تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-05-2014

جرمِ ضعیفی کی سزا

افراد ہوں یا اقوام، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ دوسروں کے عیوب نہیں، زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔ 
کراچی میں فساد برپا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ زرداری صاحب کے آخری دنوں میں سمگل شدہ کاروں کے لیے ایمنسٹی سکیم بالکل بجا تھی۔ پشاور میں ایک قبائلی جرگے سے خطاب کرتے ہوئے جناب سراج الحق نے ارشاد کیا ہے کہ پگڑیاں پہننے اور داڑھیاں رکھنے والے طالبان ہرگز نہیں بلکہ اسلام آباد کے بدعنوان حکمران دہشت گرد ہیں اور ان سے زیادہ انکل سام۔ 
میرے عزیز دوست جسٹس طارق محمود نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی تائید کی ہے۔ بہت دن سے وہ قلق کا شکار تھے کہ عدالتیں اپنی حدود سے تجاوز کرتی ہیں۔ اخبار نویسوں کے ایک طبقے کا اصرار ہے کہ ملک کا دفاع جائے بھاڑ میں، اصل چیز آزادیء اظہار ہے۔ بجا ارشاد، بجا ارشاد۔ سوال صرف یہ ہے کہ کیا اسی چیز کا نام طوائف الملوکی نہیں۔ یہی وہ چیز نہ تھی، جس کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: ع
آزادیء افکار ہے ابلیس کی ایجاد 
جناب اکمل علیمی کا کالم پڑھا اور جگر خون ہو گیا۔ وہ اخبار نویس، جو صحافت اور سیاست ہی نہیں، ادب اور تاریخ کے طالب علم بھی تھے۔ نظریات الگ، ڈٹ جانے کا عزم اور بات کہنے کا سلیقہ بھی۔ دوری محبت کو بھڑکاتی ہے۔ سمندر پار پاکستانی یقینی طور پر وطن سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اس عاشقِ زار کی طرح، جس کا دل پگھلتا رہتا ہے۔ لوٹ آنے کی بے پناہ آرزو کے باوجود، جرائم پیشہ لوگوں کے خوف سے، وہ آ نہیں سکتے تو کون ذمہ دار ہے؟ اپنے وطن سے شاعر نے پوچھا تھا ؎
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا؟
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنار کریں؟ 
آنسوئوں سے نہیں، قوموں کی تقدیر جدوجہد سے بدلتی ہے۔ ترجیحات کے تعین سے۔ 
مولانا سمیع الحق، جناب سراج الحق اور ان سے زیادہ پروفیسر ابراہیم ریاست کے اندر ریاست کا حق مانگتے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی یہی چاہتی ہے اور آج سے نہیں، مدّتوں سے۔ طالبان اور ان کے حامیوں کے خلاف تو واویلا کیا جا سکتا ہے مگر ایم کیو ایم کا احترام واجب ہے۔ اگر آپ کراچی کے شہری ہیں تو حکمران پیپلز پارٹی کے بازوئے شمشیر زن پیپلز امن کمیٹی کا بھی۔ 
اللہ جانے، جب تک یہ سطور شائع ہوں گی، کراچی میں کتنے بے گناہ خاک و خون میں نہلائے جا چکے ہوں گے اور کتنے خاندان اندرونِ ملک یا سمندر پار ہجرت کا فیصلہ کر چکے ہوں گے۔ شرجیل میمن نے کہا: بندوق کے زور پر شہر بند کرانا بھی دہشت گردی ہے۔ ان سے سوال یہ ہے کہ ہر ماہ لیاری میں پچاس سے ساٹھ کروڑ روپے بھتّہ وصول کرنے والوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ کیا انہی کی وجہ سے ایک بڑے شہر کے برابر یہ علاقہ منشّیات کے سوداگروں اور مذہبی فرقہ پرستوں کی جنّت نہیں بن چکا۔
ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی میں شراکتِ اقتدار کے لیے جب مذاکرات جاری تھے تو کن شرائط پہ گفتگو تھی؟ کیا وہ اپنی مرضی کے افسروں کا تقرر نہ چاہتے تھے؟ کیا وہ اپنی پسند کی وزارتیں طلب نہ کر رہے تھے؟ کیا سالانہ ترقیاتی فنڈ میں، نصف انہوں نے طلب نہ کیا تھا اور کیا کچھ کھرب پتی نہ تھے، جو سالانہ بجٹ سے قبل انہیں حکومت کا حصہ بنانے پر مصر تھے؟ کیا بلاول بھٹو اس پہ ناخوش نہ تھے اور معاملے کو موخر کرنے کے حق میں دلائل دیتے رہے۔ اس وقت ایک آدھ شرط آپ نے بھی منوا لی ہوتی۔
شرجیل میمن جانتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ خرابی کی جڑ کہاں ہے۔ سب کے سب مگر لیپا پوتی میں مصروف ہیں۔ سبھی پر مشرقی پنجاب کا محاورہ صادق آتا ہے ''ڈنگ ٹپائو پروگرام‘‘ سب کے سب فریاد کناں ہیں اور سب کے سب آسودہ ع
سب کر رہے ہیں آہ و فغاں، سب مزے میں ہیں 
بے حسی، بے حسی بلکہ ڈھٹائی اور بے حیائی۔ ایک کا نہیں، بہت سوں کا وتیرہ اب یہی ہے۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یاد آتا ہے: بے شرم اپنی مرضی کرے۔ احساس کی دولت لٹ جاتی ہے تو کچھ بھی باقی نہیں بچتا۔ افراد نہ اقوام، آزمائش کسی کو تباہ نہیں کرتی مگر آزمائش میں اس کا روّیہ۔ ناکامی اچھی ہے، بخدا ایک عظیم نعمت، اگر اس سے سبق سیکھ لیا جائے۔ کامیابی تباہ کن ہے اور بہت تباہ کن، اگر وہ آسودہ کر دے۔ سلیمان ذی شان کے بعد مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب ان کی فتوحات کا سورج کبھی غروب نہ ہوگا۔ ہندوستان میں اکبرِ اعظم، ایران میں شاہ اسمٰعیل صفوی۔ پیرس کی شانزے لیزے میں، خواتین کو اپنے ملبوس ٹخنوں سے اوپر اٹھانا پڑتے۔ پھر تاریخ کے چوراہے پر لمبی تان کر ہم سو گئے۔ علم سے بے نیاز، حالات سے بے نیاز!
کون سی قوم ہے، جو ادبار سے گزری نہیں۔ کس کا حکمران طبقہ سفّاک اور بے رحم نہ تھا مگر اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ پتوار ڈال دیے جائیں یا جرائم پیشہ لوگوں سے امیدیں باندھ کر خیالی جنّتیں آباد کی جائیں۔ حکمرانی کے طریق واضح ہیں اور معاشرے کی اجتماعی صحت مندی کے قرینے سبھی کو معلوم۔ افراد اور خاندانوں کی طرح، اقوام اور معاشروں کو بھی اپنی تقدیر خود لکھنا ہوتی ہے۔
کبھی ہم ایک قوم تھے مگر ملک نہ رکھتے تھے۔ اب ملک کے مالک ہیں مگر وہ قوم کہاں ہے؟ ریاست کہاں ہے؟ پولیس کہاں ہے؟ وہ عدالت کہاں، جو انصاف کی ضمانت اور تحفظ کا احساس عطا کرتی ہے۔ حکمرانوں کے ہم قصیدے سنتے ہیں، جو ذرائعِ ابلاغ کے بل پر حکومت فرما رہے ہیں۔ عدالتوں اور آزاد میڈیا کے بھی۔ بجا ارشاد، بجا ارشاد۔ حکومت مگر کس لیے ہوتی ہے؟ کیا قیامِ عدل، سیاسی استحکام اور مالی نظم و نسق کے سوا بھی کسی چیز کے لیے؟ اور یہ ذرائع ابلاغ؟ میرے منہ میں خاک، یہ ملک باقی نہ رہے گا، آئندہ برسوں میں اگر ریاست کی رٹ قائم نہ کر دی گئی۔ کریمینل جسٹس سسٹم کو اگر پوری قوت سے نافذ نہ کر دیا گیا۔ اگر ذرائع ابلاغ کو آزادی کے ساتھ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر مجبور نہ کیا گیا۔ غضب خدا کا، دہشت گردوں کو اوّل تو پولیس پکڑتی ہی نہیں۔ پکڑ لے تو تفتیش نہیں ہوتی۔ تفتیش ہو جائے تو عدالت سزا نہیں دیتی۔ دے ڈالے تو حکومت اس کا فیصلہ نافذ نہیں کرتی۔ امن پھر کہاں سے آئے؟ عدل کیسے قائم ہو؟ دوسرا سب سے اہم کام ٹیکس وصولی ہے۔ وہ صرف نوکری پیشہ ادا کرتے ہیں یا عام صارف۔ وزیر اعظم پورا ٹیکس دیتے ہیں اور نہ اپوزیشن لیڈر۔ بڑے تاجر اور نہ صنعت کار۔ زمینداروں کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ قانون کا نفاذ عام آدمی پر ہوتا ہے۔ مذہبی جماعتوں، لسانی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں پہ کبھی نہیں۔ اسلام آباد کے ایک سابق آئی جی سے پوچھا: فلاں مذہبی تنازعے میں گرفتار آدمی سے کیا آپ نے پوچھ گچھ کی؟ بولے: کمال کرتے ہیں آپ، ہم تو ڈاکوئوں کا احترام ملحوظ رکھتے ہیں، آپ ایک مقدّس شخصیت کی بات کرتے ہیں۔ 
کل کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا کہ ریاست کی رٹ کیسے قائم ہوتی ہے۔ فی الحال تو یہ ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے جیمز ڈوبنز اور امریکی سنٹرل کمانڈ کے جنرل آسٹن اسلام آباد میں ہیں۔ سول اور فوجی حکام کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ وہ ان کے سامنے تاویلات تراش رہے ہیں یا بھیگی بلّیاں بنے بیٹھے ہیں؟ فی الحال معلوم نہیں، معلوم ہو بھی جائے توکیا؟ع
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
افراد ہوں یا اقوام، تاریخ کا سبق یہ ہے کہ دوسروں کے عیوب نہیں، زندگی اپنے محاسن پہ بسر کی جاتی ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved