انسانی تاریخ بھی عجیب ہے، کتنے ہی بڑے بڑے لوگوں کو گمنامی کی موت مرنے دیتی ہے، ان کے کارناموں پر وقت کی دھول پڑ جاتی ہے، ان کی تحریریں کتابوں میں مدفون اور ان کی شہرتیں پیوندِ خاک ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی کوئی جستجو کرنے والا اپنے تجسس میں اس جانب آ نکلے تو ایسے لوگوں کا ذکر چھیڑ دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو صدیوں بعد کسی مضمون یا کتاب میں ان کا تذکرہ ہو جاتا ہے، اس کے بعد پھر ایک طویل خاموشی! یہی معاملہ تاریخی واقعات اور سانحات کا بھی ہے۔ کتنے بڑے بڑے المیے ہیں جو قوموں کی تاریخ میں گزرے، کیسی کیسی قیامتیں ان پر ٹوٹیں لیکن قوموں کے شعور کے کسی گوشے میں ان کی یاد تازہ نہیں رہتی۔ کیسی کیسی جنگیں، آفتیں، بلائیں، فتوحات اور شکست کی کہانیاں ہیں جنہیں کوئی یاد نہیں رکھتا۔ کہیں کہیں قومیتوں کے حوالے سے کورس کی کتابوں میں تھوڑا بہت تذکرہ مل جاتا ہے یا کبھی کسی تحقیقی یا ذاتی حوالے سے کسی مضمون، افسانے یا شاعری میں بھی ذکر ہو جاتا ہے، لیکن کچھ واقعات ایسے ہیں جو پوری انسانی تاریخ کے لیے علامت بن جاتے ہیں اور کچھ واقعات کسی مخصوص قوم کے لیے صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ایک حوالہ بنے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔ نہ ان واقعات کی یاد میں کمی آتی ہے اور نہ ہی افسانوں، کہانیوں، شاعری اور روزمرہ بول چال سے ان کا ذکر ختم ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی صلیب اور واقعۂ کربلا دو ایسی علامتیں ہیں جو آج تک انسانی تاریخ کے وسیع تناظر پر چھائی ہوئی ہیں۔ صلیب کی علامت دنیا بھر کی شاعری میں حضرت عیسیٰؑ کی معصومیت اور واقعۂ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مظلومیت کے تصور سے آج بھی روشن ہے۔ دونوں وقت کے جبرواستبداد کے سامنے مظلومیت اور تن تنہا لڑنے کی روایت کے امین ہیں۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ جب یہ دونوں واقعات رونما ہو رہے تھے تو دور دور تک کوئی ان کا ذکر کرنے والا بھی موجود نہ تھا۔ تاریخ مرتب نہیں ہوتی تھی، لوگ ان کے تذکرے سے کتراتے تھے۔ بادشاہوں کا خوف اور سپاہ کی دہشت وقتی طور پر دونوں واقعات کو خاموش کر گئی لیکن انہیں ایک علامت کا روپ دھارنے میں تھوڑا سا وقت لگا۔ حضرت عیسیٰؑ کے حواری بھی ملکوں ملکوں پھیل گئے اور سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد بھی عالم اسلام کے کونے کونے میں خوشبو کی طرح مہکنے لگی۔
ہر ملک کی تاریخ کے بھی یاد رکھنے والے چند واقعات ہوتے ہیں اور چند قابلِ ذکر لوگ بھی ہوتے ہیں جو داستانوں تک کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ کے بہت سے واقعات اور بہت سے قائدین گمنامی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے گئے۔ وہ جن کے نام کا ڈنکا بجتا تھا آج ان کی قبروں کو بھی کوئی نہیں جانتا۔ کیسے کیسے واقعات ہوئے، تحریکیں چلیں، لوگ مرے، ان تحریکوں کے رہنما بھی تھے، لوگوں کے جنازے بھی اٹھائے گئے، کتنے بڑے بڑے ہجوم نے جنازوں کا ساتھ دیا، لیکن ان تحریکوں کو یاد رکھنے والے صرف متعلقہ گروہوں کے لوگ ہی باقی رہ گئے۔ کسی نے ختم نبوت تحریک کو، کسی نے نظام مصطفیٰ کو اور کسی نے ایم آر ڈی کو یاد رکھا اور دن منایا، لیکن وہ دو واقعات جو پاکستان کی تاریخ میں علامت بنے ان میں پہلا تحریک پاکستان میں مہاجروں کی ہجرت اور شہادتیں اور دوسرا 1971ء کا سانحہ مشرقی پاکستان ہیں۔ یہ دونوں واقعات ایسے ہیں جن کی یاد تازہ ہے اور زخم بھی ہرے ہیں۔ 1947ء کے سال نے تو اتنا بڑا ادب تخلیق کیا جس کے بعد لگتا ہے اُردو ادب کا خزانہ ہی خالی ہو گیا۔ اُردو کیا، ہر زبان میں اس المیے کی داستان بیان ہوئی۔ سانحہ مشرقی پاکستان بھی دونوں ملکوں میں ایک نیا ادب تخلیق کروا گیا۔ اس سانحے پر پاکستان میں رونے والوں کی کبھی کمی نہیں رہی اور مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں بھی ادب کے ہر زاویے سے اس سانحے کو یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ مرتب کرنے والے بھی کئی سال گزرنے کے باوجود اس کے کسی نہ کسی نئے زاویے پر ہر سال کتب میدان میں لاتے ہیں‘ لیکن ان سب کے علاوہ واقعات کو ناپنے کا ایک اور پیمانہ بھی ہوتا ہے، یہ پیمانہ روزمرہ محاورے کا ہوتا ہے۔ مقررین کے خطابات میں اس واقعے کو کئی انداز سے یاد اور تازہ کیا جاتا ہے۔ ایک طویل عرصے سے تقریر میرا شوق رہا ہے۔ سکول میں چھٹی کلاس سے ایم اے تک میں نے سکول، کالج اور یونیورسٹی کے مباحثوں میں حصہ لیا۔ ایک مقرر کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ کون سا واقعہ ایسا ہے جسے بیان کرنے سے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کے دلوں کو گرمایا جا سکتا ہے، کون سا ایسا تیر ہے جو نشتر بن کر لگے اور جذبات سے کھیل جائے۔ گزشتہ کئی برسوں سے میں یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تقریری مقابلوں کے منصف یا صدارت کے فرائض بھی
انجام دے رہا ہوں۔ مدتوں تحریکِ پاکستان، ہجرت، شہادت اور سانحہ مشرقی پاکستان طلبہ کی تقریروں میں علامت کے طور پر نظر آتا رہا۔ جذباتی فقروں اور مقررین کی آواز کے زیر و بم سے یہ واقعات ہجوم میں تلاطم برپا کرتے اور تالیوں کی گونج بڑھ جاتی، لیکن گزشتہ چھ سات برسوں سے ایک اور واقعے نے ان دو واقعات کے ساتھ اپنی جگہ بنائی ہے۔۔۔۔ لال مسجد کا واقعہ اور جامعہ حفصہ کا سانحہ۔ کراچی سے لے کر پشاور اور کوئٹہ سے آزاد کشمیر تک شاید ہی کسی کالج یا یونیورسٹی کے بین الکلیاتی مباحثوں میں شریک ہونے والے طلبہ نے اس کا ذکر نہ کیا ہو۔ ان میں حجاب والی خواتین بھی ہوتی ہیں اور الٹرا ماڈرن لڑکے بھی، انگلش میڈیم سکولوں سے پروان چڑھنے والے اور عام نظامِ تعلیم کے پروردہ طلبہ سبھی ان میں شامل ہیں‘ لیکن ان سب مباحثوں میں جہاں کہیں مظلومیت کا تذکرہ آتا ہے، ریاستی تشدد کی گفتگو ہوتی ہے تو یہ مقررین جو جانتے ہیں کہ کون سا واقعہ دلوں کے تار چھیڑ سکتا ہے، وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ کربلا کے واقعے کے ساتھ اس واقعہ کا تذکرہ یوں کرتے ہیں جیسے یہ دونوں ایک سلسلے کی کڑی ہوں۔ پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور نے ایک حیران کن تبدیلی اس ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں پیدا کی‘ جسے شاید کوئی محسوس نہیں کر رہا۔ میں جب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو پوری یونیورسٹی میں ایک خاتون حجاب لیتی تھی اور اکا دکا لڑکوں کی داڑھی ہوتی تھی، ضیاالحق کے نفاذ اسلام اور معاشرتی اقدار کا غلغلہ تھا، لیکن یونیورسٹیوں میں حجاب رواج پا سکا اور نہ داڑھی۔ ضیاالحق کے بعد بھی دو دہائیاں ایسے ہی رہا لیکن پرویز مشرف کی سیکولر اخلاقیات کے نفاذ نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا کہ اب آپ کو ہر یونیورسٹی میں ہر تیسری لڑکی حجاب میں نظر آئے گی اور وہ داڑھیاں نظر آئیں گی جن کا کبھی یونیورسٹیوں میں مذاق اڑایا جاتا تھا۔ میں جب یہ ماحول دیکھتا ہوں تو مجھے حیرت نہیں ہوتی کہ جب کوئی مقرر کسی بھی کالج سے آئے یا کسی بھی بیک گرائونڈ سے تعلق رکھتا ہو وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا تذکرہ کر کے داد سمیٹنے لگے۔ داد دینے والوں کے نزدیک مشرف بے حجابی کی اس تحریک کی علامت ہے جس نے ان بچیوں کو حجاب پہننے اور لڑکوں کو داڑھی رکھ کر اپنے مذہبی جذبات کا اظہارکرنے پر مجبور کیا۔ ان کے نزدیک جامعہ حفصہ اس حکمران کے سامنے کھڑنے ہونے اور مظلومیت میں مارے جانے کی علامت ہے۔ علامتیں اپنے اندر جذباتیت رکھتی ہیں اور ایسے ہی ترتیب پاتی ہیں۔ ان کا سفر صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔ یہ چند سال اور کچھ افراد تک محدود نہیں رہتیں، وقت انہیں سنوارتا رہتا ہے۔ ایک طرف محبت اور دوسری جانب نفرت۔