چین میں ایک دوسرے پرکیچڑاچھالنے کا تین روزہ میلہ ختم ہوگیا ہے ۔ میلے میں اپنے اوربیگانے ایک دوسرے پر بلاامتیاز کیچڑ اچھالنے کو Fun اورمستی سمجھ رہے تھے۔ میلے کی جھلکیاں نیوز چینلز نے دکھائیں جن میں مرد ،خواتین، بچے اور بوڑھے سبھی ایک دوسرے کو کیچڑ مل رہے تھے۔اس میں جواں سال لڑکیوں اورلڑکوں کی تعداد نسبتاً زیادہ تھی۔ چین میں یہ ''کیچڑ یوتھ فیسٹیول‘‘ کب سے منعقد ہورہاہے؟ اس کے بارے میں کچھ سراغ نہیں مل سکا لیکن حالات حاضرہ کاجائزہ لیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا کم ازکم ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے اور ان دنوں تو وطن عزیز میں اس کا '' ورلڈ کپ ‘‘ منعقدہورہاہے۔ ماہرقانون اور حقوق انسانی کی علمبردار عاصمہ جہانگیر نے کہاہے کہ اداروںکو اپنا تشخص ' چھوئی موئی ‘ کی طرح کا تصور نہیں کرنا چاہیے،کالعدم تنظیموں کے اظہار یکجہتی سے آئین اور قانون کی سربلندی قائم نہیں کی جاسکتی اورنہ کسی کا امیج ناقابل تسخیر رہ سکتا ہے۔
ورلڈکپ فیم کپتان خان نے گیارہ مئی سے حکومت کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ''پنکچرزدہ‘‘ حکومت کے ایک سال میں ملک کے غریب عوام کے لئے کچھ بھی نہیںکیا گیا۔ انہوںنے الزام لگایاہے کہ 2013ء کے الیکشن کو ' پنکچر‘ لگانے کا کام سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنی سرپرستی میں کیا تھا۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جن کی ساری خوشیاں اورسارے افتخار جعلی ثابت ہوتے ہیں، بالکل اس طرح جیسے سسپنس اورتھرلنگ فلموں میںسماج سیوک اوربڑے بڑے سادھو کردار فلم کے آخر پر فراڈ ثابت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جب افتخار محمد چودھری کو ان کے عہدے پر واپس لانے کے لئے تحریک چلائی گئی تھی، جسے'' تحریک بحالیٔ آزاد عدلیہ ‘‘ کانام دیاگیاتھا تو میں اس میں شامل تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ ملک پر ایک باوردی صدر اورآرمی چیف کا راج تھا جس سے تمام جمہوریت پسند آزادی چاہتے تھے۔ وکلا، سول سوسائٹی ، سیاسی جماعتوں اورمیڈیا سمیت دوسرے اہل وطن نے مل کر تحریک کو موثر بنایا جس سے نئے انتخابات کی راہ ہموار ہوئی اورہم جمہوریت کا ' خون آلود ‘ چہرہ دیکھ سکے۔ عام انتخابات کے انعقاد سے پہلے 27دسمبر 2007ء کی شام محترمہ بے نظیر بھٹوکوسرعام قتل کرنے کے قبیح منصوبے پر عمل درآمد ہوا۔ دہشت گردی کی اس واردات میںمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید ہوگئیںجس سے ملک میں عام انتخابات خطرے میں پڑگئے ۔ نون لیگ کے رہنما میاں محمد نوازشریف نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا لیکن آصف علی زرداری نے میاں نوازشریف کو الیکشن کے لئے راضی کیا جس کے نتیجے میں ملک میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی ۔
جسٹس افتخار محمد چوہدری قوم کے ایسے رہبر اورچیف بن کر ابھرے تھے جن کے جانثار۔۔۔بے شمار، بے شمار تھے، لیکن اس فلم کا انجام بھی وہی ہوا جو ہماری قومی امیدوں کی فلموں کا اکثر ہواکرتاہے۔ محترم نذیر ناجی صاحب نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ تحقیق کریں تو ان پر یہ راز آشکار ہوگا کہ پنکچروںکی تعداد 35نہیں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ انتخابی نتائج آنے پراس وقت کے صدرآصف زرداری نے عمران خان کو فون کرکے بتایا تھا کہ ان کی جیت چرانے کے لئے کس کس نے پنکچر لگائے تھے۔ مینڈیٹ چرانے کے وقوعہ سے مجھے وہ شامی یاد آگیا جس نے شہرکے سہانے موسم کا واسطہ دے کر شام چرانے کی واردات یوں کی تھی کہ ؎
تمہارے شہرکا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرالوں اگر بُرا نہ لگے
اقتدارکے سہانے موسموں کی شامیں چرانے والے استاد چھوٹے خان اوراستاد بڑے خان جیسے '' شام چوراسیوں ‘‘ سے میری قربت نہیں رہی البتہ کلاسیکی موسیقی کے معروف شام چوراسی گھرانے کے گائیکوں سے میری نیاز مندی رہی ہے۔ علاوہ ازیں اقتدار سے محروم ہوجانے والے مخدوموں سے بھی واسطہ ہے جنہیں ان کی آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی توہین عدالت کے تحت اسلام آباد سے ملتان بھیج دیا گیا تھا۔ 29 اپریل کی شام سابق وزیر اعظم سید یوسف رضاگیلانی سے ملاقات ہوئی ۔ یہ ملاقات لاہور ڈیفنس میں واقع ان کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ اس شام '' مرشد پاک ‘‘ سے بہت سی باتیں ہوئیں جو کچھ تو آن دی ریکارڈ تھیں اورکچھ انہوں نے آف دی ریکارڈ کہہ کر ہمارے ظرف کے ساتھ ساتھ ہمارے صحافتی ہاضمے کا بھی امتحان لے لیا۔ اب ہمارے پاس بہت سی بریکنگ نیوز اوربہت سے تجزیے ہیں لیکن ہم چونکہ ذمہ دارانہ صحافت کے ساتھ ساتھ محب وطن صحافت کے بھی ''ہول سیل ڈیلر‘‘ ہیں۔ اس لئے بہت سی اہم خبروں کو قومی سلامتی اورملکی مفاد
کے بلیک ہول میں جھونک رہے ہیں۔ ہم نے مرشد پاک سے کہا کہ آپ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے وہ وزیر اعظم ہیں جنہیں 25 مارچ 2008 ء کو دوتہائی سے بھی زیادہ اکثریت کے ساتھ قائد ایوان منتخب کیا گیا تھااورآپ نے وزیر اعظم منتخب ہوتے ہی پہلے اعلان کے طور پر نظر بند ججوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ پھر ہم نے وہ دن بھی دیکھاجب آپ کو توہین عدالت کا مرتکب قراردے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیاگیا۔ میرے اس سوال پرگیلانی صاحب نے مجھ سے جو بات شیئر کی وہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔گیلانی صاحب نے مجھے بتایاکہ گزشتہ دنوں جب وہ افتخار محمد چودھری کی صاحبزادی کی شادی کے موقعہ پران کے ہاں گئے توجسٹس صاحب نے ان سے ملتے ہوئے کہا '' ہم آپ سے شرمندہ ہیں ‘‘۔ گیلانی صاحب نے کہاکہ آپ اس موقعہ پر یہ بات نہ کریں کیونکہ ہماری روایات کے مطابق بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیںاوران کی رخصتی کے وقت ہم شکوہ شکایت اورسیاسی رنجشوں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں وداع کرتے ہیں۔گیلانی صاحب کی یہ بات سن کر مجھے وہ آج بھی حاضرسروس چیف آف مرشد پاک لگے جبکہ افتخار محمد چودھری صرف ایک ریٹائرڈ چیف دکھائی دیے جن پر پنکچر لگانے کے سنگین الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
اس شام گیلانی صاحب ظاہری طور پر اپنے سماجی مرتبہ اور سیاسی حیثیت کے لحاظ سے فعال دکھائی دیے مگراندرونی طورپر اپنے جواں سال بیٹے کی جدائی کے باعث انتہائی دکھی اور اداس تھے ۔انہوںنے گلہ کیاکہ وزیرداخلہ چودھری نثارعلی خان کو اگرکوئی ویڈیو فراہم کی گئی تھی جسے مبینہ طور پر '' طالبان کی بھیجی ویڈیو ‘‘ قراردیا جا رہا ہے توانہیں سب سے پہلے مجھے اطلاع دینی چاہیے تھی۔گیلانی صاحب نے کہاکہ میرے پاس بھی ایک ویڈیو موجود ہے جو مجھے طالبان کے ایک '' محترم ‘‘ نے بھجوائی تھی۔ چودھری نثاراجازت دیں تو میں بھی وہ سامنے لے آئوں ؟ گیلانی صاحب نے کہاکہ میرے بیٹے کے اغوا کار پہلے 50کروڑ روپے تاوان طلب کررہے تھے ، نون لیگ کی جمہوری حکومت اورچودھری نثار علی خان جیسے فعال وزیر داخلہ کے آنے کے بعد یہ رقم 2ارب روپے کردی گئی ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیںکہ اداروں کی کشمکش میں جمہوریت مضبوط ہوگی یاکمزور؟ گیلانی صاحب نے میرے اس سوال کے جواب میں جو تجزیہ پیش کیا وہ حقیقی اور ایماندارانہ ہے۔ انہوں نے کہا سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ نظریاتی طور پر جمہوریت پسند ہیں یا نہیں ؟ مجھ پر توہین عدالت کا ٹھپہ لگاکر مجھے گھر بھیجاگیا، پیپلز پارٹی کی جمہوری حکومت کو دانستہ ایسے مسائل میں الجھائے رکھاگیا کہ وہ عوام کے مسائل حل نہ کرسکے لیکن اس کے باوجود ہماری حکومت نے بہت کچھ کیا اوربہت کچھ کرنا ابھی باقی تھا۔ میں نے اس شام کا آخری سوال کرتے ہوئے کہاکہ پنکچر لگانے والوں میںنیشنل کاری گر ہی تھے یا انہیں انٹرنیشنل ہنرمندوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی؟ مرشد پاک نے میری طرف دیکھتے ہوئے تھوڑا توقف کیا اورپھر بولے۔۔۔ پنکچر لگانے والوں میں سب اکٹھے تھے۔ میں نے مرشد پاک کے اس ٹیوب لیس بیان کو پنکچر لگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا مطلب ہے کہ اندرون اوربیرون ملک کے سب کاری گر اکٹھے تھے ۔ مرشد پاک نے صرف اتنا کہا، 'جی ہاں۔۔۔ سب اکٹھے تھے‘۔۔۔۔۔ اور پھر لمبی چپ !