تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     03-05-2014

یہ کیسی لوٹ مچی ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام میں زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنا‘ بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ مزدوروں کو کم سے کم اجرت دے کر نفع میں اضافہ کرنا‘ حاصل شدہ نفع کو جمع کرنا اور پھر جمع شدہ سرمائے سے نئے کارخانے اور نئی تجارتی سرگرمیوں میں حصہ لینا۔ جیسے جیسے سرمایہ دارانہ نظام پھیلتا اور ترقی کرتا ہے‘ ساتھ ساتھ وہ‘ مطلوبہ افرادی قوت کے حالات زندگی پر بھی توجہ رکھتا ہے۔ مزدور کی اتنی دیکھ بھال تو نہیں کی جاتی‘ جتنی مشینوں کی ہوتی ہے‘ لیکن یہ خیال ضرور رکھا جاتا ہے کہ اس کے جسم میں اتنی طاقت رہے جس سے اس کی ''پیداواری صلاحیت‘‘ (محنت کی استعداد) میں کمی واقع نہ ہو۔ اس مقصد کے لئے اسے رہائشی اور طبی سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں۔ رہائشی سہولتیں اس لئے کہ مزدور کا وقت شہری آمدورفت کی بھیڑ میں ضائع نہ ہو اور وہ کام کی جگہ پہنچتے وقت‘ تھک نہ چکا ہو۔ اضافی ضروریات کے لئے اسے تنخواہ کے مساوی ایک دو‘ اور بعض کمپنیوں میں تین چار بونس بھی دے دیئے جاتے ہیں۔ یعنی دو باتوں کو اہمیت حاصل ہے۔ پیداواری نظام کا سب سے نچلا درجہ یعنی مزدور‘ اس کے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رہے اور سب سے اوپر کی سطح یعنی سرمایہ‘ منجمد نہ ہو۔ سرمایہ گردش میں رہے گا‘ تو مزید پھولے پھلے گا اور اسے منجمد کر دیا جائے‘ تو سرمایہ دارانہ نظام بھی منجمد ہو جاتا ہے۔ 
پاکستان میں کہنے کو سرمایہ دارانہ نظام ہے‘ لیکن حقیقت میں یہاں جمہوری آمریت بلکہ جمہوری ڈاکہ زنی مسلط ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں تہذیب‘ کلچر‘ قانون کی عملداری اور سرمایہ دارانہ نظام کے نظام ملکیت اور صنعت و تجارت کے لئے سازگار ماحول پر مسلسل توجہ دی جاتی ہے۔ قانون کی عملداری کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور شہریوں کے مابین رشتے‘ رائج الوقت قوانین کے تابع رہیں اور حکومت ٹیکس وصول کرنے کے عوض‘ شہریوں کے جان مال‘ تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کے لئے تحفظ مہیا کرے۔ کسی کو امتیازی حقوق حاصل نہ ہوں۔ جو بھی استحصال اور لوٹ مار کی جائے‘ وہ ریاست کے فراہم کردہ ضابطوں کے تحت ہو۔ یعنی سرمایہ دارانہ نظام استحصال اور لوٹ مار کے قانونی ذرائع مہیا کر دیتا ہے۔ پھر کسی کو تجاوز کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بے شک اس نظام کو ہم ظالمانہ کہیں یا استحصالی‘ لیکن جتنے بھی قابل عمل مالیاتی نظام آزمائے گئے‘ ان میں سب سے اچھے نتائج اسی نظام نے دیے۔ جیسے جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بے شک یہ کوئی آئیڈیل نظام نہیں لیکن اس سے بہتر کوئی نظام موجود بھی نہیں۔ یہی بات سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں درست ہے۔ مگر ہمارے ملک میں کیا رائج ہے؟ جمہوریت ہو یا حکومت‘ معیشت ہو یا معاشرہ‘ کسی بھی شعبے میں کوئی نظام موجود نہیں۔ ایک عجیب طرح کا ڈاکو نظام معرض وجود میں آ گیا ہے‘ جس میں تیزی کے ساتھ ‘جسم کے نچلے حصے کا خون‘ سر میں جا کے جمع ہوتا جا رہا ہے اور واپس جسم کے نچلے حصے کی طرف نہیں آتا۔ انسان کی یہ حالت ہو‘ تو وہ چند دنوں میں مر جاتا ہے اور معاشرے کی یہ حالت ہو جائے‘ تو وہ پانچ سات عشرے بھی نکال جاتا ہے۔ ہم ارتکاز و جمود خون‘ کی حالت میں تین چار عشرے گزار بیٹھے ہیں۔ انجام تک پہنچنے کے لئے ہمارے پاس مزید تین عشروں سے زیادہ کا وقت نہیں رہ گیا۔ میں سماجی یا اقتصادی سائنس دان نہیں ہوں‘ لیکن قوموں کے عروج و زوال کی تھوڑی بہت کہانیاں ضرور پڑھ رکھی ہیں۔ آج ہمارا ملک‘ جس حالت میں آ چکا ہے‘ یہاں کے عوام کے لئے زیادہ پُرامیدی کی گنجائش نہیں۔ کوئی معجزہ ہو جائے تو ہو جائے‘ ورنہ جس رفتار سے دولت سمٹ کر منجمد ہو رہی ہے‘ اسے آپ غریبوں کا خون سمجھئے‘ جو معاشرے کے بالائی حصوں کی طرف جانے کے بعد واپس نہیں آرہا۔ جیسا میں نے شروع میں عرض کیا‘ سرمایہ دارانہ نظام میں گردش زر‘ دوران خون کی طرح جاری رہتی ہے۔ یہاں غریب کا جو خون نچوڑ کر بالائی سطح پر پہنچا دیا جاتا ہے‘ واپس نیچے کی طرف نہیں آتا۔ پاکستانیوں کا سرمایہ‘ پہلے مقامی بنکوں میں جمع ہو کر رک جاتا ہے۔ اس کے بعد بیرونی بنکوں میں جا کر نشوونما پاتا ہے۔ کہیں اسے بنکوں میں رکھ کر سود کھایا جاتا ہے اور کہیں بیرونی دنیا میں سرمایہ کاری کر کے مزید نفع کمایا جاتا ہے‘ لیکن بیرونی ملکوں میں ہونے والی سرمائے کی اس گردش سے پاکستانی عوام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ جو سرمایہ ایک بار پاکستان سے نکل گیا‘ وہ نکل گیا۔ واپس نہیں آتا۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ ادھر معاشرے کا حال یہ ہے کہ اس کے جسم کے نچلے حصے سے خون نکالنے کی گنجائش نہیں رہ گئی۔ متوسط طبقے کا خون نکالنے میں دشواری پیش آنے لگی ہے۔ آخر رہ گیا درمیانے طبقے کا بالاتر حصہ یا سرمایہ دار طبقے کا نچلا حصہ۔ یہ لوگ چھوٹے اور کسی حد تک بڑے سرمایہ دار ہوتے ہیں۔ ان کی مالیاتی استعداد کروڑوں سے لے کر آٹھ دس ارب روپے تک ہوتی ہے۔ حکومت نے خون نچوڑنے کی مشینیں‘ ہمارے مالیاتی جسم کے اس حصے میں گاڑ دی ہیں۔ سارے ٹیکس‘ اس سے وصول کئے جاتے ہیں۔ نئے ٹیکس اسی پر لگائے جاتے ہیں۔ مالیاتی قوانین انہی کے لئے سخت کئے جا رہے ہیں۔ اگر موجودہ پالیسی جاری رہی‘ تو یہ طبقہ بھی زیادہ سے زیادہ آٹھ دس سال نکال سکے گا۔ اس دوران جو لوگ حوصلہ کریں گے‘ وہ بیرونی ملکوں میں کہیں جا کر‘ روزی کمانے کا بندوبست کر لیں گے اور جو یہیں پڑے رہ جائیں گے‘ وہ اپنا خون دیتے دیتے متوسط طبقے میں شامل ہو جائیں گے۔ موجودہ نچلا طبقہ‘ چند سالوں کے اندر‘ تھر کے باشندوں جیسی حالت میں آ جائے گا۔ متوسط طبقہ‘ مزدوروں کے درجے پر پہنچ جائے گا اور نیم سرمایہ دار طبقہ‘ متوسط طبقے میں چلا جائے گا۔ یہاں پہنچ کر ہمارے معاشرے کی حالت غیرفطری ہو کر رہ جائے گی یعنی جسم کے بالائی حصے میں جانے والا خون جمتا رہے گا اور معاشرے کے نچلے درجوں میں آنے والے لوگ‘ جانکنی کی زندگی گزاریں گے۔ 
نچلے سرمایہ دار طبقے کے جسم سے‘ خون نچوڑنے والی نئی مشینیں بنکوں میں رکھی جا چکی ہیں اور ہر درمیانے درجے کے صنعتکار اور کاروباری ادارے کا‘ جہاں بھی لین دین ہے‘ وہاں بھی ایک ایک مشین رکھ دی گئی ہے۔ ایف بی آر کو حکم ہے کہ نیا بجٹ آنے سے پہلے پہلے‘ زیادہ سے زیادہ سرکاری واجبات نچلے اور درمیانے درجے کے‘ ان سرمایہ کاروں کے ذمے ڈال کر وصولیوں کے نوٹس دیے جائیں۔ عدالتی کارروائی کے لئے چند روز کی مہلت دی جائے اور مہلت گزرتے ہی مشینیں سٹارٹ کر دی جائیں۔ اس عمل کو استثنائی انضباطی محصولیاتی حکم (STATUTORY REGULATORY ORDER) کہا جاتا ہے۔ جس کا مخفف ایس آر او ہے۔ ناجائز واجبات مسلط کرنے کا ہدف چند روز میں مکمل کر کے‘ ایس آر او کے تحت جبری وصولی کا آرڈر جاری کر دیا جاتا ہے اور سرکاری ڈاکہ زنی شروع ہو جاتی ہے‘ جس کے خلاف وصولی کا یہ حتمی حکم جاری ہو جائے‘ اس کے بنک کو ایف بی آر کا حکم نامہ پہنچا دیا جاتا ہے کہ ''ملزم‘‘ کے حساب میں جو رقم بھی جمع ہو‘ ضبط کر کے ایف بی آر کے کھاتے میں ڈال دی جائے اور یہی حکم مبینہ نادہندہ کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے والوں کو پہنچا دیا جاتا ہے کہ جبری نادہندہ کی جو رقم اس کے ذمے واجب ہے‘ وہ بھی ایف بی آر کے پاس جمع کرا دی جائے۔ رقم کا تعین کسی گوشوارے کی چھان بین کے بعد نہیں ہوتا۔ افسروں کو حکم ہے کہ وہ جیسے تیسے کر کے‘ شکار کے اصل ٹیکس کو کئی گنا زیادہ بڑھا دیں‘ وصولی کا نوٹس بھجوائیں اور انہیں عدالت سے مدد لینے کے لئے اتنی تھوڑی مہلت دی جائے کہ اپیل کا نمبر آتے آتے‘ وصولی کی میعاد ختم ہو جائے۔ میعاد ختم ہوتے ہی‘ اسے جبری وصولی کے شعبے کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ وہاں کے مجاز افسر کے پاس سودے بازی کی گنجائش ہوتی ہے‘ یعنی اگر 3 کروڑ کے اصل ٹیکس پر 10 کروڑ کی وصولی کا حکم ہوتا ہے‘ تو ردوبدل کا مجاز افسر‘ شکار کے ساتھ سودے بازی کر سکتا ہے۔ اگر وہ خوش ہو گیا تو ایک دو کروڑ کی مٹھائی پر قابل وصول رقم دو تین کروڑ کر دیتا ہے اور اگر بدمزہ ہو جائے‘ تو 10 میں سے ایک کروڑ کم کر کے‘ کاغذوں کا پیٹ بھرتا ہے اور جبری وصولی کا حکم نامہ جاری کر دیتا ہے‘ جس کے ساتھ ہی خون نچوڑنے والی مشینیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ دنیا میں ایسا کوئی سرمایہ دارانہ نظام نہیں ہے جس میں حکومت‘ کسی کی جمع پونچی زبردستی بنکوں سے چھین لے یا مارکیٹ میں اس کی واجب الادا رقوم‘ لین دار کی مرضی کے خلاف وصول کر کے بیٹھ جائے۔ یہ سراسر ڈاکہ زنی ہے‘ مگر کھلے بندوں ہو رہی ہے۔ پارلیمنٹ چپ ہے۔ سیاسی جماعتیں چپ ہیں۔ میڈیا چپ ہے۔ این جی اوز چپ ہیں۔ چیمبر خاموش ہے۔ اندھی لوٹ کا شکار ہونے والے کس کے پاس جائیں؟ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کریں یا اقوام متحدہ کے پاس جائیں؟ ڈاکو حکمرانوں کا ٹولہ‘ پاکستان کے معاشرتی جسم کی بوٹیاں بے رحمی سے نوچ رہا ہے۔ لہو نچوڑ نچوڑ کر اپنے طبقے کے پاس جمع کر رہا ہے۔ کوئی اسے 
روکنے والا نہیں۔ کوئی ٹوکنے والا نہیں۔ ایک ہی طریقہ باقی رہ گیا ہے کہ جہاں کوئی جلوس نکلے‘ ہر امیر غریب‘ ہر جوان اور بوڑھا‘ ہر غریب اور متوسط طبقے کا آدمی اور درمیانے اور بالائی طبقے کے سرمایہ دار‘ کام کاج چھوڑ کر اس جلوس میں شامل ہو جائیں۔ وہ کسی کا بھی ہو‘ پُرامن احتجاجی عمل میں ہر کوئی حصہ لے۔ شاید عوامی دبائو کی لہر بن جائے۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved