تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     02-05-2014

حتمی مذاکرات فوج ہی کرے گی

مجھے یقین ہے پروفیسر ابراہیم باقاعدہ پڑھنے لکھنے کے بعد‘ امتحانات دے کر پروفیسر بنے ہیں۔ جادو کے کرتب دکھانے والے پروفیسر نہیں لیکن مذاکراتی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے وہ جادو کے کرتب دکھانا چاہتے ہیں۔ ذرا ان الفاظ پر غور فرمائیے: ''طالبان اور فوج کو ایک میز پر بیٹھنا ہو گا‘ دونوں سے بندوقیں نیچے رکھنے کی منت کرتے ہیں‘‘۔ کوئی پڑھا لکھا آدمی ایسا مطالبہ کر سکتا ہے؟ پروفیسر صاحب اصل میں مذاکرات کار نہیں۔ طالبان کے وکیل ہیں۔ ان کے نزدیک پاک فوج اور طالبان کی حیثیت مساوی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ پاک فوج سے ہتھیار نیچے رکھوا سکتے ہیں۔ کوئی پروفیسر اس طرح کی برابری کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ایک طرف ریاست کے باغی ہیں‘ جو قانون کی پروا نہیں کرتے‘ آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ انسانی خون بے دردی سے بہاتے ہیں‘ گھروں‘ ہسپتالوں‘ مساجد‘ مدرسوں‘ امام بارگاہوں اور مزاروں پر بم چلاتے ہیں‘ معصوم اور بے گناہ لوگوں کو شہید کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے یقیناً ہتھیار نیچے رکھوانا چاہئیں اس لئے کہ یہ ہتھیار بے گناہوں کی جانیں لیتے ہیں۔ فوج کس خوشی میں ہتھیار پھینکے؟ فوج‘ آئین کے تحت بنایا گیا ایک مقدس ادارہ ہے۔ اس کے سپاہی اور افسر وطن کی خاطر جانیں قربان کرتے ہیں۔ غلط ہاتھوں میں آیا ہوا اسلحہ چھینتے یا زمین پر رکھواتے ہیں تاکہ بے گناہوں کو قاتلوں کی بندوقوں سے بچایا جا سکے لیکن طالبان کی وکالت کرنے والے پروفیسر صاحب‘ اپنا سارا علم بھول کر ایسے بے مغز بیانات جاری فرما دیتے ہیں جن کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔
طالبان اور پاک فوج دونوں ہتھیار کیوں پھینکیں؟ کیا ان دونوں کی حیثیت برابر ہے؟ کیا طالبان کو کسی جائز اور قانونی ریاست میں‘ آئین کے تحت مسلح کارروائیوں کا حق حاصل ہے؟ کیا وہ کسی کو جواب دہ ہیں؟ کیا عالمی برادری میں انہیں کسی بھی طرح کی حیثیت حاصل ہے؟ ان کی بندوقیں ناجائز ہیں۔ غیر قانونی ہیں۔ غیر اخلاقی ہیں۔ یہ بندوقیں چھین کر انہیں نہتا کرنا‘ دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے‘ انسانی فرض بھی ہے اور دینی بھی۔ پاک فوج کس کے سامنے ہتھیار پھینکے؟ یہ خیال طالبان کے وکیل کے ذہن میں آیا کیسے؟ یہ کہتے ہوئے ان کے ہوش و حواس تو درست تھے؟ کیا انہیں پتہ نہیں کہ پاک فوج کے پاس اسلحہ کتنا ہے؟ طالبان پوری فوج کا اسلحہ زمین پر رکھوا کر اٹھائیں گے کیسے؟ لے کر کہاں جائیں گے؟ استعمال کیسے کریں گے؟ پاک فوج‘ جماعت اسلامی کے ملین مارچ کی طرح نہیں کہ پولیس کے دس بارہ کانسٹیبل پورے کے پورے ملین مارچ کو گھیرا ڈال دیں۔ جماعت والے تو گھر سے راشن لینے نکلیں تو پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ ''ملین مارچ کر رہا ہوں‘‘۔ ان پروفیسر صاحب کے ساتھی مولانا یوسف شاہ‘ ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ''مذاکرات کی مخالفت کرنے والے ملک کے وفادار نہیں‘‘۔ پاکستان کی فوج کو ہتھیار پھینکنے کا مشورہ دینے والے ملک کے وفادار ہیں؟۔ بھارت کا کوئی متعصب ہندو یہ مطالبہ کرے تو اس کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ہو گا لیکن اپنے ہی ملک کی فوج کو باغیوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے کا مشورہ دینے والے کو میں کیا کہوں؟ ایک دو آدمیوں کا دماغ تو خراب ہو سکتا ہے لیکن اتنے آدمی ایک ساتھ‘ دنیا کی چوتھی بڑی فوج کو غاروں اور ویران پہاڑوں میں چھپ کر جانیں بچانے والوں کے سامنے ہتھیار پھینکنے کی کیا مجبوری ہے؟ روز ٹی وی اور اخباروں میں حاضری لگوانے کے شوقین‘ یہ مذاکراتیے اب تک کر کیا سکے ہیں؟ یہی کہ حیلے بہانوں سے دہشت گرد قیدیوں کو رہا کروانے میں کامیاب رہے اور اس پر مذاکراتیوں کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ پاک فوج سے ہتھیار رکھوانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی بہادر ہیں تو میدان میں آ کر مقابلہ کریں۔ چھپ کر حملے کر کے بھاگنے یا جسموں پر بم باندھ کر دھماکے سے اڑ جانے والے کہاں کے بہادر ہیں؟ جس نے ہاتھی نہ دیکھا ہو‘ اگر وہ اسے اٹھا کر پھینک دینے کا دعویٰ کرے تو بات سمجھ میں آ سکتی ہے۔ طالبان کے وکیل‘ جب پاک فوج کو اپنے موکل کے مساوی تصور کرتے ہیں تو دو ہی باتیں ممکن ہیں‘ یا تو انہیں پتہ نہیں پاک فوج کیا ہے؟ یا وہ اس چوہے کی طرح ہیں‘ جو ہاتھی پر بیٹھ کر پل پار کر رہا تھا‘ پل کے درمیان میں آ کر بھاگا بھاگا‘ ہاتھی کے کان کے قریب گیا اور بولا ''دیکھو دیکھو تمہارے اور میرے بوجھ سے پل ہل رہا ہے‘‘۔
پروفیسر ابراہیم کا ایک اور مطالبہ انتہائی دلچسپ ہے۔ وہ فرماتے ہیں: فوج کو مذاکرات میں شریک ہونا چاہئے اور ان کی جماعت کے امیر مولانا سراج الحق نے رائے دی کہ ''نتیجہ خیز مذاکرات کے لئے فوج کو ان میں شامل کیا جائے‘‘۔ حیرت ہے کہ ایک طرف یہ لوگ حکومتیں بنانے اور چلانے کے دعویدار ہیں اور ان کی معلومات عامہ اور علم کا یہ حال ہے کہ وہ فوج کو ایک تیسرے فریق کی حیثیت سے مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کو اتنا بھی علم نہیں کہ کسی بھی ملک میں‘ کوئی بھی حکومت ہو‘ فوج اس کے ماتحت ہوتی ہے۔ وہ اس پوزیشن میں ہوتی ہی نہیں کہ اپنے ملک کے خلاف لڑنے والے‘ کسی گروہ کے ساتھ مذاکرات کر سکے۔ فوج کے پاس صرف ایک اختیار ہوتا ہے کہ ملک دشمنوں کو یا تو پھڑکا دے اور یا ان کے ہتھیار چھین کر انہیں ملکی قانون کے سپرد کر دے۔ فوج مذاکرات کے ذریعے بنیادی مسائل حل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ وہ صرف میدان جنگ کی ضروریات کے تحت دشمن سے بات چیت کر سکتی ہے یعنی کوئی ہتھیار پھینکنے کی پیش کش کرے تو فوج طریقہ کار طے کرنے کے لئے بات چیت کر لے گی۔ معاملات سیاسی ہوں یا دفاعی‘ قانونی ہوں یا غیر قانونی‘ اس طرح کے سارے فیصلے‘ حکومت کے اختیار میں ہوتے ہیں مثلاً باغیوں کو پناہ دینے کا فیصلہ حکومت کے اختیار میں ہے۔ انہیں معاف کرنے کا اختیار حکومت کے پاس ہے۔ بات چیت کے ذریعے فیصلے کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوج از خود‘ ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کر سکتی۔ وہ ایک فائٹنگ فورس ہے۔ جس دن مذاکرات ناکام ہوئے یا حکومت نے آپریشن کا فیصلہ کر لیا‘ اس وقت فوج طالبان کے وکیلوں کا شوق پورا کر دے گی اور میں جو کہ مذاکرات کو بے نتیجہ تصور کرتے ہوئے‘ ان کے خلاف ہوں اور اس بنا پر ملک کا وفادار نہیں تو میری بلا سے۔ میں تو اس دن کو انتہائی بدنصیبی کا دن سمجھوں گا‘ جب مجھے قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والوں سے ملک کی وفاداری کا سرٹیفکیٹ لینا پڑے گا۔ قیام پاکستان کے مخالفین سے ملا ہوا کریکٹر سرٹیفکیٹ اعزاز نہیں‘ توہین ہے۔
مذاکرات کو‘ میں اس لئے بے نتیجہ سمجھتا ہوں کہ باغیوں کے کسی بھی ٹولے کے ساتھ صرف ہتھیار پھینکنے کی شرط پر بات چیت ہو سکتی ہے۔ قارئین کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جب مذاکرات کا فیصلہ ہوا تھا تو میں نے اس وقت لکھا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات محض تضیع اوقات ہوں گے۔ ریاست ایک منظم طاقت ہے۔ وہ اپنے قول و فعل کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب وہ فائر بندی کرے گی تو اس کا کوئی سپاہی بندوق نہیں چلائے گا۔ میں نے پیش گوئی کی تھی کہ طالبان جنگ بندی کے نام پر حکومت کو تو پابند کر دیں گے لیکن دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رکھیں گے اور جب ان سے کہا جائے گا کہ آپ وعدے کی پابندی نہیں کر رہے تو جواب ملے گا ''جس گروہ نے دہشت گردی کی واردات کی ہے۔ اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں‘‘۔ دیکھ لیجئے اب وہی کچھ ہو رہا ہے۔ طالبان جب بھی دہشت گردی کی واردات کرتے ہیں تو ذمہ داری قبول کرنے سے مکر جاتے ہیں۔ راولپنڈی کے دونوں دھماکے‘ انہوں نے جنگ بندی کے دوران کئے مگر ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اپنے قیدی چھڑا کر لے گئے اور جب پاکستان کی طرف سے اغوا شدہ‘ بے گناہوں کی بازیابی کے لئے کہا گیا تو طالبان کا جواب تھا کہ وہ تو ہماری قید میں ہیں ہی نہیں۔ ایسے لوگوں سے کیا بات کی جائے؟ کیا مذاکرات کئے جائیں؟ جو خود کسی بات کی پابندی قبول نہ کریں یا پابندی کرنا ان کے اختیار میں نہ ہو‘ تو ان کے ساتھ معاملات کیسے طے ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات کے نام پر یونہی آنکھ مچولی جاری رہے گی۔ وہ دہشت گردی بھی جاری رکھیں گے اور مذاکرات میں بھی پلہ نہیں پکڑائیں گے۔ حکومت سے جو رعایت حاصل کر سکتے ہیں‘ کرتے رہیں گے اور جہاں دائو لگے گا دہشت گردی کی وارداتیں بھی کرتے رہیں گے۔ ایک دن حکومت کا صبر بھی جواب دے جائے گا اور اسے مجبوراً اپنی افواج کو حکم دینا پڑے گا کہ وہ باغیوں کی سرکوبی کرے۔ حکومت کے صبر کا پیمانہ کافی بھر چکا ہے۔ یہ کسی بھی وقت چھلک سکتا ہے۔ اگر کوئی اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ پاکستان طویل جنگ نہیں لڑ سکتا تو بہتر ہو گا کہ اس خیال خام کے اثر سے باہر نکل جائے۔ سری لنکا جیسا ملک دہشت گردو ں کے خلاف بیس پچیس سال تک جنگ لڑ سکتا ہے تو ہم بھی لامحدود عرصے تک دہشت گردوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی دہشت گرد گروپ ہمیشہ پاکستان جیسی طاقت کے خلاف‘ لامحدود مدت تک جنگ نہیں کر سکتا۔ دہشت گرد صرف پریشانی پیدا کر سکتے ہیں۔ اپنے حق میں کوئی نتیجہ حاصل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ انہیں زندہ سلامت بچ نکلنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔ اگر یہ موقع ضائع ہو گیا تو پھر دہشت گردوں کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ رہ گئے‘ پاکستان کی مرکزی جماعتوں میں ان کے حامی تو وہ اسی وقت تک چہک سکتے ہیں جب تک انہیں طالبان کی کامیابی کا گمان ہے۔ جیسے ہی ان کی پسپائی شروع ہوئی‘ یہ ہاتھ اٹھا کر دہائیاں دینے لگیں گے کہ ہمارا طالبان سے کوئی واسطہ نہیں۔ دہشت گردوں کو میں یہ تسلی ضرور دے سکتا ہوں کہ فیصلے کے وقت‘ فوج حتمی مذاکرات کر کے‘ ان کی دیرینہ خواہش ضرور پوری کرے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved