آخر کار مذاکراتیوں کا ہر روز‘ سرشام کھیل تماشا دکھانے کے کاروبار پر مندا آ گیا۔ میں کئی دنوں سے مذاکراتیوں کی ڈرامائی سرگرمیوں کی نشاندہی کر رہا تھا‘ آخر کار حکومت کی توجہ بھی اس طرف چلی گئی اور وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کو کہنا پڑا کہ ''کھینچاتانی میں طالبان سے مذاکرات جاری نہیں رہ سکتے۔ جن کا کام معاونت تھا‘ وہ روزانہ سربازار جلسے کر رہے ہیں۔ حساس معاملات کا تماشا بنا دیا گیا۔‘‘مولانا سمیع الحق اپنی پرفارمنس دے رہے تھے‘ تو پروفیسر ابراہیم اپنے فن خطابت کے جوہر دکھا رہے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ اصل مقابلہ انہی دونوں کے درمیان ہے۔ مجھے نہیں پتہ گزشتہ تین مہینے کے دوران کون‘ زیادہ سے زیادہ عرصہ ٹی وی سکرینوں پر چھایارہا۔ میرا سرسری سا مشاہدہ یہ ہے کہ اس مقابلے میں پروفیسر ابراہیم بھاری مارجن سے جیت چکے ہیں۔ اصولی طور پر چوہدری نثار کے بیان کے بعد کمیٹیوں کی افادیت ختم ہو چکی۔ سرکاری ٹیم کے اراکین کوتو پہلے ہی خودنمائی سے روک دیا گیا تھا۔طالبانی کمیٹی کے مذکورہ دواراکین نے‘ اودھم مچا رکھا تھا۔دیکھنا یہ ہے کہ وہ اب کیا کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے ‘ انہیںٹی وی سکرینوں کی عادت پڑ چکی ہے۔ آسانی سے اسے نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی پہلی دلیل یہ ہو گی کہ کسی حکومتی بیان سے ہماری پوزیشن پر فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں طالبان نے مذاکراتی کمیٹی کا رکن نامزد کیا ہے۔ جب تک وہ باضابطہ طور پر کمیٹی کو ختم نہیں کرتے‘ ہم بدستوران کے نمائندے رہیں گے اور اس حیثیت میں ہمارے ٹی وی میں آنے پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔دوسری طرف وہ طالبان سے کہیں گے کہ ہم آپ کی کمیٹی کے اراکین کی حیثیت میں‘ جب بھی ٹی وی سکرین پر آئیں گے‘ تو آپ ہی کی نمائندگی کر رہے ہوں گے۔ آپ براہ راست تو کسی ٹی وی چینل پر نہیں آ سکیں گے۔ ہم نے راستہ دیکھ لیا ہے۔ اگر ہم آپ کی کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے‘ ٹی وی چینلز پر بولیں گے‘ تو حقیقت میں یہ آپ کی نمائندگی ہو گی اور اس طرح باغی ہونے کے باوجود‘ آپ پاکستان کے میڈیا پر ہمارے ذریعے اپنا موقف پیش کر پائیں گے۔ میرا خیال ہے یہ دلیل طالبان کے لئے موثر ثابت ہو گی۔ ان کا کوئی لیڈر‘ ٹیلیویژن سٹیشن پر آ کر اپنا موقف پیش کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔وہ پراپیگنڈے کے لئے ان حضرات کی خدمات سے بھرپور استفادہ کر سکتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا‘ اس کھیل میں شریک ہوتا ہے یا نہیں؟ طالبان ‘ ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے میڈیا میں ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے یا ان کی پالیسیوں سے اتفاق کرنے والے کتنے لوگ موجود ہیں؟ انہوں نے مذاکرات کے لئے جب اپنی کمیٹی کے اراکین نامزد کئے تھے‘ تو ان میں دو صحافیوں کے نام بھی شامل تھے‘ جو پرنٹ میڈیا میں لکھتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر کثرت سے نمودار ہو کر جو کچھ کہتے ہیں‘ وہ طالبان ہی کے مفاد میں ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انہیں طالبان نے اپنی ترجمانی کے لئے کمیٹی کے اراکین نامزد کیا‘ لیکن وہ سمجھدار نکلے۔ طالبان سے اپنی وابستگی کا باقاعدہ اظہار کرنے سے ان کی صحافیانہ حیثیت متاثر ہو سکتی تھی۔ دونوں نے فوری طور پر کمیٹی میں شرکت سے انکار کر دیا۔ میرے خیال میں یہ ان کا درست فیصلہ تھا۔ جس طرح طالبانی کمیٹی کے اراکین نے ٹی وی سکرینوں پر قبضہ جمایا تھا‘ وہ ان دونوں کے لئے مشکلات کا باعث بنا۔پہلے ہی دو اراکین نے جو تماشا لگایا‘ اس پر حکومت بھی پریشان ہو گئی۔ اگر میڈیا سے تعلق رکھنے والے دو مزید اراکین بھی میدان میں آ جاتے‘ تو پھر ٹی وی چینلز پر مذاکرات ہی مذاکرات کے چرچے ہوتے۔ ٹیلیویژنز پر نہ کسی خبر کی گنجائش رہتی اور نہ ہی خبر بنتی۔
مذاکرات کے نام پر بہت کچھ ہوا۔ طالبانی مذاکراتی ٹیم کے جو دو اراکین ٹاک شوز میں امیتابھ بچن کو مات دینے پر تلے تھے‘ ان کے مقابلے میں اترنا آسان نہیں تھا۔ مولانا سمیع الحق کی شخصیت اور اس پر ان کی پوشاک کے جاہ و جلال کے سامنے‘ کوئی بھی عام آدمی نمایاں نہیں ہو سکتا۔ مولانا بہت حوصلے والے انسان ہیں۔ ورنہ ہم میں سے کوئی اکبر بادشاہ جیسا لباس پہن کر‘ ہاتھ میں پھول تھامے‘ ٹی وی پر آ جائے یا بازار میں نکل جائے‘ تو دو قدم چلنا مشکل ہو جائے گا۔ راہ گیر دیکھ دیکھ کر رکیں گے۔ جو نہیں رکیں گے‘ وہ دور تک منڈی مروڑ کے دیکھتے جائیں گے۔ بڑے تو لحاظ کر دیتے ہیں‘ بچوں کو کون روکتا۔ انہیں کچھ نہ کچھ کہنا ہی تھا۔ مولوی حضرات نے جو طرح طرح کے گائون‘ چوغے اور لبادے ایجاد کئے ہیں‘ ماضی میں علما حضرات ان سے ناواقف تھے۔ صرف کچھ امام مسجد ایسے ضرور ہوتے‘ جو خطبہ جمعہ پڑھتے وقت ایک سادہ سا چوغہ پہن لیا کرتے۔ البتہ شیعہ حضرات مجالس پڑھتے وقت ہی نہیں‘ عام زندگی میں بھی چوغہ پہنے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ کافی مدت سے ہو رہا ہے‘ اس لئے لوگ انہیں حیرت سے نہیں دیکھتے۔ لیکن مولانا حضرات نے نئے فیشن دار چوغے‘ چندہی برس پہلے ڈیزائن کرنا شروع کئے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد ہے‘ سینئر علمائے کرام میں شاید ہی کوئی امتیازی لباس میں نظرآتا ہو۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی‘ مولانا مفتی محمود‘ مولانا غلام غوث ہزاروی‘ مولانا عبداللہ درخواستی‘ مولانا عبیداللہ انور‘ مولانا محمد بخش مسلم‘ غرض جتنے بھی سینئر علمائے کرام کو میں نے دیکھا ہے‘ وہ سب عام آدمی کی طرح رہتے تھے۔ انہیں نمایاں اور منفرد ہونے کا شوق نہیں تھا۔ البتہ صفائی کا خاص خیال ضرور رکھتے۔ اب ہمارے مولانا حضرات نے‘ طرح طرح کے عبادے اور لبادے بطور خاص ڈیزائن کرانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے مولانا فضل الرحمن جب سیاست میں آئے تھے‘ تو انہیں منفرد اور امتیازی لباس کا شوق نہیں تھا۔ لیکن جب سے انہوں نے یورپ اور امریکہ کے دورے کر کے مختلف مذاہب کے پادریوں اور پروہتوں کو دیکھا ہے‘ انہیں بھی سادہ لباس اچھا نہیں لگتا۔ اب
وہ اکثر سرتاپا ایک چوغے میں ملبوس دکھائی دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ مولانا سمیع الحق سے بھی متاثر ہوئے ہوں۔ منفرد اور امتیازی لباس زیب تن کرنے میں‘ وہ اپنا جواب نہیں رکھتے۔ کیا مجال ہے ‘ کوئی بھی چیز ڈھب کی پہنتے ہوں۔پگڑی باندھنے کے بے شمار اچھے طریقے ہیں۔ مولانا صاحب نے گہری نظر سے پگڑی باندھنے کے تمام اچھے طریقوں کو دیکھااور ان سے پرہیز کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے لئے انہوں نے پگڑی باندھنے کا ایسا طریقہ ایجاد کیا‘ جو صرف وہی برداشت کر سکتے ہیں۔ کبھی کبھی چوغہ پہن لیتے ہیں۔ سردیوں میں ایسا اوورکوٹ پہنتے ہیں‘ جسے مارکیٹ میں کسی خریدار نے پسند نہ کیا ہو۔ مجھے علم نہیں تھا کہ انہیں اپنی ''خوش لباسی‘‘ سے اتنا پیار ہو گا۔ جب میں نے جائزہ لینے کی خاطر ان کا ویب پیج کھولاتو عجیب ہی منظر تھا۔ ان گنت تصویروں کی نمائش لگی تھی اور اس میں 90 فیصد تصویریں خود مولانا کی تھیں۔اگر محض شناخت کے لئے تصویریں لگائی جائیں‘ تو دوچار یا پانچ دس بہت ہیں۔مگر مولانا کی تصاویر تو درجنوں میں نکلیں۔ جہاں تک چہرے کا تعلق ہے وہ تو سب کا ایک ہی رہتا ہے۔ مولانا کا چہرہ کچھ زیادہ ہی ایک رہتا ہے۔ مجھے گمان گزرا کہ مولانا نے یقینا اپنی خوش لباسی کے مختلف انداز دیکھنے کی خاطر‘ تصویروں کی نمائش لگائی ہے۔ میں نے انہیں جس پوز میں دیکھا‘ نئی آن میں دیکھا۔
ہمارے جن مولانا حضرات نے امتیازی لباس پر توجہ دی‘ ان میں ڈاکٹرپروفیسر علامہ طاہر القادری سرفہرست ہیں۔ جب تک ماڈل ٹائون اور شادمان کی مساجد میں امامت کیا کرتے تھے‘ تو وہ بھی ہماری طرح عام آدمی کی طرح رہتے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعد میں انہوں نے امتیازی لباس تیار کرنے کے لئے بطور خاص ‘کسی ڈریس ڈیزائنر کی خدمات حاصل کیں۔ انہوں نے جو پہلا امتیازی لباس تیار کرایا‘ اس کا ڈیزائن ابتدائی نوعیت کا تھا۔ مگر اس کی ڈیزائننگ اور فنشنگ میں تبدیلیاں ہوتے ہوتے‘ موجودہ ڈیزائن تیار ہو گیا۔ مولانا کی جمالیاتی حس خاصی نفیس ہے۔ ان کے لباس کی تراش خراش ‘ صفائی‘ خوش نمائی اور رنگوں کا انتخاب ہمیشہ دیدہ زیب ہوتا ہے اور انہوں نے ٹوپی اور پگڑی کے امتزاج سے‘ اپنے سر کے لئے جو دستار نما کیپ ڈیزائن کرائی ہے‘ وہ کسی زمانے کے مفتی اعظم فلسطین کی دستار سے ملتی جلتی ہے۔البتہ پروفیسر صاحب کا طرزخطابت سب سے منفرد ہے۔ مجھے وہ اس لئے بھی اچھے لگتے ہیں کہ اردو ایسی بولتے ہیں‘ جس میں جھنگوی لہجے کی رمق محسوس ہوتی ہے۔ آج میرا کالم بھی مذاکراتی سرگرمی بن کے رہ گیا۔ کھایا پیا کچھ نہیں۔ گلاس توڑا بارہ آنے۔مذاکراتی ٹیم نے باقی سب کچھ کیالیکن مذاکرات نہیں کئے۔ کرتے کیا؟ ان کو نامزد کرنے والوں کے پاس کچھ کہنے کو ہی نہیں تھا اور جو کچھ وہ کہتے‘ اسے تمام ساتھیوں کی تائید حاصل نہیں ہوتی تھی۔ خود طالبان نے تسلیم کیا کہ انہوں نے جنگ بندی کا جو اعلان کر رکھا تھا‘ اس کی خلاف ورزی میں جن لوگوں نے دھماکے کئے‘ وہ ان کے کنٹرول میں نہیں۔ تو مذاکرات کا فائدہ؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مذاکراتیوں کی پرفارمنس اور بلاوجہ کی آنیوں جانیوں سے‘ حکومت بھی بیزار ہوئی اور طالبان بھی۔ ایک سبق ضرور مل گیا کہ جنگ میں بات بھی ہو سکتی ہے۔