تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-05-2014

انسان کی مددگار و معاون مشینیں اور حیوان

میرا بڑا بھائی سافٹ ویئر انجینئر ہے۔ کل اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں ''آرٹی فیشل انٹیلی جنس اسسٹنٹ‘‘ کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟ مجھے معلوم تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے مراد کمپیوٹر اور موبائل جیسے آلات کو اس قدر ذہانت سے نوازنا ہے کہ وہ ہم انسانوں کے لیے خود سے فیصلے صادر کر سکیں لیکن یہ ''اسسٹنٹ صاحب‘‘ کہاں سے آ گئے؟ بھائی نے اپنا موبائل فون نکالا۔ اس میں مصنوعی ذہانت سے متعلق ایک پروگرام ''کورٹانا‘‘ (Cortana) موجود تھا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ ایک اسسٹنٹ یعنی نائب کی طرح ہر وقت مددگار ہو۔ اب اس سے بات چیت شروع کی گئی۔ ظاہر ہے کہ ہم برّصغیر کے لوگوں اور انگریزوں کے لہجے (Accent) میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کورٹانا کا کمال یہ تھا کہ وہ ایک سیکنڈ کے اندر اندر لہجے کے اس فرق سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کی خود ہی اصلاح کرتا جاتا۔ مائیکروسافٹ کمپنی کا بنا ہوا یہ پروگرام نسوانی زبان میں گفتگو کر رہا تھا۔
سوال: تمہارا نام کیا ہے؟ جواب: کورٹانا۔ سوال: تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟ جواب: تکنیکی طور پر بل گیٹس میرا باپ ہے۔ سوال: کیا تم مجھے صبح سات بجے اٹھا سکتی ہو؟ جواب میں موبائل پر فوراً ہی سات بجے کا الارم خود بخود لگ گیا (یہ کورٹانا کا کمال تھا)۔ سوال: میں اپنے بھائی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ جواب: آپ کے تین بھائی ہیں، آپ ان میں سے کس سے بات کریں گے؟ ساتھ ہی تینوں بھائیوں کے نام سکرین پر دے دیے گئے۔ بھائی صاحب نے کہا کہ میں بلال الرشید سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ فوراً میرے لیے نمبر پر کال ملا دی گئی۔ کال ختم کر کے، کورٹانا سے کہا گیا کہ اگلی بار جب میں بلال کا نمبر ملائوں تو یہ یاد دلا دینا کہ مجھے کوئی خاص بات کرنا ہے۔ اس کے بعد دوبارہ بلال کا نمبر ملانے کا حکم دیا گیا۔ فوراً ہی سکرین پر یہ لکھا ہوا آگیا کہ آپ کو اپنے بھائی سے کوئی خاص بات کرنا ہے۔ آخر میں اس سے دوبارہ پوچھا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ جواب: گو کہ میں پہلے بھی آپ کو بتا چکی ہوں لیکن پھر سن لیجیے...
قارئین یہ افسانہ نہیں، حقیقت ہے، سو فیصد حقیقت۔ وہ ہر موضوع پر بات کر رہی تھی۔ میں ششدر بیٹھا تھا کہ یہ تو واقعی ایک انتہائی مددگار نائب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی ذہین آدمی آپ سے ہم کلام ہے۔ مجھے ایسا لگنے لگا کہ نفسانفسی کے اس دور میں شاید ایک دن بعض لوگوں کے لیے ایسے پروگرام جذباتی وابستگی تک کا باعث بننے لگیں۔ ظاہر ہے کہ موبائل ہی نہیں، مصنوعی ذہانت کے یہ پروگرام روبوٹ سمیت دوسرے آلات میں بھی استعمال ہوں گے۔ شاید گاڑیوں میں بھی۔ جاپان سے درآمد ہونے والی آٹھ دس لاکھ روپے کی ایسی گاڑیاں تو اب بھی موجود ہیں جو کچھ نہ کچھ کلام کرتی ہیں۔ دروازہ کھلا رہ جانے پر، چابی اگنیشن میں رہ جانے پر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی دوسری گاڑی کے قریب آ جانے اور 
ٹکرائو کا خطرہ پیدا ہونے پر وہ فوراً انتباہ کرتی ہیں۔ 
کورٹانا ابھی آزمائشی مراحل میں ہے لیکن اسے حاصل (Download) کیا جا سکتا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت کا واحد پروگرام نہیں لیکن غالباً سب سے سمجھدار ہے۔ فی الحال اسے موبائل کی سکرین پر سے کھولنا پڑتا ہے لیکن وہ وقت دور نہیں جب موبائل جیب میں ہو گا اور وہ آپ سے مخاطب ہو گا‘ مثلاً گاڑی چلاتے ہوئے، آپ یہ حکم دیں گے کہ فلاں دوست کا نمبر ملایا اور سپیکر آن کر دیا جائے یا فلاں بندے کو یہ تحریری پیغام (Text Message) بھیج دیا جائے۔ اس صورت میں موبائل کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت نہ ہو گی اور ہم حادثات سے بچ سکیں گے۔ کمزور یادداشت کے لوگوں کے لیے تو یہ ایک انمول تحفہ ہوگا، جو ہر وقت انہیں ضروری امور یاد دلاتا رہے گا۔ 
گوگل (Google) وہ سب سے موثر سرچ انجن ہے، جو انٹرنیٹ پر آپ کو درکار کوئی بھی مواد چند لمحات میں ڈھونڈ نکالتا ہے۔ گوگل گلاس کے نام سے ایک عینک تو پہلے ہی زیرِ استعمال ہے۔ یہ بھی آواز کے ذریعے حکم بجا لاتی ہے۔ آنکھ کے بے حد قریب ہونے کی وجہ سے، اس عینک کا چھوٹا سا شیشہ، آپ کو ایک بڑی سکرین کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ سرچ (Search) ہی کے لیے استعمال ہوتی ہے لیکن اس کے ذریعے آپ اس کمپنی کے دوسرے پروگرام جیسا کہ دنیا کا نقشہ (Google Map)، الیکٹرانک خط و کتابت (Gmail) وغیرہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ محدود نوعیت کے پروگرام تھے لیکن پھر اس کمپنی نے دنیا بھر کے ماہرین کو بنیادی ڈیٹا فراہم کرتے ہوئے انہیں یہ اجازت دی کہ وہ اس کے لیے نت نئے پروگرام تشکیل دیں۔ اس سلسلے میں کافی کام ہو چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں سوشل میڈیا کی ویب سائٹس مثلاً فیس بک، ٹوئٹر اور بہت کچھ اس عینک میں استعمال کیا جائے گا۔ برسبیلِ تذکرہ سوشل میڈیا بے حد دلچسپ ہے لیکن یہاں وقت کا ضیاع کی کوئی حد نہیں۔ یہ نرا کھیل تماشا ہے۔ اگر ڈیٹا اکٹھا کیا جا سکے کہ ملک کے طول و عرض میں، کل کتنے گھنٹے دل بہلانے والے ان مشاغل میں ضائع ہوتے ہیں تو قوم کے اعصاب پر یہ ہتھوڑے کی طرح برسے گا۔ میں نے تو بڑی مشکل سے اس سے جان چھڑائی۔ آپ سب لوگوں کو بھی میرا یہی مخلصانہ مشورہ ہے۔ اس کی بجائے تیراکی اور اس طرح کی دوسری سرگرمیاں جسم اور ذہن کے لیے بے حد مفید ہوں گے۔ 
شروع میں مائیکروسافٹ کے جس پروگرام کورٹانا کا ذکر کیا تھا، وہ گوگل کمپنی کو بھی مجبور کرے گا کہ وہ اپنی عینک گوگل گلاس میں بھی اس جیسی فائدہ مند خصوصیات کا اضافہ کرے۔ عینک کی طرح اب کلائی پر پہننے والی اسی قسم کی گھڑیاں بھی بنائی جا رہی ہیں۔ قارئین کورٹانا کے حوالے سے جب میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک زبردست معاون اور نائب کے طور پر استعمال ہو گا اور بعض لوگ شاید اس سے جذباتی وابستگی بھی استوار کرلیں تو معروف سائنسدان ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا ایک مضمون مجھے یاد آتا ہے۔ Max Planck Institute for evolutionary anthropology کے تحت جب چوہوں میں وہ ''لسانی جین‘‘ شامل کیے گئے جو انسان کو بولنے کی طاقت عطا کرتے ہیں تو ان کی آواز میں ڈرامائی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ یہ جین قوّت گویائی سے متعلق اعضا زبان، لب، آلہء صوت اور پھیپھڑوں کے آپس میں ربط کا ذمہ دارہے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ آخرکار انسانوں کی طرح بولنے والے کتّے، بلّیاں اور چوہے وغیرہ تخلیق ہوں گے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ہی زمانہ حضورِ پاکؐ کے اس قول پہ مہرِ تصدیق ثبت کر دے گا کہ قیامت سے قبل انسان جانوروں سے کلام کرے گا (مفہوم)۔ مصنوعی ذہانت سے لیس موبائل، روبوٹ اور دیگر آلات کی طرح، کیا یہ جانور بھی ہمارے نائب اور مددگار ہوں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved