تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-05-2014

منصورہ سے کراچی تک

شاپنگ سنٹر کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد فیصل نے اپنے سمارٹ فون پر پیغام پڑھا۔پڑھ کر کہنے لگا‘ سید منور حسن منصورہ سے کراچی منتقل ہو گئے ہیں۔یہ ایک چھوٹا سا جملہ تھا۔بالکل عام سا جملہ۔ محض ایک سیاسی جماعت کے سابق سربراہ کی لاہور سے کراچی منتقل ہونے کی خبر۔لیکن بات اتنی سادہ نہیں‘ جتنی اس ایک جملے میں نظر آتی ہے۔یہ ایک مذہبی اور سیاسی جماعت کے سابق سربراہ کی اپنی جماعت کے ہیڈ کوارٹر سے اپنے ذاتی گھر چلے جانے کی اطلاع نہیں تھی بلکہ ایک کھرے‘ سچے‘ اندر باہر سے ایک اور راست گو سیاستدان کی رخصتی کی خبر تھی۔
سید منور حسن کے نظریات اور خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔خود مجھے ان کے ذاتی خیالات سے کئی اختلافات تھے اور میں نے اس پر کالم بھی لکھا تھا لیکن ان تمام تر اختلافات سے قطع نظر سید منور حسن کی دیانتداری ‘سچائی‘ ایمانداری اور خلوص نیت سے کم از کم اس عاجز کو تو کوئی اختلاف نہیں۔یہی سچائی‘کھرا پن اور راست گوئی سید صاحب کے جوڑوں میں بیٹھ گئی۔ جماعت اسلامی پاکستان کے پچیس ہزار پانچ سو تینتیس ارکان نے ووٹ کے ذریعے یہ فیصلہ دیا کہ انہیں اگلے پانچ سال کے لیے کسی کھرے اور راست گو امیر کے بجائے سیاسی سوجھ بوجھ والے امیر کی ضرورت ہے۔شاید ان کا فیصلہ درست ہی تھا ۔اصولوں کی سیاست کا شاید ہمارے ہاں چلن ہی نہیں ہے۔ دو چار فاش سیاسی غلطیوں کے باوجود جماعت اسلامی مجموعی طور پر بہت سی پاپولر سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ جمہوری اقدار اور اصولی سیاست کی حامل رہی ہے‘ اس کے باوجود اس کی عوامی مقبولیت کا گراف مسلسل انحطاط پذیر ہے۔
سید ابوالاعلیٰ مودودی ‘میاں طفیل محمد‘قاضی حسین احمد اور پھرسید منور حسن۔ یہ وہ قیادت تھی جس کی دیانتداری‘ سچائی‘ اصول پسندی اور خلوص نیت کے ان کے دشمن بھی معترف رہے ہیں لیکن سید ابو الاعلیٰ مودودی کے بلند علمی مقام اور کام‘میاں طفیل محمد کی درویشی اور فقر‘قاضی حسین احمد کی شخصیت کے متحرک پن اور سید منور حسن کی دیانتداری‘راست گوئی اور خلوص نیت کے باوجود جماعت اسلامی کے سیاسی معاملات روبہ زوال رہے۔سید مودودی جماعت اسلامی کے لیے بے پناہ علمی ورثہ چھوڑ گئے۔ ان کی تحریروں نے عالم اسلام میں مذہبی سیاست کو نئی جہت اور زندگی بخشی۔عالم عرب میں ''عرب بہار‘‘اور سیکولر ترکی میں اسلام پسندوں کی انتخابات میں کامیابی کے پیچھے اس لٹریچر اور علمی ورثے کا بہت بڑا ہاتھ تھا لیکن پاکستان میں معاملہ الٹ ہو گیا۔جماعت اسلامی کے ارکان اور تھنک ٹینک نے اس ناکامی کے منطقی اور حقیقی عوامل پر غور کرنے کے بجائے یہ فیصلہ کیا کہ اب اصولوں کی سیاست کے بجائے صرف سیاست کرنی ہے۔سو انہوں نے سراج الحق کا انتخاب کر لیا۔گمان غالب ہے کہ وہ مولانا فضل الرحمن سے متاثر ہو گئے ہوں گے۔ 
نئے امیر کے انتخاب کے دو چار دن بعد میری ملاقات جماعت اسلامی کے ایک ذمہ دار سے ہوئی اور میں نے اس تبدیلی کے بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگے کہ یہ جماعت اسلامی میں موجود جمہوری نظام اور ارکان جماعت کی آزادانہ رائے کا ایک شاندار مظاہرہ ہے۔اس سے قبل سید مودودی از خود جماعت کی امارت سے علیحدہ ہو گئے تھے۔انہوں نے چنی گوٹھ والے مشہور اجتماع میں جماعت کے سیاست میں حصہ لینے یا نہ لینے کے معاملے پر ہونے والے اختلاف پر اپنے موقف کے منظور یا مسترد ہو جانے تک امارت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور جب ان کے موقف پر جماعت اسلامی کے ارکان نے اعتماد کا اظہار کر دیا اور ان کے مخالفین کے موقف کو مسترد کر دیا تو انہوں نے امارت کی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لیں۔بعدازاں وہ ازخود امارت سے دستبردار ہو گئے اور میاں طفیل محمد جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہو گئے۔مولانا مودی 1941ء سے 1972ء تک اکتیس سال امیر جماعت اسلامی رہے۔ جن میں سے چھ سال وہ امیر جماعت ہند(قیام پاکستان سے قبل) اور پچیس سال امیر جماعت اسلامی پاکستان رہے۔میاں طفیل محمد 1966ء سے 1971ء تک امیر جماعت اسلامی مغربی پاکستان رہے اور 1972ء سے 1987ء تک پندرہ سال امیر جماعت اسلامی پاکستان رہے اور وہ بھی تین مرتبہ امیر منتخب ہونے کے بعد چوتھی مرتبہ از خود دستبردار ہو گئے۔ ان کے بعد آنے والے امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد 1987ء سے 2009ء تک بائیس سال جماعت کی امارت پر فائز رہے اور وہ بھی بائیس سال تک امیر جماعت رہنے کے بعد چھٹی مرتبہ امارت کے استصواب سے علیحدہ ہو گئے اور سید منور حسن امیر جماعت اسلامی منتخب ہو گئے۔یعنی پہلے تینوں امیر جماعت اسلامی ازخود ریٹائرہوئے۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ارکان نے اپنے موجودہ امیر کا نام تین امیدواروں کے پینل میں ہونے کے باوجود نیا امیر منتخب کیا ہے۔کیا کسی اور سیاسی جماعت میں ایسا ممکن ہے؟پھر کیا یہ ممکن ہے کہ اس طرح امیر تبدیل ہو اور پہلا امیر صدق دل سے نئے امیر کی اطاعت کرلے اور اپنا دھڑا لے کر الگ نہ ہو جائے؟کیا یہ تبدیلی اس سوچ کی نفی نہیں کرتی کہ جماعت اسلامی والے اپنے موجودہ امیر کے علاوہ کسی اور شخص کا انتخاب نہیں کر سکتے؟یہ اس تسلسل کا خاتمہ ہے کہ امیر صرف از خود دستبردار ہوتا ہے وگرنہ موجودہ امیر کی موجودگی میں نیا امیر منتخب نہیں ہو سکتا۔جماعت کا وہ ذمہ دار بڑی منطقی گفتگو کر رہا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ آخر سید منور حسن کو تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟جماعت کے ارکان نے اپنے پرانے امیر کے کس اقدام کی بنیاد پر ‘کس پالیسی سے اختلاف کے باعث اور کس بات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے اپنا نیا امیر منتخب کیا ہے؟ آخر کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ انہوں نے صرف پانچ سال کے بعد ہی سید منور حسن کو فارغ کر دیا؟وہ ذمہ دار کہنے لگا‘ یہ جماعت اسلامی میں موجود جمہوری اور آزاد کلچر کا ایک نمونہ ہے۔میں نے کہا آپ کی بات درست مگر اس تبدیلی کی کوئی وجہ؟اس جمہوری اختیار کے استعمال کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟ اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
میں نے کہا‘ آپ شاید اقرار نہ کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان کی تبدیلی کے پیچھے صرف ان کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے حکیم اللہ محسود کو شہید اور پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شہید قرار دینے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ صاحب خاموش رہے اور یہ خاموشی ایک طرح کا اقرار تھا۔میںنے کہا‘ کیا آپ جماعت اسلامی والے گلیوں‘ محلوں‘ دفتروں اور گھروں میں یہی بات نہیں کرتے؟کیا ہمارے مذہبی رہنمائوں کی اکثریت اسی خیال کی حامل نہیں ہے؟کیا آپ لوگ محفلوں میں یہی بات نہیں کہتے؟اس بات کو چھوڑیں کہ سید 
منور حسن نے درست کہا یا غلط۔کم از کم آپ کے نزدیک تو انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔پھر آپ لوگوں نے ان کے بیان کی تائید بھی کی۔شوریٰ نے اس مسئلے پر ان کا احتساب نہ کیا۔گویا شوریٰ نے ان کے بیان کی خاموش تائید کی۔اخلاقاً آپ کو چاہیے تھا کہ اگر آپ ان کے بیان سے متفق نہ تھے تو شوریٰ میں ان سے باز پرس کرتے۔بحیثیت جماعت ان کے بیان سے بریت کا اعلان کرتے۔ساری جماعت اور شوریٰ تب ان کے بیان کی تائید کرتی رہی اورانتخاب میں آپ لوگوں نے ڈنڈی ماری۔آپ نے یا تو ان کے بیان کے بعد منافقت کی یا انتخاب کے دوران کی‘ لیکن یہ بات طے ہے کہ آپ لوگوں نے سید منور حسن کے ساتھ ہاتھ کیا ہے۔جب وہ استصواب سے دستبرداری کا اعلان کر رہے تھے تب آپ نے ان کو دستبردار کیوں نہ ہونے دیا؟
درویش صفت‘فقیر منش اور تلخی کی حد تک راست گو سید منور حسن بائیس سال منصورہ کے ایک کمرے میں گزارنے کے بعد اپنا بوریا بستر لے کر مستقل کراچی شفٹ ہو گئے ہیں لیکن یہ محض ایک شخص کے لاہور سے کراچی چلے جانے کا واقعہ نہیں ہے‘ بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب ہماری سیاست میں سچائی‘ درویشی‘ دیانتداری اورراست گوئی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ہماری پہلی ترجیح اب صرف سیاست ہے۔اصولوں کی سیاست کا باب بند ہوا اور فی زمانہ رائج سیاست کا آغاز ہوا۔
میں نے درویش سے پوچھا کہ سید منور حسن کی طبیعت میں اتنی سختی کیوں تھی؟وہ اتنے بے لچک اور تلخ کیوں تھے؟درویش کہنے لگا اگر تم نے کراچی میں جماعت اسلامی والوں کی زندگی گزاری ہوتی تو تمہیں ان کی طبیعت میں موجود سختی‘بے لچک پن اورتلخی کی سمجھ آ جاتی۔پھر کہنے لگا اگر وہ سخت‘بے لچک‘تلخ اور تکلیف دہ حد تک راست گو نہ ہوتے تو ولی ہوتے۔عام آدمی کو‘یعنی تم جیسے لوگوں کو ان کے بارے میں پتہ ہی کیا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved