برصغیر کے سب سے بڑے شاعر مرزا بیدلؔ دہلوی نے کہہ ر کھا ہے کہ شعرِ خوب معنی ندارد۔ غالبؔ جو خود بیدلؔ کا پیروکار تھا اور اخیر کہہ اٹھا تھا کہ ؎
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ لکھنا
اسداللہ خاں قیامت ہے
تو اس کے اشعار بھی لوگوں کی سمجھ میں کب آتے تھے جو اسے کہنا پڑا کہ ؎
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی‘ نہ سہی
جبکہ اس کا اپنا مسئلہ بھی یہی تھا‘ چنانچہ فرمایا کہ ؎
مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے جسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل و گر نہ گویم مشکل
یعنی شعر نہ کہوں تو بھی مصیبت ہے اور اگر کہوں تو بھی۔ واضح رہے کہ یہ سارا ذکر غزل کے حوالے سے ہو رہا ہے جس کے سمجھنے میں بالعموم دقت نہیں ہوتی جبکہ نظم کا تو معاملہ ہی اور ہے۔ پھیکی چائے کی طرح اس کا بھی ٹیسٹ ڈیولپ کرنا پڑتا ہے۔ ہماری ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہم نظم سے بھی غزل ہی کی طرح لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں اور اکثر ناکام رہتے ہیں۔ بیدلؔ نے جو بات کہی ہے‘ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عمدہ شعر میں معنی ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ کہ شعر میں معنی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے مثلاً استعاراتی ٹکڑے اور الفاظ کی نشست و برخواست وغیرہ۔ غالبؔ ہی کی مثال دوں گا ؎
گر بہ معنی نہ رسی جلوۂ صورت چہ کم است
خمِ زلف و شکنِ طرفِ کُلاہے دریاب
ایک نظم اگر آپ کو اپنے دروبست کے لحاظ سے اچھی لگ رہی ہو اور سمجھ میں نہ بھی آ رہی ہو تو آپ کا حسنِ ذوق اُسے کبھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ ہر نظم بلکہ کوئی بھی جدید نظم شکوہ‘ جوابِ شکوہ کی طرح نہیں ہوتی‘ نہ ہی اس سے ایسی ہونے کا تقاضا کرنا چاہیے کیونکہ نظم سراسر نئے پیرہن اور پیکر میں منقلب ہو رہی ہے۔ پھر‘ ابہام کا ایک اپنا لطف ہے اور اِسے اس کے نمبر بھی دینا چاہئیں۔
ایک عورت اگر پوری کی پوری مرقّعِ جمال نہ بھی ہو تو کسی نہ کسی جانب سے اس کی دل کشی آپ کو اپنی طرف راغب کر سکتی ہے بلکہ یار لوگ تو گال کے تِل پر ہی مر مٹتے ہیں۔ اسی طرح نظم کو بھی دیکھنا پڑے گا کہ وہ کہاں کہاں سے دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ غزل ایک چیلنج کی صورت میں اپنے آپ کو پیش کرتی ہے جبکہ نظم اور طرح کا چیلنج ہوتی ہے جو آپ کو امتحان میں بھی ڈال سکتی ہے۔ بے شک وہ خود بھی ایک امتحان یا معمے سے کم نہیں ہوتی۔ اس پانی میں ڈبکی لگائے بغیر اس کے اوصاف سے آشنائی نہیں ہو سکتی حتیٰ کہ اس کے ٹھنڈے گرم ہونے کا بھی صحیح طور پر اندازہ نہیں ہو سکتا۔
میں نے فاروقی کی نظم کو اس لحاظ سے بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ مجھے کہاں کہاں سے اچھی لگی ہے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ یہ مجھے ساری کی ساری ہی دلکش لگی ہے۔ آپ بھی اسے دوبارہ پڑھ کر دیکھیں ضروری نہیں کہ آپ کی سمجھ میں بھی آئے‘ میری سمجھ میں بھی اس طرح سے نہیں آئی جیسی کہ ایک عام نظم آنی چاہیے کیونکہ یہ ایک عام نظم ہے ہی نہیں۔ ویسے بھی‘ اگر آپ کو نظم پوری کی پوری سمجھ میں آ جائے تو پھر پیچھے کیا رہ جاتا ہے۔ اسے دوسری بار پڑھنے کا تکلف آپ کو کرنا ہی نہیں پڑے گا اور‘ جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ نظم آپ کی زندگی سے نکل گئی ہے اور آپ کا اس کے ساتھ کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔ نظم دو جمع دو چار نہیں ہوتی بلکہ یہ ایک طلسم خانہ ہے جس کے اندر داخل ہو کر ہی حیرت زدہ ہوا جا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ اس کی دلربائی کا اندازہ باہر سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ نظم تک رسائی کا ایک یہ طریقہ بھی ہے بشرطیکہ آپ اس کے معنی کے چکر میں پڑنے سے احتراز کریں۔
سو‘ اب نوبت تو یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ نظم کے معانی اس کی اضافی خوبی ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ اس کا اصل حسن سارے کا سارا اس کے ظاہر میں ہے جبکہ یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ نظم میں کچھ کہنے کی کوشش ہی کی جائے۔ نظم جب آپ کے وجدان میں آتی ہے تو ضروری نہیں کہ ایک بات کی شکل میں ہی آئے۔ وہ سراسر ایک الجھائو کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے؛ چنانچہ اس کا بیان بھی مکمل طور پر غیر واضح انداز میں ہوتا ہے اور اسے پڑھتے وقت بھی ایک الجھائو کی گنجائش رکھنا پڑتی ہے کہ بعض اوقات صاف چیزوں کی نسبت دھندلی اشیا زیادہ خوبصورت لگتی ہیں۔
نظم بجائے خود انسانی ذہن کی طرح پیچیدہ ہونے کا بھی حکم رکھتی ہے کیونکہ یہ ہاتھوں سے تشکیل دی گئی کوئی چیز نہیں ہوتی جیسے کہ کوزہ گر نے کوزہ بنا دیا اور آپ کو اس کی ساری خوبصورتی اور نفاست سمجھ میں آ گئی۔ حتیٰ کہ نظم کے بعض حصوں کو ارادتاً مبہم رکھنا پڑتا ہے تاکہ اسے معنی خیز بنایا جا سکے۔ اور نظم اتنی سیدھی سادی چیز ہوتی بھی نہیں۔ اس کے پردے کھولنے پڑتے ہیں اور بے شک ان پردوں کا ایک اپنا حسن بھی ہوتا ہے۔ میں اگر نظم نہیں لکھتا تو اس لیے نہیں کہ یہ مجھ پر وارد نہیں ہوتی‘ بلکہ اس لیے کہ غزل کے ساتھ میرا ہنی مون ابھی ختم نہیں ہوا۔
نظم کو تو اپنے ساتھ سلانا چاہیے تاکہ اس کے ساتھ مکالمہ ہو سکے یعنی بقول شاعر ع
سوال آہستہ آہستہ، جواب آہستہ آہستہ
آخر میں ان دوستوں سے اظہارِ معذرت جو فاروقی کی نظم سے کوئی سبق حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
آج کا مقطع
بیاضِ آرزو کی اب ظفرؔ صورت ہے کچھ ایسی
کہیں صفحہ نہیں ملتا کہیں تحریر غائب ہے