ریاست ڈلیور کا شہر لیوس واشنگٹن سے ڈھائی گھنٹے کی دوری پر ہے۔
وہاں سے کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا ۔ یہ علاقہ ایک پرسکون گائوں کی طرح لگتا ہے۔ لوگ بہت اچھے ہیں۔ ممکن ہی نہیں وہ آپ کو دیکھ کر مسکرائیں یا ہاتھ نہ ہلائیں ۔
لیوس سمندر کے کنارے واقع ہے۔ سرد موسم ، تیز ہوائیں یا پھر اچانک میٹھی دھوپ کی آمد۔ ساحل سمندر پر پانی کی غصیلی اور شورمچاتی لہریں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوتی رہتی ہیں۔ دھوپ نکلی ہو تو پھر سب لوگ ساحل پر ہی ملتے ہیں۔ جتنے خوبصورت، رنگ برنگے اور مختلف قد کاٹھ کے کتوں کی قسمیں میں نے یہاں ساحل سمندر پر گوریوں کی گود میں دیکھی ہیں، شاید پوری عمر نہ دیکھی ہوں گی۔یہاں آنے کا ایک فائدہ ہوا ہے کہ بہت ساری کتابیں جو پچھلے ایک سال میں پڑھنا چاہتا تھا اور نہ پڑھ سکا تھا‘ ان کے لیے وقت مل گیا ہے ۔ اکبر چوہدری کا فون آیا کہ واشنگٹن ہی آجائیں ۔ واشنگٹن پہنچا تو طاہر حنفی سے ملاقات ہوگئی‘ جو قومی اسمبلی میں ایڈیشنل سیکرٹری ہیں اور پبلک اکائونٹس کمیٹی سیکرٹریٹ کے سربراہ بھی ہیں۔ طاہر حنفی اپنی ذہانت اور کام سے محبت کی وجہ سے صحافیوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اوکاڑہ کے اکبر چوہدری کے گھر رات گئے تک محفل جمی رہی۔ اکبر چوہدری کا گھر بھی ڈیرے کی طرح ہے جہاں سفارت کاروں سے لے کر سیاستدان، صحافی‘ سبھی آپ کو یہاں ملیں گے۔ ان کی روایتی مہمان نوازی اور مسکراہٹ کی وجہ سے لگتاہے کہ پورا واشنگٹن ان کا دیوانہ ہے۔ جوں جوں دوستوں کو پتہ چلتا گیا وہ آتے گئے۔ طاہر حنفی اپنی شاعری کی کتاب '' شہر نارسا‘‘کی تقریب رونمائی کے لیے امریکہ آئے تھے۔ ان کی کتاب کو یہاں کافی پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ طاہر حنفی کا کہنا تھا کہ وہ اس کتاب کی آدھی آمدن کینسر کی تحقیق کیلئے عطیہ کر دیں گے کیونکہ ان کی مرحومہ بیوی کا انتقال کینسر سے ہی ہوا تھا اور انہوں نے اپنی شاعری کی کتاب اپنی مرحومہ بیوی ریحانہ طاہر کے نام کی ہے ۔
واشنگٹن میں امتیاز عالم سے ملاقات ہوئی تو کافی دلچسپ وقت گزرا۔ پاکستانی صحافی انور اقبال، خاور مہدی اور واجد علی سید بھی مل گئے اور یوں ایک ایسی محفل کا انعقاد ہوا جو دیر تک یاد رہے گی۔ خاور مہدی سے میں بارہ برس بعد ملا اور خوب انجوائے کیا ۔ خالد محمود جو یہاں اسٹورز کے مالک ہیں‘ انہیں علم ہوا تو وہ بھی امتیاز عالم سے ملنے آن پہنچے۔ گفتگو پاکستانی میڈیا میں جاری جنگ، سول ملٹری ریلیشن شپ سے شروع ہوئی اور حالیہ امریکی رپورٹ تک گئی کہ کیسے امریکہ نے ایک دفعہ پھر پاکستانی مدارس پر الزام لگایا ہے کہ وہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اس محفل میں یہی سوال زیربحث تھا کہ کیا پاکستان میں ایک دفعہ پھر جمہوریت کو خطرہ ہے اور امریکی بیان جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک اور چارج شیٹ ہے‘ وہ سیاسی اور سویلین اتھارٹی کو کسی حد تک مدد دے گا؟
تاہم جوسوال یہاں سب کو پریشان کررہا ہے‘ وہ یہ ہے کہ امریکہ کب تک پاکستان میں جمہوریت کے لیے سویلین حکومت کی حمایت کرتا رہے گا کیونکہ پاکستانی سیاستدانوں کے نزدیک جمہوریت تو لوٹ مار کا ایک نیا ذریعہ بن چکی ہے یا پھر جدید بادشاہت کا ایک نظام‘ جہاں ان کے خاندان اور دوستوں کے سوا اور کسی کو آگے آنے کا موقع نہیں ملتا۔
ان سیاستدانوں نے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اتنی کرپشن کر لی ہے کہ اب لوگ کرپشن کی کہانیوں پر یقین ہی نہیں کرتے اور اب تو کرپشن بھی دھڑلے سے کی جانے لگی ہے۔ کئی کئی ہفتے کابینہ کا اجلاس نہیں ہوتا۔ کوئی باہر سے بیٹھ کر کیسے حکومت چلا سکتا ہے۔ حکمرانوں کے نزدیک جمہوریت سے مراد اپنے رشتہ دار، برادری، دوست اور چند خوشامدی بیوروکریٹس ہیں اور وہ بھی اسی برادری سے جس سے وہ خود تعلق رکھتے ہیں ۔
یہ چند لوگ اب جمہوریت کو چلاتے ہیں ۔
جس ملک میں وزیراعظم کے پارلیمنٹ جانے کی خبر لیڈ چھپتی ہو کہ وہ سات ماہ بعد قومی اسمبلی تشریف لے گئے اور جہاں سینٹ کو باقاعدہ قانون میں ترمیم لانی پڑے کہ وزیراعظم ایک دفعہ وہاں تشریف لایا کریں‘ اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے۔ ایک سال ہونے والا ہے مگر وہ ایک دفعہ بھی سینٹ تشریف نہیںلے گئے۔ اب ایسی جمہوریت کو امریکی کیسے مضبوط کر سکتے ہیں ؟
اسحاق ڈار، فاطمی صاحب ، چوہدری نثار علی خاں، ریٹائرڈ بابو خواجہ ظہیر ( جی ہاں وہ بھی کشمیری ہی ہیں) ہی اب جمہوریت کا حسن بن چکے ہیں ۔ وہی اب فیصلے کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ یا کابینہ کو کس نے پوچھنا ہے۔
وزیراعظم ہائوس میں بزرگ بابو خواجہ ظہیر سارا دن سوچتے رہتے ہیں کہ ڈی ایم جی افسران کی شان و شوکت میں اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ کون کہاں کہاں کھپایا جا سکتا ہے یا پھر وہ اس سمری پر کام کر رہے ہیں کہ اب نئے سرے سے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو بحال کر کے اپنی ڈی ایم جی کلاس کی دہشت کو دوبارہ لوگوں پر نازل کریں ۔
امتیاز عالم کی محفل میں ایک اور سوال زیر بحث تھا: یہ ملک کیسے درست ہوسکتا ہے؟
میں نے کہا‘ جب پنجاب کو این ایف سی سے ملنے والے سات سو ارب روپے صرف لاہور اور ایک آدھ شہر پر ہی خرچ ہوں گے تو پھر کیسے بہتری آئے گی ۔ ہر ضلع کا فنڈ لاہورمیں کھپایا جارہا ہے۔ بابوئوں میں جرأت نہیں رہ گئی کہ وہ پنجاب یا وفاق کے خلاف کوئی بات کر سکیں۔ اب فیڈرل سیکرٹری ختم ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ کلرک ذہنیت کے گریڈ 22 کے افسران نے لے لی ہے۔ بیوروکریٹ کی وہ اعلیٰ کلاس ختم ہوگئی ہے جو کبھی حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جاتی تھی ۔ ظفر الطاف جیسے ذہین اور دلیر افسران اب کہاں سے لائیں جو بینظیر بھٹو، نوازشریف، جنرل مشرف اور شوکت عزیز تک سب کو کابینہ اجلاسوں میں ٹکر جاتے تھے اور ہر دفعہ او ایس ڈی بنائے گئے۔ اب تو خوشامدی اور درباری افسران بیوروکریسی میں جمع ہوگئے ہیں۔ جو کچھ بادشاہ سلامت فرماتے ہیں‘ وہ سر جھکا کر تعمیل کرتے ہیں۔ اس لیے بادشاہ سلامت فرماتے ہیں کہ انہیں Go getter بابو چاہیے جو انہیں قانون نہ بتائے بلکہ ہر غیرقانونی کام کا راستہ تلاش کرے اور وہ بھی مایوس نہیں کرتے۔ لگتا ہے کہ ملک کو کابینہ یا پارلیمنٹ کے ذریعے نہیں بلکہ اپنے چند پسندیدہ بیوروکریٹس کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جن کا گرو وزیراعظم ہائوس میںبیٹھا ہے جو اپنے بیج میٹس کو دھڑا دھڑا اچھی پوسٹیں لے کر دے رہا ہے۔ ان بابوئوں کی اس ملک سے محبت دیکھیں ۔وہ بھی انہی سیاستدانوں کے آلہ کار بن کر
ضلعی حکومتوں کی تباہی کا سبب بنے ہیں ۔ انہوں نے ہی سیاستدانوں کو یقین دلایا ہے کہ اگر ڈپٹی کمشنر ہوگا تو اس کی ضلع میں دہشت ہوگی وگرنہ ناظم کی موجودگی میں اسے کون پوچھے گا ۔ یوں بابو محض اپنے اسٹیٹس سمبل کے لیے سیاستدان کے ساتھ مل گیا ہے۔ اس ملک میں ضلعی نظام کا گلا دبا کر اس کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے جس سے یہ ملک مشکل سے ہی سنبھلے گا ۔
دوسری طرف کوئی بھی نئے صوبے بنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھلا بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ اب کیسے چل سکتا ہے۔ کیوں آپ اضلاع کو انتظامی اور مالی خودمختاری نہیں دے دیتے کہ وہ اپنے اوپر خود حکومت کریں اور اپنے مسائل کو خود حل کریں نہ کہ لاہور کا ایک بابو فیصلے کرے گا ۔
حالت دیکھ لیں کہ لیہ میں صرف دو بستیوں میں ساڑھے تین سو افراد کو کالا یرقان ہوا۔ وہاں تین ماہ سے دوائیاں تک نہیں ہیں ۔ اب کہتے ہیں پہلے ایک سو ٹیکے بھجوائے تھے اور دوسو ٹیکوں کے پیسے نہیں ہیں۔ اب وہ دوسو لوگ مریںیا جئیں‘ اس سے لاہور کے حکمرانوں یا بابوئوں کو کیا فرق پڑتا ہے۔ سات سو ارب این ایف سی سے ملنے تھے۔ وہ مرکز سے لیے ، وہ کہاں خرچ ہوئے اس کا جواب کوئی نہیں دے گا۔
جمہوریت بدنام کر کے رکھ دی گئی ہے۔ ایک بھی سیاستدان ایسا نہیں رہ گیا جس پر مقدمات نہ ہوں یا جس نے اپنے خاندان سمیت اس ملک کو نہ لوٹا ہو یا اپنے رشتہ داروں میں وزارتیں نہ بانٹی ہوں اور پھر بھی ہم امیدرکھتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کو بچانے کا ٹھیکہ امریکہ نے لے رکھا ہے !
ان حالات میں طاہر حنفی کے اس خوبصورت شعرسے بہتر بھلا کالم کا اور کیا انجام یا عنوان ہوسکتا ہے۔
مصلحت سب کا تھا ایمان، بھری بستی میں
سارے دانا تھے کوئی بات نہ سچی کہتا...!