یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے کُل جی ڈی پی کا 32 فیصد، کُل گیس کا 70فیصد اور کُل تیل کا 56 فیصد پیدا کرنے والے سندھ کے سرکاری سکولوں میںسے تقریباً نصف کوپینے کے صاف پانی کی سہولت میسر نہ ہو؟ اگر ایسا ہے اورشواہد بتاتے ہیں کہ یہ بات درست ہے تو یقیناً یہ ایک افسوس ناک صورت ِ حال ہے۔ بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے روا رکھی جانے والی لاپروائی اس افسوسناک صورت ِحال کی ذمہ دار ہے، لیکن جب وہ دیکھے گا کہ اس وقت سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس سے پہلے یہی جماعت وفاق میں بھی پانچ سال تک اقتدارکے مزے لوٹتی رہی ہے تو وہ یہ نتیجہ ضرور نکالے گا کہ اگر صوبہ سندھ کسمپرسی کا شکار ہے تواس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ اس میں یقیناً گورننس کا مسئلہ ہے۔
یہ تاثر کہ سندھ حکومت کو وسائل سے محروم رکھا جارہا ہے، اس وقت مزید زائل ہوجاتا ہے جب آ پ صوبائی وزراء اور سرکاری افسروں کو چمکتی ہوئی لیموزین کاروں میں پولیس کے حفاظتی دستوںکے درمیان کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں دیکھتے ہیں۔ دراصل عوام کو درپیش زیادہ ترمسائل کا تعلق وسائل کی قلت کے بجائے بدانتظامی سے ہوتا ہے۔ میرے پرانے دوست بیرسٹر اعتزازاحسن نے پیپلز پارٹی کی ہائی کمان کے ایک اجلاس میں اس بات کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی کہ سندھ میں صورتِ حال خراب ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں ترقیاتی کام بہت تیزی سے ہو رہے ہیں تو پارٹی کے رہنما آصف زرداری نے اُنہیں یہ کہہ کر خاموش کرادیا کہ گورننس کے حوالے سے سندھ پاکستان کا سب سے بہترین صوبہ ہے۔ اس پرکون اختلاف کی جرأت کرسکتا تھا؟
کیاحقیقت یہی ہے ؟ اگر آپ کراچی ایئرپورٹ پراتریں تو خستہ حالی وہیں سے جھلکنا شروع ہوجائے گی۔ جب صوبائی دارالحکومت اوراس کے ایئرپورٹ کی یہ حالت ہوتو باقی صوبے کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔اس کے برعکس جب میں گزشتہ دنوں لاہورگیا تو مجھے احساس ہوا کہ میں کسی اور ملک میں آگیا ہوں کیونکہ میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہمارے کسی شہرکی سڑکیں اورگلیاں اتنی صاف اور ٹریفک کی صورت حال نسبتاً اتنی بہترہوگی۔ساٹھ کی دہائی میں جب یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں پہلی بار کام کے سلسلے میں لاہورگیا توصورتِ حال یکسر مختلف تھی۔ میرے لاہوری دوست مجھ سے کراچی کی عمارتوں اور صاف ستھری کشادہ سڑکوںکے بارے میں سن کر دنگ رہ جاتے تھے ۔ کراچی اور لاہورکے درمیان بتدریج نمایاں ہونے والے فرق کی وجہ‘ جسے آج بہت واضح انداز میں دیکھا جاسکتا ہے، محض اتفاق یا قسمت کا شاخسانہ یا کوئی قدرتی عامل نہیں بلکہ یہ ان دونوں صوبوں میں یکے بعددیگرے قائم ہونے والی حکومتوں کی کارکردگی کا علامتی اظہار ہے۔ اگرکراچی کی حالت کو مختصر ترین الفاظ میں بیان کرنا ہوتو یہی کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کا زوال اور ایک سیاسی جماعت کا عروج بیک وقت وقوع پذیر ہوتے چلے گئے۔
اگرکراچی کے مسائل کی وجہ یہاں ہونے والا تشدد اور لاقانونیت کا رجحان تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی صوبے کو کیا ہوا ؟ اس کی وجہ جاگیردارانہ طبقہ ہے جو اپنی توانا موجودگی رکھتا ہے۔ وڈیروںکی حکومت قائم ہونے کی وجہ محض موروثی سیاست ہے ، وہ نسل در نسل حکمرانی پرفائز رہتے ہیں،کوئی ان کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کی جرأت نہیںکرتا ، انہیں انتخابات میں کامیابی کے لیے کارکردگی، محنت اور احتساب کی چھلنی سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ اگرچہ میں شریف خاندان کے سیاسی تصورات کو پسند نہیںکرتا‘ نہ ہی پنجاب کے وزیراعلیٰ کا مداح ہوں، لیکن وہ کارکردگی، مہارت اورگورننس میں اپنے سندھی ہم منصب سے بہت آگے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں وزرائے اعلیٰ کا کوئی موازنہ نہیں ، قائم علی شاہ کو تیسری مدت کے لیے منتخب کرنے سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے نزدیک کارکردگی کا معیار یا اہمیت کیا ہے؟اس میں کوئی شک نہیں کہ عام سندھی پیشہ ور افراد بھی اتنے ہی ماہر ، باصلاحیت اور جفاکش ہیں جتنے ملک کے دوسرے حصوں میںرہنے والے ان جیسے افراد، لیکن فرق ان کے طبقہ اشرافیہ کی کارکردگی اورگورننس کا ہے۔افسوس! اس میں تبدیلی کے آثار ہویدا نہیں ہورہے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ اس کالم کی ''پاداش‘‘ میںمیرا میل باکس غصیلی میلز سے بھر جائے، میں آپ کے سامنے ایک ذاتی مثال پیش کرتا ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں، مَیں منسٹری آف کلچر سندھ میں جائنٹ سیکرٹری تھا۔ وزیر صاحب پیپلزپارٹی کے ایک ''تھم‘‘ تھے۔ اُنہیں کاغذات پر دستخط کرنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا تھا اور نہ ہی کلچر وغیرہ کی کچھ سمجھ تھی۔ ایک دن میں حیران رہ گیا جب اُنہوںنے مجھ سے کہا کہ میں اتوارکی صبح ان کی رہائش گاہ پرآئوںکیونکہ ایک میٹنگ ہے۔ جب میں وہاں گیا تو مجھے ایک خاص مشروب پیش کیا گیا۔ میں نے یہ کہتے ہوئے انکارکردیاکہ صبح کا وقت ایسے مشروب کے لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔ اس کے بعد وہ اصل موضوع پر آگئے: ''عرفان صاحب! بی بی نے مجھے کہا ہے کہ میں اگلے ہفتے ان کے ساتھ ترکی کے دورے پر چلوں۔ میں آپ سے یہ جاننا چاہتاہوںکہ کیا ترکی بھی سعودی عرب کی طرح کا 'خشک‘ ملک ہے؟ اگر ایسا ہے تو میں وزیرِ اعظم سے کوئی بہانہ بنا کر انکار کر دیتا ہوں‘‘۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ ترکی خشک ملک ہرگز نہیں اور وہاں انہیں حلق ترکرنے میںکوئی دشوار ی نہیں ہوگی۔ اس پر وہ خوش ہوگئے اور میرا شکریہ ادا کیا۔ یہ واقعہ سنانے کا مقصد اپنی پارسائی کااظہار نہیں اور نہ ہی مجھے اس کا دعویٰ ہے، بلکہ میں بتانایہ چاہتاہوں کہ وہ وڈیرے صاحب مشروب کے بغیر چند دن بھی گزارنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے حالانکہ محترمہ کے ساتھ دورے پرجانا ایک اعزازکی بات تھی۔ سندھ میں عام طورپر صورتِ حال ایسی ہی ہے،کچھ بہت اچھے افراد بھی ہیں، ان سے معذرت۔ اب وقت آگیا ہے کہ سندھی بھائی سنجیدگی سے سوچیں کہ کیا وہ باقی ملک کے عوام جیسی زندگی چاہتے ہیں یا نہیں؟ عوام کو بھی اُنہیں اگلی بار ووٹ ڈالنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا۔