کشور ناہید کا نام بھی بڑا ہے اور کام بھی۔ اور ظاہر ہے کہ کام ہی سے آپ کا نام بڑا ہوتا ہے۔ زیر نظر کتاب زمانۂ ملازمت کی اس کی یادداشتوں کا مجموعہ ہے۔ ٹائٹل دلچسپ ہے جو قدوس مرزا نے بنایا ہے۔ اس پر ایک تو ہری مرچ بنائی گئی ہے جو پک کر سرخ ہو چکی ہے جو اس کی تحریر کے چٹخارے دار ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پھر ڈائری کا ایک ورق ہے اور پانچ سات پنسلیں‘ پانچ سات غالباً اس لیے کہ اس نے بیک وقت مختلف ذائقوں کی حامل چیزیں لکھنا ہوتی ہیں مثلاً نظمیں‘ غزلیں‘ آپ بیتی‘ کالم اور خط وغیرہ۔ ''ماہِ نو‘‘ کی ایڈیٹر تھیں تو مجھے لکھا کہ اپنی تصویر بھیجو۔ ساہیوال کے شاعر یٰسین قدرت کی میرے پاس ایک سے ایک بڑھیا تصویر موجود ہے (تم اسے بُڑھیا بھی پڑھ سکتے ہو!)
ایک کونے میں بلی کی تصویر ہے کہ یہ خود باگڑ بلی ہے اور جنگلی بلی پر پیار سے ہاتھ پھیرتے وقت یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ کسی وقت بھی پنجہ مار کر آپ کو لہولہان کر سکتی ہے کیونکہ یہ گربۂ مسکین نہیں بلکہ وہ ہے جس کے بارے میں شاعر نے کہہ رکھا ہے کہ ؎
نہ بینی کہ چوں گُربہ عاجز شود
برآرد بہ چنگال چشمِ پلنگ
ابتدائیہ میں لکھتی ہیں:
ہمارے زمانے میں سینئر ادیبوں کی بہت تحریریں آئیں۔ قدرت اللہ شہاب سے لے کر الطاف گوہر تک‘ وہ سب سرکار کے آئینہ گر تھے۔ انہوں نے اپنی ذات اور ملازمت کے زمانوں کو افسانوی رنگ اس لیے دیا کہ انہیں کبھی کالے کوس تبادلے اور سزا کے طور پر رات کی ڈیوٹی پر نہیں لگایا گیا تھا۔ لگایا بھی کیوں جاتا‘ وہ تو خود سرکار تھے۔ میں ہمیشہ ہی معتوب رہی مگر حوصلے کی چٹان کبھی گرنے نہیں دی۔ بہت طعنے سنے کہ آپ شاعر ہوں گی تو ادب کے میدان میں‘ یہاں پر اٹھارہ درجے کی ملازم ہیں‘ اپنے آپ میں رہیں۔
پہلے پہل میں نے اپنی یادوں سے بھاگنے کی کوشش کی مگر آج کی نوجوان ملازمت پیشہ بچیوں کو جب باس کے سامنے بیٹھ کر یہ منظر دیکھنا پڑے کہ وہ خاتون کو دیکھ کر اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں اور گفتگو کرنا شروع کریں اور سامنے بیٹھی 17گریڈ کی ملازمہ غصہ کھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ کر سکے تو ذہن نے کہا‘ یادوں سے بھاگو مت۔ آج کی بچیوں اور نوجوان لڑکوں کو یہ حوصلہ دو کہ نوکری کرو‘ چاکری نہیں۔ پاکستان کی سیاست میں آبرومندی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ وہی سیاستدان جو پبلک میں آ کر بلاخیز اور ایمان پرور تقریریں کرتے ہیں‘ تخلیہ میں اپنے ماتحت ملازمین کو کس طرح بے آبرو کرتے اور غلاظت آمیز شگوفوں سے نہال کرتے ہیں‘ میں نے کچھ منظر خود دیکھے اور کچھ کی کہانیاں قریبی دوستوں سے سنیں۔ عزتِ نفس پامال کرنے والوں کے سامنے جا کر بہت سے سربزانو ہوتے ہوئے‘ ایسے دوست بھی دیکھے جو باہر کی دنیا میں غرور کی داستانیں سناتے دکھائی دیتے تھے۔ وہ عزیز بھی دیکھے جو افسروں کے کان بھرنے کا صلہ پاتے تھے‘ اور وہ بھی افسر دیکھے کہ اگر باس کا کُتا مر جائے تو قبر میں لیٹ کر یہ اندازہ کرتے تھے کہ قبر صحیح کھدی ہے یا نہیں۔ وہ بھی دیکھے کہ جو بھٹو صاحب کے اقوام متحدہ کے بیان کی کاپیاں لوگوں کے کندھوں پر بیٹھ کر لہرا رہے تھے۔ بس فقط چار دن بعد ضیاالحق کے تابعداروں کی صف میں کھڑے تھے۔ وہ بھی دیکھے جو ضیاالحق کی گاڑی کے سامنے لیٹ کر نوکری کی بھیک مانگتے تھے۔ اور وہ بھی دیکھے‘ خاص طور پر خواتین جو حصول مقصد کے لیے کوئی بھی کام کرتے ہوئے نہ کبھی گھبرائیں اور نہ کبھی شرمندہ ہوئیں۔ بات تو بہت دور تک جائے گی کہ جنرل مشرف کے لیے ہر شام کو ارغوانی بنانے کے لیے ایک طرف اعلیٰ نوکری حاصل کرتے تھے اور دوسری طرف اپنی پاکیزگی کا ڈھونگ بے موقع رچاتے تھے۔ ارے یہ تو چند اشارے ہیں۔ آپ سے پاکیزگی کی سند نہیں لے رہی‘ تماشائے اہلِ کرم دکھا رہی ہوں۔
18 ابواب پر مشتمل اس انتہائی مزیدار کتاب میں سے چند ٹکڑے‘ جو سنگِ میل پبلی کیشنز لاہور نے چھاپی ہے:
٭ لڑائیاں ادیبوں کی تو بہت دیکھی ہیں۔ ایک لڑائی فاطمہ جناح کے الیکشن کے دوران شورش کاشمیری اور حبیب جالب کے درمیان تھی۔ ٹولنٹن مارکیٹ میں بہت بڑی گروسری شاپ تھی‘ دونوں کا ٹاکرا وہاں ہوا۔ اور اب شامت آئی گھی کے ڈبوں کی کہ وہ ایک دوسرے کو اٹھا اٹھا کر مارنے لگے۔ شکر ہے بیچ بچائو کرا دیا باہر کھڑے بس کے منتظر لوگوں نے کہ حبیب جالب نے کہہ دیا تھا کہ تم تو الیکشن ریڈ لائٹ ایریا کے بل بوتے پر لڑنے آئے ہوئے ہو!
٭ 1991ء میں سیمون ڈی بوار کی کتاب کا ترجمہ بلکہ تلخیص میں نے کی۔ وین گارڈ نے شائع کی‘ قیامت ہو گئی۔ ایک ماہ میں پانچ ہزار کاپیاں فروخت ہو گئیں۔ یونیورسٹی کے سارے بچوں نے کتاب خریدی۔ حکومت میں تو حشر برپا ہو گیا۔ وہ کتاب نہ صرف پنجاب میں بلکہ سارے صوبوں میں الگ الگ بین کی گئی۔ اب باقاعدہ فحاشی لکھنے کے الزام میں مقدمہ قائم ہوا۔ ڈی ایس پی علاقہ میرے دفتر میں آ کر بولا: ''آپ کہیں چلی جائیے‘ مجھے آپ کو آج گرفتار کرنے کا حکم ہے‘‘۔ میں نے کہا‘ ''خوشی سے کرو‘ میں تو دفتر میں بیٹھی ہوں‘‘ اس نے پھر کہا ''مجھے اچھا نہیں لگے گا‘ آپ براہ مہربانی کہیں چلی جائیں‘‘ اتنی دیر میں ایک دوست ایس پی کا فون آیا کہ میں اٹک سے ابھی لاہور آ رہا ہوں‘ تمہاری ضمانت کرانے۔ لاہور والا ایس پی مجھے حوالات میں لے گیا۔ بڑی مزیدار چائے اور سموسوں سے خدمت کی اور جب تک پیشگی ضمانت کے آرڈر لے کر میرا دوست واپس نہیں آ گیا‘ میں حوالات میں موجود رہی۔
٭ ضیاالحق کی چھوٹی بیٹی ذہنی طور پر مائوف تھی مگر مجھے آج بھی یاد ہے‘ کچھ سیاسی خواتین اور کچھ فلمی شخصیات اس بچی کو گود میں اٹھائے پھرتی تھیں۔ اس بچی کو شترو گھن سنہا بہت پسند تھا۔ اس کو اکثر اسلام آباد بلایا جاتا۔ اس بچی کی پسند کے مطابق کراچی سے مزاحیہ پروگراموں کی ٹیمیں بلائی جاتیں اور وہ اس کے لیے پرفارم کرتیں۔ کیبنٹ میٹنگ کے دوران وہ بھاگتی ہوئی آ جاتی۔ ادیبوں میں سے چند لوگ تھے جن کو لطیفے سنانے کے لیے لاہور سے بلایا جاتا۔ اب وہ مانتے ہی نہیں کہ وہ ضیاالحق کے نورتن تھے۔
٭ 1998ء تک کبھی اِدھر‘ کبھی اُدھر مجھے دفتر دفتر گھمایا جاتا رہا۔ جب بینظیر کی حکومت آئی تو مجھے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر لگا دیا گیا۔ اس سے پہلے 18 برس تک اشفاق احمد صاحب نہ صرف اس کے سربراہ رہے بلکہ انہوں نے اس ادارے کی بلڈنگ بھی بنائی تھی‘ ان کو گمان یہ تھا کہ وہ ادارے کے تاحیات سربراہ رہیں گے۔ آدھا سٹاف ان کے گھر کے اور آدھا ان کے مسودوں کی درستگی کا کام کرتا تھا۔ میں نے بہت بلایا کہ آپ کا الوداعیہ کریں‘ آپ کی تصویر مرکز میں لگائیں مگر وہ مجھ سے ایسے برہم تھے کہ جیسے میں نے ہی انہیں نکلوایا ہو۔ اردو سائنس بورڈ کا ہنی مون بینظیر کی حکومت کے ساتھ ہی ختم ہوا اور راتوں رات وزیر اعظم ہائوس سے سراج منیر نے ایک ہرکارہ یا پیادہ بھیجا اور مجھے دفتر سے فوری طور پر خارج کرنے کا حکمنامہ میرے ہاتھ میں تھما دیا گیا۔
٭ 1971ء میں بھٹو صاحب نے کھر صاحب کو پنجاب کا گورنر بنایا تھا۔ ایک وزیر ایسے تھے کہ وہ دوپہر کو دفتر آتے‘ وہ اطلاعات کے وزیر تھے۔ ایک دفعہ بھٹو صاحب ایئرپورٹ اُترے‘ سب وزیروں سے ملاقات کر رہے تھے۔ ان کے پاس پہنچے تو وزیر صاحب نے بھٹو صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ''سر یہ بتائیں میں نے مخبری کر کے آپ کو بتانی ہے کہ کھر صاحب کو‘‘ یہ وزیر صاحب اکثر بلکہ تمام تر فائلیں بغیر دستخط کیے واپس کر دیا کرتے تھے۔ سیکرٹری نے کہا‘ ''سر آپ بس سین لکھ کر فائل واپس کر دیا کریں‘‘ اب انہوں نے جو فائلیں واپس کیں تو اُن پر ''س‘‘ لکھا ہوا تھا۔
٭ ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک طائفہ تاشقند جانا تھا۔ سیکرٹری صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں اور بہوئوں کے نام بھی ڈال دیے۔ آخر وقت میں گیا کوئی نہیں۔ پتہ بھی تب چلا جب طائفے کے دیگر لوگ واپس آئے۔ اس دوران سب کے چیک بنا کر بھیجے جا چکے تھے۔ جب پتہ چلا کہ خاندان میں سے کوئی نہیں گیا تو میں نے جرأت کی اور کہا کہ چیک واپس کر دیں۔ بات دو تین دفعہ دہرائی گئی۔ پھر مجھ کو بھی حوصلہ نہ ہوا۔
کتاب کے آخر پر خاندان کی اکٹھی اور الگ تصویریں ہیں۔ 1970ء میں بنائی گئی کشور کی ایک تصویر دیکھ کر تو میں حیران رہ گیا کہ یہ کبھی اتنی پیاری بھی ہوا کرتی تھی! میں اس کا آدھا عاشق تو پہلے ہی تھا‘ یہ تصویر دیکھ کر پورا ہو گیا ہوں۔ اللہ رحم کرے!
آج کا مقطع
میں بھی ظفرؔ ہر بات سے منکر ہو سکتا ہوں
وہ بھی اگر چاہے تو صاف مُکر سکتی ہے