تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-05-2014

دُکان پکوڑوں کی

اگر آپ نے سرگوشی ریکارڈ کرائی ہو تو پلے بیک کی صورت میں والیم یعنی آواز بڑھانے پر سرگوشی کی نوعیت تبدیل ہوسکتی ہے؟ یقیناً نہیں۔ ہم والیم خواہ کتنا بڑھائیں، سرگوشی تو سرگوشی ہی رہے گی۔ 
ریس کے لیے اعلیٰ نسل کے گھوڑے تیار کئے جاتے ہیں۔ برف کی گاڑی کھینچنے والے مَدقوق اور تھکے ہارے گھوڑے کسی اور ریس میں تو کیا جیتیں گے، وہ تو بقاء کی ریس میں بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے گھوڑوں کو ریس میں دوڑانے کی کوشش نِری حماقت کہلائے گی۔ 
یہی حال ہماری سرکاری مشینری کا ہے۔ ہم نوعیت تبدیل کئے بغیر صرف تفصیلات بدلنے پر توجہ دیتے رہتے ہیں، لیپا پوتی کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ تزئین و آرائش کو عمارت کے استحکام میں اِضافے سے تعبیر کرنے کی ذہنیت اپنالی گئی ہے۔ یہ ذہن و نظر کا دھوکا ہے مگر سب خوشی خوشی دن رات یہ دھوکا کھائے جارہے ہیں۔ 
سرکاری مشینری کے جن اہلکاروں کا عوام سے براہِ راست رابطہ دن رات رہتا ہے وہ پولیس کے سپاہی ہیں۔ ہمارے ہاں پولیس اہلکاروں کی بھرتی اور تربیت کس طور ہوتی ہے، سبھی جانتے ہیں۔ سیاسی بنیاد پر کی جانے والی بھرتیوں سے پولیس کا دامن بھی اچھا خاصا داغدار رہا ہے۔ لاکھ کوشش کرنے پر بھی پولیس کو مکمل غیر جانبدار بنانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ ہو بھی کیسے؟ جیسی بنیاد ہوتی ہے ویسی ہی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔
بھائی مظفر پولیس کی کرکٹ ٹیم سے وابستہ ہیں۔ ہم نے اُنہیں کرکٹ کھیلتے تو نہیں دیکھا مگر ہاں کرکٹ کی باتیں اُن کے منہ سے ضرور سُنی ہیں۔ اُن باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کھیل بھی لیتے ہوں گے۔گزشتہ دنوں دفتر سے واپسی پر یعنی رات تین بجے کی چائے (!) پر بھائی مظفر سے ملاقات ہوئی تو پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کا ذکر چِھڑ گیا۔ جب کبھی ہمارے پاس دِل بہلانے کے لیے کوئی ڈھنگ کا موضوع نہیں ہوتا، ہم پولیس کی کارکردگی بہتر بنانے کے موضوع پر کچھ دیر بَتیاکر تَفنّنِ طبع کا اہتمام کرلیا کرتے ہیں! 
پولیس کو دہشت گردوں کے سامنے کھڑا کرنا ہمارے چند بنیادی مسائل میں سے ہے۔ جن اہلکاروں کے پاس جدید ہتھیار ہیں نہ اختیارات، اُنہیں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور واضح ''مقاصد‘‘ کے تحت میدان میں اُترنے والے دہشت گردوں کے سامنے کھڑا کرنا ایسا ہی ہے جیسے اکشے کمار سے کہا جائے کہ اداکاری میں دلیپ کمار کو پچھاڑ کر دکھاؤ! 
باتوں ہی باتوں میں ذکر چِھڑ گیا پولیس کے حوصلے بڑھانے کا۔ پولیس کو دہشت گردوں کے سامنے کھڑی ہونے کے قابل بنانے کے لیے حکومت اور کچھ تو کر نہیں سکتی، اِس لیے ہر بار تان ٹوٹتی ہے شہادت کا ''صِلہ‘‘ بڑھانے پر! پولیس کے جو اہلکار دہشت گردوں کے ہاتھوں شہادت کا جام نوش کرتے تھے اُن کے پس ماندگان کو پانچ سے دس لاکھ روپے ملا کرتے تھے۔ پھر پس ماندگان کو بیس لاکھ روپے تک دیئے جانے لگے۔ اولاد کو نوکری بھی ملنے لگی۔ مگر شاید یہ بھی کم تھا۔ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے ایک سمری کی منظوری دی ہے جس کے تحت ہر شہید پولیس اہلکار کے پس ماندگان کو ایک کروڑ روپے ملا کریں گے۔ ہم نے بھائی مظفر کو مبارک باد دی۔ مگر یہ کیا؟ بھائی مظفر تو سوچ میں ڈوب گئے۔ سبب پوچھا تو کہنے لگے۔ ''شہادت پر ایک کروڑ کے 'انعام‘ سے خوف محسوس ہو رہا ہے!‘‘ 
ہم حیران ہوئے کہ اِس میں خوف کی بات کیا ہے۔ اچھا ہے، گھر والے بہترین آسائشوں کے ساتھ زندگی بسر کریں گے۔ اِس پر بھائی مظفر بولے۔ ''ایک کروڑ کا انعام ہی تو پریشانی کا باعث ہے۔ جب سے وزیر اعلیٰ نے سمری کی منظوری دی ہے، ہماری (یعنی پولیس اہلکاروں کی) آنکھوں سے نیند غائب ہوگئی ہے۔‘‘ 
ہم مزید حیران ہوئے۔ کیا پولیس اہلکار جیتے جی ایک کروڑ روپے حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ بھائی مظفر نے وضاحت کی۔ ''ایسی کوئی بات نہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ اب ہم پولیس والوں کو بیویوں اور اولاد سے خطرہ لاحق ہے! دہشت گردوں سے ٹاکرا تو جب ہوگا تب ہوگا، اہل خانہ کے لیے ہم ایک کروڑ روپے کا جیتا جاگتا پرائز بانڈ ہیں! ہمارے جیتے جی تو گھر والوں کو ایک ٹکا نہیں ملے گا اور جیتے جی ہم اُن کے لیے ایک ٹکے کے بھی نہیں۔ اب پولیس اہلکار بیویوں سے لڑتے جھگڑتے ڈرا کریں گے۔ اگر بیویوں نے ایک کروڑ کے پرائز بانڈ کو 'کیش کرانے‘ کا فیصلہ کرلیا تو!‘‘ 
اب ہم سمجھے کہ بھائی مظفر کیوں مضمحل دکھائی دے رہے تھے۔ 
پس ماندگان کو ملنے والی رقم میں اضافے کے فیصلے سے پولیس اہلکاروں کی کارکردگی بہتر تو کیا ہونی ہے، وہ بے چارے تو مزید اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ پولیس کا محکمہ اب تک جو کچھ کرتا آیا ہے وہ محض ایسا ہی ہے جیسے پکوڑوں کی دُکان چلائی جائے۔ صرف باتیں اور دعوے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف فولادی عزم کی بات ہزار بار کہی جاچکی ہے جبکہ تلخ تر حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر پولیس پست معیار کے لوہے کی زنگ آلود چادر سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمومی زبان میں اِس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے کہا جاتا ہے باتیں کروڑوں کی، دُکان پکوڑوں کی! مگر اب محض بات کروڑوں کی نہیں ہے مگر صِلہ بھی کروڑوں میں ہے! ایسے میں بے چارے پولیس اہلکار دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے زیادہ اہل خانہ سے نہ ڈریں تو اور کیا کریں! 
بھائی مظفر پولیس کرکٹ ٹیم میں ہیں۔ گُگلی اور باؤنسر سے وہ بخوبی واقف ہوں گے۔ اور یارکر کے بارے میں بھی جانتے ہی ہوں گے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے پولیس کے ہر شہید اہلکار کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ کے معاوضے کا اعلان کرکے گُگلی کرائی ہے، یارکر کی ہے یا باؤنسر پھینکا ہے، اِس کا درست ترین اندازہ تو بھائی مظفر ہی لگاسکتے ہیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ سرکاری فیصلے سے فی الحال وہ ''ہٹ وکٹ‘‘ ہوگئے ہیں! 
پولیس کے شہید اہلکاروں کے اہل خانہ کے لیے ایک کروڑ روپے کے اعلان پر عبیداللہ علیمؔ کا ایک مطلع بے ساختہ یاد آگیا ؎
عزیز اِتنا ہی رَکّھو کہ جی بہل جائے 
اب اِس قدر بھی نہ چاہو کہ دَم نکل جائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved