تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-05-2014

سیّدہ زینبؓ کی بیٹیاں

اللہ کی ان پہ لاکھوں رحمتیں ہوں، تو یہ سیّدہ زینبؓ کی بیٹیاں ہیں؟ جو شہید ہوئے، وہ شہید ہوئے۔ اب یہ ان کی مشعل بردار ہیں۔
جنرل اختر عبدالرحمٰن کے صاحبزادوں، ایک کے بعد دوسرے نے جب اپنی دادی امّاں کی کہانی سنائی تو مجھے ماں جی یاد آتی رہیں، نانی امّاں۔ سارا دن تخت پر بیٹھی جو تسبیح اور نوافل پڑھا کرتیں اور ایک حکمران کی طرح فیصلے صادر کرتیں۔ جنرل عبدالمجید ملک نے اپنی والدہ محترمہ کا ذکر چھیڑا تو سامع نے حیرت سے کہا: دو ایسی محترم خواتین اور بھی تھیں۔ جہاندیدہ آدمی نے سر اٹھایا اور بولا: پاکستان کے بے شمار گھرانوں میں، ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں۔ اس معاشرے کو انہی نے تھام رکھا ہے۔ ہاں وہی، اوّل جو اپنے والدین کی خدمت کرتی ہیں، پھر شوہر اور اس کے بعد عمر بھر اپنے بچّوں کی۔ اس کے عوض وہ کچھ بھی طلب نہیں کرتیں۔ 
پھر ایک دن انکشاف ہوا، لازم نہیں کہ وہ روایتی گھریلو خواتین ہوں۔ اٹھارہ برس ہوتے ہیں کہ میرے ایک پڑوسی نے، جن کی سادگی، کم سخنی اور نجابت کا میں گواہ ہوں، سرکارؐ کو خواب میں دیکھا۔ کہوٹہ کی لیبارٹری سے یورینیم چراتے سفید فام اور ان سے الجھتے پاکستانی۔ غیرملکیوں کا تعاقب کرتے وہ ماڈل ٹائون سے متصل پل کے قریب پہنچے تو ختم المرسلینؐ کو اپنے دو اصحابؓ کے ساتھ انہوں نے سواں ندّی کے کنارے پایا۔ فرمایا ''غزوہء ہند کی قیادت میں خود کروں گا اور میرے مشیر خالد بن ولیدؓ ہوں گے‘‘۔ یہ ایک طویل خواب تھا، جو من و عن نقل کر دیا گیا اور درخواست کی گئی کہ تعبیر کرنے والے اس کی تعبیر کریں۔ اس پر اسلام آباد کی ایک خاتون ڈاکٹر کا فون موصول ہوا۔ ایک بے ریا، سادہ سی خاتون، جس نے تعبیرِ رویا کا علم باقاعدہ حاصل کیا تھا۔ محتاط اس قدر کہ تعبیر سے انکار کر دیا۔
تجسس نے تحقیق پر اکسایا تو معلوم ہوا کہ اکلوتے جوان بیٹے کی موت کا صدمہ جھیل چکیں۔ خدمتِ خلق کو پھر انہوں نے شعار کیا۔ اب ابرِ رحمت ٹوٹ ٹوٹ کر ان پر برسا۔ بے نوا، غریب بچّیوں کو گھر لے آتیں۔ پال پوس کر، پڑھا لکھا کر ان کی شادیاں کر دیتیں۔ کوئی ادارہ‘ نہ چندہ۔ این جی اوز کی وبا ابھی نہ پھوٹی تھی۔ اس طرح کے کام اسی انداز میں کیے جاتے۔ بہت سے پاکستانی اب بھی کرتے ہیں۔ 
ایسے لوگ چھپایا کرتے ہیں مگر ایک بہت قریبی دوست کی اہلیہ کے بارے میں اچانک معلوم ہوا کہ پابندی سے وہ تہجد پڑھتی ہیں۔ خود انہی نے بتایا تھا کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں سر ڈھانپنے کا حکم صادر ہوا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ میاں ان کے ایسے کہ خاندان تو کیا، دوست بھی ان پہ فخر کیا کرتے۔ دنیا سے اٹھے تو منفرد شاعر اظہارالحق نے ان کا مرثیہ لکھا ؎ 
لپیٹ لو خوان‘ حاتمِ وقت جا چکا ہے 
وہ ابر، وہ منبعِ کرم ختم ہو گیا ہے 
ایسی ہی ایک خاتون کو ایک دن عارف کے ہاں دیکھا۔ مغربی لباس، مغربی ہی سے تیور مگر حیا، مگر وقار۔ قومی اسمبلی کی ممبر تھیں۔ سرکاری پارٹی کا حصہ ہونے کے باوجود سترہویں ترمیم کی حمایت سے انکار کیا اور استعفے کی پیشکش کر دی تھی۔ چند دن بعد جھجکتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس خاتون کے بار ے میں میرا تاثر ٹھیک ہے؟ کہا: بالکل۔ پوچھا: کس چیز نے یہ مرتبہ اسے بخشا ہے۔ بولے: سیّد عبدالقادر جیلانی ؒ کی اولاد ہیں۔ حیرت سے سوال کیا کہ اس سے کیا ہوتا ہے؟ کہا: کیوں نہیں ہوتا، دعا سفر کرتی ہے۔ گاہے صدیوں تک، ہزاروں برس تک۔ ایک دن معاً اپنی اولاد کے بارے میں سیدنا ابراہیمؑ کی دعا یاد آئی اور اللہ کا فرمان ''لیکن میرا عہد ظالموں تک نہ پہنچے گا‘‘۔ 
کل یومِ شہدا کی تقریب کے بعد، بار بار خود سے میں نے سوال کیا: پاکستانی عورت کو کس کی دعا لگی ہے؟ ظاہر ہے کہ خود سرکارؐ کی کہ ہند کے ساحلوں سے انہیں ٹھنڈی ہوا آئی تھی۔ سر چادروں سے ڈھکے ہیں اور نہیں بھی مگر ان میں کچھ ایسی ہیں کہ رشک آتا ہے، ایک آدھ ٹی وی میزبان بھی۔ وہ عورتیں جو دلاور جنتی اور شہید پالتی ہیں۔ لوریاں دیتی اور پھر اپنے ہاتھوں سے مٹی کو سونپ کر، عمر بھر ان پہ فخر کیا کرتی ہیں۔
یومِ شہدا کی تقریب میں، ایک دیہاتی ماں نے کہا: بچّے پالنا آسان نہیں مگر میں نے بسم اللہ کر کے ملک پر اسے قربان کر دیا۔ دوسری نے، جس کے سر پہ دوپٹہ نہیں تھا، یہ کہا: تم نے اپنا وعدہ پورا کیا کہ ملک پہ قربان ہو گئے۔ میں بھی اپنا عہد نبھا رہی ہوں۔ تمہارے بچوں کی پرورش ٹھیک اسی طرح ہو گی، جس طرح کہ تمہاری آرزو تھی۔ کردار کسی علاقے اور قبیلے کا نہیں ہوتا۔ کسی نسل اور مکتبِ فکر کا نہیں، مرد اور عورت کا امتیاز بھی اس میں نہیں ہوتا۔ رجحانات اور مزاج ہوتے ہیں۔ جہاں تک حبّ وطن کا تعلق ہے، خواتین بازی لے گئیں۔ یہ پاکستانی عورت ہے، جو اپنے بھائی اور اپنے شوہر کی پشت پناہ ہے، جب وہ میدانِ جنگ میں شہادت کا انتخاب کرے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو گھر قبرستان ہو جاتے۔ 
محترمہ نسیم زہرہ سے مجھے اندیشہ تھا کہ وہ روئیں گی ضرور۔ یہ اندازہ مگر نہ تھا کہ اس قدر جلد اور اس طرح مسلسل۔ کبھی اپنے والدِ محترم کا ذکر انہوں نے کیا تھا، جو قرآنِ کریم میں جی لگایا کرتے۔ آج انہوں نے بتایا کہ پاک بھارت جنگ کے ہنگام خاندان کے سب افراد کو انہوں نے جمع کیا۔ ایک لاکھ پچیس ہزار بار آیتِ کریمہ پڑھنے کے لیے۔ بائیں ہاتھ بیٹھے پی ٹی وی کے ایم ڈی محمد مالک کچھ دیر اپنے آپ سے لڑتے رہے۔ پھر یہ کہا: اس تقریب میں آئندہ میں کبھی شریک نہ ہوں گا۔ اتنا ضبط کس میں ہے؟ کون اس درد کی تاب لائے؟ مجمع کا مجمع روتا رہا۔ کاش وہ یہاں ہوتا، پاکستان کو بھارت کا ایک صوبہ بنانے کا خواب دیکھنے والا۔ کاش وہ یہاں ہوتے، مزارات، مارکیٹوں اور مساجد میں جیتے جاگتے انسانوں کے چیتھڑے اڑانے والے قاتلوں کے مدح سرا سیاستدان اور قلمکار۔ کاش وہ یہاں ہوتے، آزادیٔ اظہار کے نام پر قومی دفاع میں سوراخ کرنے والے۔ نوکری پیشہ، جو ہیرو بننے کی آرزو میں دیوانے ہوئے اور مسترد کر دیے گئے۔ اتنی سی بات جو نہیں جانتے کہ زندگی تناسب و توازن طلب کرتی ہے۔ ترجیح ایک کے بعد دوسری ہوا کرتی ہے۔ 
مگر وہ پاکستانی خاتون؟ آخر کو سیّدہ زینبؓ یاد آئیں۔ یزید کے دربار میں جب امام ؓ اور اہلِ بیت ؓ کا مذاق اڑایا گیا تو آپؓ نے ارشاد کیا ''اللہ کی شان کہ خدا پرست، شیطانی لشکر کے ہاتھوں قتل ہوں۔ اے یزید، تجھے قسم ہے کہ کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھنا لیکن اللہ کی قسم، تو ہمارے ذکر اور ہماری زندگیوں کو فنا کر نہیں سکتا۔ اس خونِ ناحق کا دھبّہ تیرے دامن پہ ہمیشہ رہے گا۔ تیری رائے غلط، تیری زندگی محدود اور تیرے اردگرد کا مجمع تتّر بتّر ہو جانے والا ہے۔ وہ دن بہت قریب ہے، جب منادی کرنے والا ندا کرے گا: ظالمو! تم پر اللہ کی لعنت ہے۔ شکر ہے، اس پروردگار کا، جس نے ہمارے پیش رو بزرگوں کا انجام سعادت کے ساتھ اور آخری بزرگ کا انجام شہادت و رحمت کے ساتھ مقرّر کیا۔ وہی اللہ ہمارے لیے کافی ہے اور بہترین ناصر و معین ہے‘‘ 
اللہ کی ان پہ لاکھوں رحمتیں ہوں، تو یہ سیّدہ زینبؓ کی بیٹیاں ہیں؟ جو شہید ہوئے، وہ شہید ہوئے۔ اب یہ ان کی مشعل بردار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved