تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     02-05-2014

حکمرانوںکی عیاشی اور ٹیکس کلچر

ٹیکس چوروں، کالے دھن کو سفید کرنے اور قومی دولت لوٹنے والوں کو کھلی چھوٹ دینے کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں بدنام ہے۔ جب نصف سے زائد آبادی غذائی قلت کا شکار ہو تو حکمرانوں کی طرف سے نہایت ڈھٹائی سے کیے جانے والے غیر ضروری اور بے تحاشا اخراجات مجرمانہ سرگرمی کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے کیے گئے بجلی کے بلوں، پٹرول اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جس دوران غریب عوام کا جینا دوبھر ہوتا جا رہا ہے، ان پر لگائے گئے بالواسطہ ٹیکسوں اور اندرونی اور بیرونی قرضوں سے حاصل ہونے والی رقوم پر پلنے والے دولت مند طبقے مزید امیر ہوتے جا رہے ہیں۔ 
دولت مند طبقوں اور بااثر طبقات سے ٹیکس وصول کرنے کی بجائے بالواسطہ ٹیکس عائد کرنے سے نہ صرف عام آدمی کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس کے معیشت پر بھی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پبلک قرضہ جات کے بڑھتے ہوئے حجم کی وجہ سے اس سال مالیاتی خسارے کی شرح بلند رہے گی۔ ہمارے مجموعی قرضے، جو جی ڈی پی کا 70.5 فیصد ہیں، 17.25 ٹریلین روپے تک پہنچ چکے۔ 2012-13ء میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 8.5 فیصد رہا جبکہ بجٹ میں اس کو چار فیصد تک رکھنے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک طرف جہاں محصولات اور اخراجات میں فرق بڑھ گیا وہیں حکومت مختلف اشیا، خاص طور پر بجلی کے نرخوں پر امدادی قیمت دینے کے سلسلے کو روکنے میں ناکام رہی۔ موجودہ مالی سال کے دوران یہ صورت حال مزید خراب ہو رہی ہے کیونکہ ایف بی آر محصولات کا ترمیم شدہ ہدف 2345 بلین روپے بھی حاصل کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ چیئرمین ایف بی آر نے سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے مالیاتی امور کے سامنے تسلیم کیا کہ فی الحال محصولات کے ظاہر کیے گئے حجم میں واجبات کے علاوہ ایڈوانس کی رقوم بھی شامل تھیں۔ 
پندرہ اپریل 2014ء کو چیف کمشنرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فنانس منسٹر نے محصولات میں سترہ فیصد اضافہ کرنے پر اس کے چیئرمین اور ان کی ٹیم کی کارکردگی کو سراہا لیکن اس اضافے کے لیے ان کی طرف سے روا رکھی جانے والی سختی کی بابت سامنے آنے والی شکایات کی تحقیقات کرانے کی زحمت نہ کی۔ اسحاق ڈار، جو ایک ماہر چارٹرڈ اکائونٹنٹ ہیں، بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی آنکھوںکے سامنے کس طرح اعدادوشمار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ جب وہ گزشتہ دور میں فنانس منسٹر تھے تو پاکستان غلط اعدادوشمار پیش کرنے کا مرتکب پایا گیا اور شوکت عزیز نے تسلیم کیا تھا کہ اس کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف کو جرمانہ بھی ادا کرنا پڑا تھا۔
ہم مالیاتی خسارہ ختم کرنے کے لیے درکار آٹھ ٹریلین روپے آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں۔ موجودہ آبادی، جو ایک سو اسی ملین کے قریب ہے، میں سے پانچ ملین افراد ایسے ہیں جن کی قابل ٹیکس آمدنی پندرہ ملین یا اس سے زائد ہو تو ان سے سولہ سو بلین روپے ٹیکس کی مد میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں کاروباری اداروں اور ایسے افراد‘ جن کی آمدنی پانچ لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان ہے، سے اضافی ٹیکس حاصل کر کے محصولات کو تین ہزار ٹریلین روپے تک پہنچایا جا سکتا ہے، جبکہ ایف بی آر نے 2012-13ء میں صرف سات سو پندرہ بلین روپے حاصل کیے تھے اور اس میں انکم ٹیکس کے علاوہ براہ راست ٹیکسز شامل تھے۔ براہ راست ٹیکسوں کا پینتیس فیصد بالواسطہ ٹیکسز پر مشتمل ہے جو presumptive taxes کی مد میں حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس سے نہ صرف انکم ٹیکس میں 2284 بلین روپے کا فرق آ جاتا ہے بلکہ براہ راست ٹیکسوں کی شرح ایف بی آر کے دعووں کے برعکس بہت کم رہ جاتی ہے۔ سیلز ٹیکس، وفاقی ایکسائز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیوں میں بدعنوانی کی وجہ سے ان کی مد میں ملنے والی رقوم اصل رقوم کا صرف پچیس سے پینتیس فیصد ہی حاصل ہو پاتا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ایف بی آر نے سیلز ٹیکس کی مد میں 841 بلین، وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 119 بلین اور کسٹم ڈیوٹیوں کی مد میں 239 بلین روپے اکٹھے کیے۔ بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے 1939 بلین روپے بھی بہت کم ہیں۔ اس کا حجم کم از کم پانچ ہزار بلین روپے ہونا چاہیے۔ اگر صرف ایکسائز ٹیکس میں خسارے کو کم کر لیا جائے تو ہمارا ریونیو آٹھ ہزار بلین روپے تک پہنچ سکتا ہے (تین ہزار بلین براہ راست ٹیکسز اور پانچ ہزار بلین بالواسطہ ٹیکسز)۔ اس سے قوم کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔ اگر ہم یہ رقم حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم موجودہ اخراجات پورے کرنے کے علاوہ عوامی فلاح کے کاموں کے لیے بھی رقم کا بندوبست کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اندرونی اور بیرونی طور پر بھی قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ 
دولت مند اور طاقتور طبقے سے براہ راست ٹیکس وصول نہ کرنے اور انہیں ریاست کے وسائل سے فوائد حاصل کرنے کی اجازت دینے کی پالیسی کی وجہ سے غریب عوام کی حالت ابتر ہے۔ درحقیقت ریاست کے پاس وسائل کی کمی نہیں لیکن حکمرانوں کی طر ف سے دولت مند افراد سے ٹیکس وصول کرنے کی کوئی خواہش دکھائی نہیں دیتی۔ اگر آپ عام آدمی کی حالت، اس کا مکان اور اس کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ اور طبی اور تعلیمی سہولیات، پر نظر ڈالیں اور دوسری طرف دولت مند طبقے اور اعلیٰ سرکاری افسران کی رہائش گاہوں اور ان کے زیر استعمال مہنگی گاڑیوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس ملک کا اصل مسئلہ کیا ہے۔ اسی کلچر کی وجہ سے ہماری معیشت سخت خطرے سے دوچار ہے۔ درحقیقت پاکستان کی موجودہ سماجی اور سیاسی افراتفری کے پیچھے دیگر عوامل کے علاوہ موجودہ معاشی نظام (اگر اسے نظام کہا جا سکے) کا ہاتھ ہے۔ گزرنے والے ہر دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ لوگ خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس وقت ایسے افراد کی تعداد ساٹھ ملین سے کم نہیں۔ 
ہم اُس وقت تک موجودہ صورت حال سے نجات نہیں پا سکتے جب تک آئین کے آرٹیکل 3میں درج اصولوں کو ان کی اصل روح کے مطابق لاگو نہ کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر کسی کو نہ صرف کام مہیا کیا جائے بلکہ اس کے کام کا جائز معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔ ہمارے حکمران طبقے اور سرکاری اداروں کے افسران کو ملنے والی تنخواہوں سے عام شہریوں کی طرح ٹیکس کی رقم منہا کی جائے۔ ان کو سرکاری طور پر ملنے والی محل نما رہائش گاہیں واپس لے لی جائیں۔ ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے ان سے کہا جائے کہ کسی دن بغیر پروٹوکول کے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں یا شناخت ظاہر کیے بغیر کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کرانے کا جوکھم بھی اٹھا کر دیکھیں۔ ان کی جان اس ملک کے عوام سے زیادہ قیمتی نہیں۔ دنیا کے بہت امیر ممالک کے حکمران بھی چھوٹے گھروں میں رہتے اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ آپ روز نہیں تو کبھی کبھار ہی کرکے دیکھ لیں یا اپنے میڈیا مینجروں کے حصار سے باہر نکل کر عوام سے بات کرکے دیکھ لیں تو اندازہ ہو جائے کہ عوام کی زندگی کیسی ہے اور ان کی خمیدہ گردنوں پر کن پیران تسمہ پا نے گرفت جما رکھی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved