے ہوئے اپنے کالم کے الفاظ پورے کر رہا ہوں۔ افسوس ، صد افسوس !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved