تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     02-05-2014

راوی کی خو شبو

بوئے جوئے مولیاں آید ہمے
یاد یار مہرباں آید ہمے
شاہ ماہ است و بخا را آسماں
ماہ سوئے آسماں آید ہمے
شاہ سرو است و بخارا بوستاں
سرو سوئے بوستاں آید ہمے
نویں صدی عیسوی کے بادشاہ نصر دوم سامانی کو مہم جوئی پر دارالخلافہ بخارا سے نکلے طویل عرصہ گزر گیا تھا اور ان کے فوجی جرنیلوں کو گھر کی یاد ستانے لگی تھی مگر کسی میں شاہ کو واپسی کا مشورہ دینے کی جرأت نہ تھی۔ بالآخر انہوں نے نابینا شاعر ابو عبداللہ رودکی کو میر کارواں سے عرض معروض کرنے پر آمادہ کیا اور اس نے اوپر کا قصیدہ لکھ کر شاہ کو وطن کی یاد دلائی۔ عبدالقادر حسن نے‘ جو مسلم ثقافت کا ادراک مجھ سے زیادہ رکھتے ہیں‘ فارسی کلاسیکی ادب کے تاجک بانی رودکی سمرقندی کے پہلے شعر سے ''یاد یار مہرباں‘‘ کی ترکیب لے کر اپنے اخبار میں ایک کالم لکھا‘ جس میں مجھے وطن لوٹنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نصر تو اپنا لائو لشکر سمیٹ کر واپس لوٹ گیا تھا مگر مجھ میں لاہور واپس آ نے کی ہمت نہیں۔
میں تقریباً ہر سال گھر جاتا رہا ہوں‘ اس لیے یاروں کو یہ گمان گزرا کہ میں عارضی طور پر واشنگٹن کے علاقے میں مقیم ہوں اور کام کاج سے فارغ ہو کر اپنے شہر کو لوٹ جاؤں گا۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ گزشتہ موقع پر جب میں لاہور گیا تو عزیز و اقارب کے ہوتے ہوئے احتیاطاً جمخانہ میں ٹھہرا تھا۔ میرے قیام کا بندوبست عبدالقادر حسن نے کیا تھا اور یہیں نذیر ناجی‘ منو بھائی‘ مجیب الرحمٰن شامی‘ عارف نظامی‘ چودھری خادم حسین‘ افضل رحمٰن‘ عارف وقار اور دوسرے معاصرین سے ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ حسن نے دہلی دروازے کی جن املاک کا ذکر کیا ہے‘ وہ سب وقف علی اللہ تھیں اور بھائی غلام مصطفیٰ شاہ کی امریکہ منتقلی اور وفات کے بعد بطور متولی میں نے یہ جائیداد ایک طشتری میں رکھ کر محکمہ اوقاف کو پیش کر دی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے لیے فیصل ٹاؤن میں پانچ مرلے کا ایک گھر خریدا تو اس پر ڈاکہ پڑ گیا۔ مرحوم عباس اطہر نے نوائے وقت کے آخری صفحے پر سرخی لگا ئی تھی ''اکمل علیمی کو وطن کی ہواؤں کا سلام' دن دیہاڑے گھر لُوٹ لیا گیا‘‘ اور جب میری بیوی نے گھر لٹنے کا شکوہ کیا تو نذیر ناجی نے اسی اخبار میں اپنا کالم ان کے مراسلے کے لیے وقف کر دیا تھا۔ لامحالہ یہ گھر بھی بیچنا پڑا کیونکہ لوگ اس کے بیرونی بلب اتار کر لے جاتے تھے۔ یہ ایک پُرامن معاشرے میں لُوٹ مار کا آغاز تھا؛ تاہم مصطفیٰ صادق نے‘ جو ایک بندوقچی کے ساتھ افسوس کے لئے میرے گھر تشریف لائے‘ بتایا کہ ہر دوسرا شہری لُٹ چکا ہے۔ اس واقعہ کو مرگ انبوہ سمجھ کر ہم نے ترک وطن کا فیصلہ کیا۔
رودکی کے قصیدے کے شروع میں دریائے مولیاں کی خوشبو کا تذکرہ ہے جو اس زمانے میں بخارا کے پاس بہتا ہوگا۔ بیشتر بڑے شہر دریاؤں کے کناروں پر آباد ہیں۔ لاہور بھی راوی کے بائیں کنارے پر واقع ہے مگر ملک میں پانی کی عمومی قلت سے متاثر ہو کر یہ دریا بھی اک آب جُو ہو کر رہ گیا ہے۔ راوی میں اتنی خوشبو نہیں رہی کہ وہ اس کے باسیوں کو بیرون ملک سے کھینچ کر لائے۔ شہر والے ساری دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں۔
عبدالقادر حسن نے اس زمانے کا ذکر چھیڑا ہے جب وہ ہفت روزہ لیل و نہار اور میں روزنامہ امروز سے وابستہ تھا اور ہم دونوں پی پی ایل کے پرچم تلے ایک عمارت میں کام کرتے تھے۔ بلاشبہ اس وقت تک ''لفافہ صحافت‘‘ کے آثار نہیں تھے اور اخبار نویس سیاسی لیڈروں سے چائے کی پیالی سے زیادہ توقع نہیں رکھتے تھے لیکن صحافت بالخصوص الیکٹرانی صحافت نے ان چالیس سالوں میں بڑی ترقی کی ہے۔ کاش کوئی جنرل محمد ایوب خان کو آزادی ٔ صحافت کی ترکیب بتا دیتا تو انہیں قومی اتحاد کو فروغ دینے کے لیے ہماری مطبوعات پر قبضہ کرنے‘ را ئٹرز گلڈ بنانے اور ملک کے دونوں حصوں کے مابین صحافیوں‘ ادیبوں اور سماجی کارکنوں کے تبادلے کی ضرورت نہ پڑتی۔ آج جب میں نجی ٹی وی چینلز کے نامہ نگاروں کو اپنے اپنے نیٹ ورک کا مائیک تھامے اپنے علاقائی لہجے میں سندھ‘ سرحد اور بلوچستان کے دور افتادہ دیہات سے ایک ہی زبان میں رپورٹنگ کرتے دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔
بلاشبہ یہ ممتاز دولتانہ‘ سید مودودی‘ مفتی محمود‘ چودھری ظہور الٰہی‘ خان عبدالولی خان اور شاہ احمد نو رانی کا دور تھا اور اس میں میاں افتخارالدین‘ مولانا احتشام الحق تھانوی‘ سید مردان شاہ‘ محمود ہارون‘ پیر الٰہی بخش‘ قاضی فضل اللہ‘ اے کے بروہی‘ جی ایم سید‘ اے کے فضل الحق‘ شیخ مجیب الرحمٰن‘ مولانا غلام غوث ہزاروی‘ عطااللہ مینگل‘ اکبر بگتی اور دوسروں کا طوطی بھی بولتا تھا مگر ان کی حقیقی اور معنوی اولاد پاکستان کو ایک قوم بنانے سے قاصر رہی اور ملک آج چار یونٹوں میں بٹا ہوا ہے جن میں چار مختلف الخیال حکومتیں ہیں۔ امروز ملتان سے نکلا تو کم عمری کے باوجود کچھ وقت کے لیے مجھے اس کا انچارج بنا کر بھیجا گیا۔ قسور گردیزی نے اپنے گھر پر میری ضیافت کی اور چند دن کے بعد میں نے پنجاب میں ''غلامی‘‘ (مزارعت) کی دیرینہ روایت کے بارے میں ایک فیچر شائع کیا‘ جو انہی کے خلاف تھا۔ مختار مسعود ڈپٹی کمشنر تھے۔ صبح کی سیر کے دوران انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے میرے خلاف ایک فوجداری مقدمہ درج کر لیا ہے اور کسی بھی وقت میری گرفتاری عمل میں آ سکتی ہے۔ مارشل لا کا ایک ضابطہ معاشرے کے طبقوں کے مابین نفرت کی آگ بھڑکانا جرم قرار دیتا تھا اور کمشنر اے ایم کے لغاری کے حکم پر میرے خلاف یہ استغاثہ کھڑا کیا گیا تھا۔ میں نے ایڈیٹر سے اجازت لی اور اسی شام لاہور واپس لوٹ گیا۔
مارشل لا کے آثار‘ جنرل پر ویز مشرف کے ساتھ رخصت ہو گئے۔ اب کوئی صحافی اور سیاسی کارکن جیل میں نہیں‘ مگر عدلیہ کی آزادی پر‘ جو سب آزادیوں کی ماں ہے‘ سوالیہ نشان لگ چکا ہے اور سیاسی پکڑ دھکڑ کی جگہ بقول قادر حسن کرپشن نے لے لی ہے۔ جس زمانے کا وہ ذکر کر رہا ہے کرپشن مجبوری نہیں اختیاری تھی۔ غلامی کے دور کی طرح۔ نادہند کرائے داروں سے میری مقدمہ بازی رہتی تھی۔ لوئر مال پر ایک عدالت کے اہل کار کو میں نے دس روپے رشوت پیش کی‘ اس امید میں کہ وہ اگلی پیشی کی تاریخ جلد دے گا۔ وہ مجھے اندر طلب کرکے بولا: میں آدمی ہوں ذرا اصول پسند‘ آپ مجھے بیس روپے دیں تو میں دوسرے فریق سے بات نہیں کروں گا۔ ترقی کے عشرے میں کرپشن بہت کم تھی مگر بقول حبیب جالب لوگ اپنے خرچ پر قید تھے۔ ایوب کے بعد رشوت کی شرح مقرر ہوئی۔ دس فیصد‘ جو بڑھتے بڑھتے پچاس فیصد سے تجاوز کر گئی اور یہ زہر پورے قومی جسم میں پھیل گیا۔
حسن سے میری ملاقات رکھ غلاماں ضلع میانوالی میں ہوئی۔ گورنر مغربی پاکستان نواب امیر محمد خان نے اپنی جاگیر کالا باغ کے قریب اخبار نویسوں کو جدید کھیتی باڑی دیکھنے کی دعوت دی تھی۔ میں لاہور سے اور حسن سرگودھا سے آیا تھا‘ جہاں وہ امروز کا نامہ نگار تھا۔ امروز پر سرگودھے کا سایہ تادیر رہا۔ مجھے احمد ندیم قاسمی نے ملازم رکھا تھا اور 1958ء میں جب وہ‘ سید سبط حسن‘ مظہر علی خان اور سید افتخار احمد کے ہمراہ مستعفی ہوئے تو اخبار کی ادارت ان کے دبلے پتلے بھانجے ظہیر بابر نے سنبھالی‘ جو ایک دلیر اور قابل اخبار نویس ثابت ہوئے۔ ہر چند کہ گورنر نے بیگم وقارالنسا نون کی موجودگی میں مجھے رضاکارانہ معاشرتی خدمات کا ایک ایوارڈ دیا تھا مگر ہر اخبار نویس کی طرح میں نے جس تھالی میں کھایا اسی میں چھید کیا۔ گورنر صاحب نے لاہور میں جرائم پیشہ آدمیوں کی سرگرمیوں سے تنگ آ کر پولیس کو حکم دیا تھا کہ انہیں ٹھکانے لگا دیا جائے۔ میں نے بیڈن روڈ پر باؤ یٰسین کلکتے والے کو قلعہ گجر سنگھ کے پستہ قد تھانیدار کے ہاتھوں پٹتے دیکھا۔ بستہ الف کے بدمعاش تھانوں میں جاتے تھے اور اپنی جان بچانے کی خاطر حوالات میں بند ہونے کی درخواست کر تے تھے۔ چند ہفتوں کے دوران کوئی دو درجن بدمعاش مارے گئے اور پھر وہ دن آ گیا جس کے لیے پولیس اور صحافی تیار نہ تھے۔ صبح سویرے لٹن روڈ پولیس چوکی سے فون آیا کہ جیرہ بدمعاش‘ پولیس سے مقابلہ کرتے ہوئے مارا گیا ہے‘ اگر خبر لینی ہے تو مزنگ چونگی پہنچ جاؤ۔ میری رہائش اس مقام سے زیادہ دور نہ تھی اور ہمارا نیوز فوٹو گرافر خواجہ قیوم تو اور قریب تھا۔ میں نے اسے خواب خرگوش سے جگایا اور جلدی سے چوک میں جا پہنچا۔ دیکھا تو ایک کانسٹیبل تڑپتے ہوئے بدمعاش کے مردہ ہاتھ میں ایک پستول دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ تھا پاکستان میں جعلی پولیس مقابلوں اور لاپتہ افراد کا آغاز۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved